رشید انصاری

حیدرآباد ہر دور میں اردو کا اہم مرکز رہا ہے، سقوط حیدرآباد سے قبل آصف جاہی دور حکومت میں حیدرآباد میں اردو کو جو فروغ اور ترقی حاصل ہوئی تھی وہ تاریخ کا ایک سنہراباب ہے۔ آصف جاہی دور میں سرکاری زبان اردو تھی۔ یوں تو ریاست میں اردو مادری زبان والے اقلیت میں تھے اور تلنگانہ، مرہٹواڑہ اور کرناٹک میں علیٰ الترتیب تلگو، مراٹھی اور کنڑی بولنی والے اکثریت میں تھے لیکن ہر جگہ اردو کو منفرد حیثیت حاصل تھی۔ ہم نے اپنے بچپن (سقوط حیدرآباد کے چند سال بعد بھی) ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کی اردو میں استعداد اور قابلیت اپنی مادری زبان (مراٹھی یا تلنگی یا کنڑی) کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ حاصل کلام یہ کہ ہر طرف اردو کا بول بالا تھا۔ اردو کی مقبولیت میں سرکاری جبر کا دخل نہ تھا۔ سرکاری زبان ہونے کا فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن مقبولیت اور بات ہے۔ ہندی ہمارے ملک کی سرکاری زبان ہے لیکن سرکاری زبان ہونے کے باوجود ایسے علاقوں میں جہاں کے عوام کی مادری زبان ہندی نہیں ہے وہاں سرکاری زبان ہونے کے باوجود ہندی مقبول نہیں ہے۔ خاص طور پر جنوبی ہند اور شمال مشرقی ریاستوں کے زیادہ تر باشندے ہندی سے ناواقف ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مرحوم ریاست حیدرآباد خالص اردو کی ریاست تھی جہاں اردو نہ صرف سرکاری زبان تھی بلکہ عوامی زبان بھی تھی۔ اردو کا ریاست کی تینوں علاقائی زبانوں تلنگی، کنڑی اور مراٹھی پراس قدر اثر تھا کہ ریاست حیدرآباد کے اضلاع، مرہٹواڑہ، کرناٹک اور تلنگانہ میں بولی جانے والی مراٹھی، کنڑی اور تلنگی ریاست حیدرآباد سے باہر بولی جانے والی ان زبانوں سے قدرے مختلف ہو گئی تھی (بلکہ اب تک ہے) حیدرآباد اور دیگر شہری علاقوں میں بولی جانے والی ہر زبان پر اردو کا اثر نمایاں ہے۔ حیدرآباد میں جو تلگو بولی جاتی ہے وہ گنٹور اور نیلور میں بولی جانے والی تلگو سے قدرے الگ ہے۔ آندھرا کے علاقوں میں بولی جانے والی تلگو خالص ہے جو بندہ تلگو سے بالکل ناواقف ہو وہ مذکورہ بالا مقامات پر دو مقامی افراد کے درمیان ہونے والی گفتگو کا نفس مضمون تک قطعی نہیں سمجھ سکتا ہے جب کہ حیدرآباد بلکہ نظام آباد، وقار آباد اور محبوب نگر میں ہونے والی تلگو گفتگو کو تلگو نہ جاننے والے بھی کسی حد تک سمجھ سکتے ہیں اور کچھ یہی فرق پونے اور اور نگ آباد میں بولی جانے والی مراٹھی اور گلبرگہ اور بنگلور میں بولی جانے والی کنڑی کا ہے لیکن یہ فرق رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے کیوں کہ اردو کا اثر دوسری زبان بولنے والوں پر کم ہوتا جا رہا ہے۔

بعض نا فہم اور ناواقف لوگ اپنی نام نہاد روشن خیالی یا کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ آصف جاہی حکومت نے علاقائی زبانوں کو جو اکثریتی طبقہ یا ہندو بولتے تھے نظر انداز کر کے ان پر اردو کو جو مسلمانوں کی زبان تھی، مسلط کر دیا تھا۔ یہ بات نا صرف مہمل اور بے معنی ہے بلکہ بے جواز اور بے بنیاد ہے کہ مملکت حیدرآباد کی تینوں علاقائی زبانوں میں کسی ایک ز بان کو اکثریتی زبان نہیں کہا جاسکتا ہے۔ کنڑی زبان صرف تین اضلاع (گلبرگہ، رائچور اور بیدر میں بولی جاتی تھی جب کہ مراٹھی پانچ اضلاع اور نگ آباد، ناندیڑ، پربھنی، بیڑ اور عثمان آباد کی علاقائی زبان تھی۔ ظاہر ہے کہ سولہ میں سے پانچ اور تین اضلاع میں بولی جانے والی زبان کو ریاست کی اکثریتی زبان کہنا بے معنی تھا۔ تلگو بے شک آٹھ ضلعوں (عادل آباد، کریم نگر، نظام آباد، میدک، اطراف بلدیہ (موجودہ ضلع رنگاریڈی) محبوب نگر، ورنگل (ضلع کھمم پہلے ورنگل میں شامل تھا اور نلگنڈہ) کی علاقائی زبان تھی۔ بظاہر تلگو ریاست کی سب سے بڑی علاقائی زبان تھی لیکن تلگو بولنے والوں کی تعداد تلنگانہ میں صد فیصد نہیں تھی۔ شہر حیدرآباد، اضلاع نظام آباد، میدک، اطراف بلدی ہ اور محبوب نگر وغیرہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد قابل لحاظ تھی۔ اس طرح پوری مملکت حیدرآباد میں اردو بولنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ قلیل تعداد میں ایسے غیر مسلم بھی تھے جن کی مادری زبان اردو تھی۔ اسی طرح گجراتی، پنجابی، ملیالم اور تامل بولنے والے بھی قلیل تعداد میں سہی آصف جاہی مملکت میں آباد تھے اور ان سب کی دوسری زبان اردو ہی تھی۔ اس طرح اردو ہر لحاظ سے ریاست کی تینوں علاقہ واری زبانوں (تلگو، مراٹھی اور کنڑی) کے مقابلے میں بلا شبہ قابل ترجیح تھی۔

دوسری جانب اردو سالوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے ملک بھر کی واحد رابطہ کی زبان رہی تھی۔ سلطنت آصفیہ میں اس کے قیام کے وقت سے ہی اردو سرکاری زبان نہیں تھی بلکہ رسم دنیا کے مطابق سرکاری زبان فارسی تھی تو کیا کبھی یہ اعتراض کسی نے کیا تھا کہ مراٹھی، تلنگی اور کنڑی بولنے والوں کے ساتھ اردو بولنے والوں پر فارسی زبان کو آصف جاہی حکمرانوں نے مسلط کر دیا تھا۔ اس قسم کی شکایت کے ذکرسے تاریخ خالی ہے۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ مرہٹہ شاہی دربار میں خاص طور پر ہر پیشوا کے پاس فارسی بڑی حد تک سرکاری کاموں میں استعمال ہوا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں اس وقت جب کہ فارسی سرکار اور دربار کی زبان تھی اس وقت رابطے کی زبان اردو ہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو کو مسلط نہیں کیا گیا تھا بلکہ اردو کی حلاوت اور خوبیوں کو دیکھ کر غیر اردو داں طبقات نے خود اردو کو اپنے اوپر مسلط کر لیا تھا۔

اگر منطقی اعتبار سے دیکھا جائے تو مملکت آصفیہ میں بولی جانے والی چار زبانوں میں سے کسی ایک کو ہی سرکاری زبان بنایا جاسکتا تھا۔ تلنگی، مراٹھی اور کنڑی صرف اپنے اپنے علاقوں تک محدود تھیں۔ صرف اردو ہی تمام مملکت میں ہر طرح سے استعمال کی جانے والی زبان تھی اور رابطے کے لیے کوئی اور زبان تھی ہی نہیں تو اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے میں کیا قباحت تھی؟

اردو ہندوؤں اور مسلمانوں میں دوستی، یگانگت اور یکجہتی قائم رکھنے کا بہترین ذریعہ تھی۔ حیدرآباد کا ہندو مسلم اتحاد بے مثال تھا اور اس اتحاد کا راز اردو زبان تھی جو اپنے بولنے والوں کو جوڑے رکھتی تھی۔ اس لیے اردو کو سرکاری جبر کے ذریعہ یا سرکاری دربار کے زیر اثر غیر اردو داں عوام پر مسلط کرنے کا الزام بے جواز، بے بنے اد اور بے معنی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان رہنے کا فائدہ ضرور ہوا لیکن تلگو، مراٹھی اور کنڑی کی بہ نسبت اردو زیادہ ترقی یافتہ تھی اور ہے۔ اردو میں جامعاتی سطح پر طب، قانون اور انجینئرنگ کے پیشہ ورانہ نصابوں کے مختلف مضامین کی تعلیم کا جو نظام تھا وہ آج تک مراٹھی، تلگو اور کنڑی زبان میں نہ ہو سکا جب کہ ان زبانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے (سچ تو یہ ہے کہ جامعہ عثمانیہ جیسی اردو ذریعۂ تعلیم کی جامعہ برصغیر ہند۔ پاک اور بنگلہ دیش میں کسی اور زبان میں آزادی کے بعد 62سال کے عرصے میں وجود میں نہ آسکی جو کام آصف سابع نے کیا تھا وہ کوئی اور نہیں کرسکا۔ اس لیے اردو پر سرکاری و شاہی جبر کے سہارے دوسری زبان والوں پر مسلط ہونے کا الزام اندھے تعصب بلکہ جہالت کا نتیجہ ہے اور اب سے چند سال قبل تک اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں قرار دیا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد اردو کو مخالف اردو عناصر کے مظالم سے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو، ابوالکلام آزاد جیسے لوگ نہ بچاسکے۔ پارلیمان میں اردو اشعار پڑھنے والے پنڈت نہرو جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے تھے اور اردو زبان کے ذریعہ علم و ادب کی دنیا میں اونچا مقام پانے والے ابوالکلام آزاد نے اردو کی عملاً کوئی خدمت نہیں کی۔ متحدہ قومیت کے ان عظیم علم برداروں کو بخوبی پتہ تھا کہ متحدہ قومیت کی سب سے بڑی نشانی ہی نہیں بلکہ مثال اور ثبوت اردو ہی تھی۔ کیا تاریخ اس بات کو فراموش کر دے گی؟سلطنت آصفیہ حیدرآباد کا خاتمہ کر کے اسے انڈین یونین میں ضم کرنے والوں سے یہ سوال کسی نے نہیں کیا کہ سقوط حیدرآباد یا حیدرآباد کے انضمام کا اردو کے خاتمے کی سازش سے کیا تعلق تھا؟ کیا حیدرآباد کا انضمام (اس پر فوجی حملے کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد) صرف اردو کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا؟ جامعہ عثمانیہ اور دیگر سرکاری مدارس اور کالجوں سے نہ صرف اردو ذریعہ تعلیم بلکہ بعض مدارس میں اردو کی زبان کی حیثیت سے تعلیم کیوں ختم کر دی گئی تھی؟ اگر حیدرآباد کی آزادی کا اعلان غداری تھا تواس کی سزا آصف سابع میر لائق علی وزیر اعظم حیدرآباد اور سید قاسم رضوی مرحوم کو نہیں دی جا کر آخر اردو کو کیوں دی گئی؟ جا معہ عثمانیہ سے اردو کے خاتمے کی وجہ سلطنت آصفیہ کو فتح کرنے کے بعد اس کا اقتدار سنبھالنے والے حکمراں تو نہ بتا سکے تھے تو اب کوئی کیا بتائے گا؟ جامعہ عثمانیہ اور تمام تعلیم گاہوں سے اردو کے خاتمے کے لیے اگر حیدرآباد کو انضمام پر مجبور کر دیا گیا تھا تو یہ کوئی بتا دی کہ آزاد حیدرآباد اور حکومت ہند کے مذاکرات کے دوران ریاست کی سرکاری زبان اور اردو کے خاتمے کا مطالبہ تو کیا اس کا ذکر بھی نہیں کیا گیا؟

آخری سوال ان سے ہے جن کی مادری زبان اردو ہے یا جنہوں نے اردو کا استعمال مادری زبان سے زیادہ کر کے شہرت اور ناموری حاصل کی ہے۔ ہمارا یہ سوال ہے کہ اردو والوں نے خود ہی اردو سے بے نیازی بلکہ غداری کر کے کیا پایا؟ کیا کسی نے 1948ء کے حیدرآباد کے مدارس (بشمول مشن اسکولس) سے اردو کے خاتمے پر احتجاج کیا تھا؟ نہیں بالکل نہیں۔ ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ چالیس چالیس تا پچاس پچاس ہزار عطیہ دے کر اپنے بچوں کو ہم لوگ جس اسکول میں پڑھاتے ہیں اس اسکول کے انتظامیہ سے یہ تک کہنا نہیں چاہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اردو پڑھانا چاہتے ہیں۔ جب اردو والے خود اردو پڑھانے کی بات نہ کریں تو غیروں سے کیا شکایت کی جائے؟ اگر یہی حال برقرار رہا تواس زبان اور زبان والوں کا اللہ جانے کیا حشر ہو؟ اردو کے مسائل نہ ختم ہوئے ہیں نہ ختم ہوں گے تاہم اردو کے غداروں کو ان کی بے حسی اور بے ضمیری کی سزا کون دے گا؟