ہندوستانی نشریات میں ریڈیو ڈرامے کا تصور روز اول سے ہی رہا ہے ہندوستان میں ریڈیو ڈرامے کی شروعات سے قبل بی بی سی بھی ریڈیو ڈرامے نشر کر چکا تھا۔ اس کی مدت یعنی دو رانیہ کافی لمبا ہوتا تھا ہندوستان میں بھی اسی نہج پر ریڈیو ڈرامے نشر کئے گئے جس کی دو رانیہ دو سے تین گھنٹے تک ہوتا تھا۔ ذوالفقار بخاری اور پطرس بخاری نے اس طرح کے ڈرامے کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ ڈرامہ صرف آدھ گھنٹہ سے ایک گھنٹہ تک کا ہونا چاہئے۔ اس میں طویل مکالمے اور کرداروں کی بھر مار نہ ہو۔ جس دور میں ریڈیو ڈرامے کا آغاز ہوا اس وقت تھیٹر کا چلن عام تھا۔ سید ذوالفقار بخاری جب بمبئی ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر بنا کر بھیجے گئے تو اس وقت تھیٹر کا فی مقبول تھا۔ انہوں نے اپنی خودنوشت میں ایک جگہ لکھا ہے۔

"بمبئی میں ڈرامہ پیش کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں تھیٹر وہاں بچے بچے کی گھٹی میں پڑا ہے اور فلم ایکٹر اور فلم کمپنیوں کی بھر مار ہے۔ مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور نہایت انہماک سے ڈرامے کئے دہلی سے کچھ ایکٹر ساتھ لے گیا ان میں شکیل احمد اور رونق کے نام قابل ذکر ہیں۔" -- (بحوالہ سرگذشت!سید ذوالفقار بخاری صفحہ 225 ایڈیشن 1995 ء)

آل انڈیا ریڈیو کے ساتھ شروع ہی سے یہ المیہ رہا ہے کہ کوئی بھی پروگرام نشر ہونے کے بعد اس کے مسودے کو محفوظ نہیں رکھا جاتا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مسودے کے تحفظ کا کوئی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے نہایت قیمتی مسودے بھی زمانے کے ہاتھوں برباد ہو گئے ان مسودوں میں سے چند ایک کو کسی نے اپنی ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر شائع کر ادیا اور بالخصوص ریڈیو ڈرامے کی اسکرپٹ کو اسٹیج ڈرامے میں تبدیل کر کے شائع کرایا گیا جس کی وجہ سے ریڈیو ڈرامے کے معیار کو متعین کرنے میں خاصی دشواری پیش آئی ہے۔

گذشتہ دو تین دہے میں چند ایسے لکھنے والے بھا سامنے آئے ہیں جو صرف ریڈیو کے لئے لکھتے ہیں اور پھر اسے کتابی صورت میں من و عن شائع کرتے ہیں۔ ریڈیو کے اول دور کے اردو ریڈیو ڈرامے جو کتابی صورت میں محفوظ ہیں کہ علاوہ باقی سب زمانہ کے ہاتھوں برباد ہو گئے کچھ پرانی ریکارڈنگ آل انڈیا ریڈیو کی آرکائیوز میں محفوظ ہے جہاں عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں۔

ریڈیو ڈرامے کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو سب سے پہلا نام ان ادارے سے وابستہ شخص سید ذوالفقار علی بخاری کا آتا ہے۔ انہوں نے ریڈیو کے لئے ڈرامہ تو نہیں لکھے لیکن ڈراموں میں اداکاری ضرور کی۔ وہ ریڈیو ڈرامے کے رموز و نکات سے بخوبی واقف تھے انہوں نے اس دور میں ریڈیو کے لئے ڈرامہ لکھنے والوں کو اس فن سے آشنا کیا اور اداکاروں کی تربیت بھی کی۔ کمال احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ:

"ذوالفقار اسٹیج ڈراموں کے ماہر ہونے کے باوجود اسٹیج ڈراموں کی تکنیک کو ریڈیو سے الگ رکھ کر جدید ریڈیو ڈرامے کے موجد بنے اردو میں ریڈیو کی اس صنف میں پہل کرنے کا کام انہی کا رہے گا۔" -- (بحوالہ: اردو ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں ترسیل و ابلاغ کی زبان: ڈاکٹر کمال احمد صدیقی صفحہ 442، 1998)