عارف عزیز
ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ اردو بول کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندی بول رہے ہیں اردو مکالموں، گیتوں اور اصلاحات سے لئے گئے عنوانات پر بنی فلمیں دیکھنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندی فلمیں دیکھ رہے ہیں، دن بھر ریڈیو اور ٹی وی سے اردو گیتوں کے ریکارڈ سنتے ہیں، ان گیتوں، قوالیوں اور غزلوں کے کیسٹ بڑے چاؤ سے خریدتے ہیں اس کے باوجود اردو سے گھبراتے ہیں اور اسے ایک غیر ملکی زبان کہتے ہیں۔
اس کی وجہ صاف ہے کہ ہم نے اردو رسم الخط سے ناواقف طبقوں کو اس سے متعارف کرانے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی، نہ یہ بتایا کہ اردو جسے ہندی کی شاخ یا شیلی کہا جانے لگا ہے اپنے آپ میں ایک مکمل زبان ہے، یہ ہندی سے پیدا نہیں ہوئی اسلئے کہ اردو کی پیدائش کے وقت ہندی نام کی کوئی زبان ہندوستان میں موجود نہیں تھی، ایک طرف شمالی ہند کی مقامی بولیاں تھیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی لائی ہوئی عربی، ترکی اور فارسی زبانیں تھیں، لیکن جب ہندو مسلم عوام ایک دوسرے کے قریب آئے تو ان تمام زبانوں اور بولیوں کے ہلکے پھلکے اور شیریں الفاظ کی آمیزش سے ایک نئی زبان ابھرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک مکمل اور نہایت مقبول زبان بن کر سرکاری زبان فارسی کو للکارنے لگی۔
اردو کی پیدائش، ارتقائ، اور نشو و نما میں کسی حکومت کا ہاتھ نہیں بلکہ یہ دو قوموں کے میل و ملاپ کے نتیجہ میں پروان چڑھی ہے اس لئے اردو کو اپنے رسم الخط کے ساتھ زندہ رہنا چاہئے جو لوگ زبان یا اس کے رسم الخط کو نظر انداز کر کے قومی اتحاد و اتفاق کی بات کرتے ہیں وہ ہرگز مخلص نہیں کہے جاسکتے بلکہ قوی اندیشہ ہے کہ اس طرح اردو اپنے رسم الخط کے امتیاز سے محروم ہو کر اس زبان میں ضم ہو جائے جس کا وہ رسم الخط اپنا لے گی۔ خاص طور پر ہندی اور اردو جو ایک لسانی حقیقت کی دو شکلیں کہی جاتی ہیں وہ ایک دوسرے میں جذب ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں اور انجذاب کے اس عمل سے اردو کو بچانے والا صرف اس کا رسم الخط ہے جو حضرات آج اردو کے تحفظ کے لئے ناگزیر قرار دے رہے ہیں وہ اس "ہمالیائی حقیقت" کو جھٹلا دیتے ہیں کہ ہندی کے علاقے میں اردو کا وجود اسی رسم الخط سے عبارت ہے ورنہ اردو کے اسالیب میں وہ وسعت ہے کہ ایک طرف اس کے ڈانڈے ہندی سے ملے ہوئے ہیں تو دوسری طرف فارسی سے۔
اردو رسم الخط کے پیچھے ایک تہذیب اور تاریخ ہے جسے وقتی مفاہمتوں ذاتی مصلحتوں اور نجی کاروباری ضرورتوں کی خاطر قربان نہیں کیاجاسکتا۔ ہر زبان کی تہذیب اور انا تاریخ کے عمل میں رفتہ رفتہ تحلیل ہو جاتی ہے اس لئے حقیر مصالح کی خاطر اس سے روگردانی کسی طرح بھی مناسب نہیں۔
اردو کو دیوناگری رسم الخط میں لکھنے کی وکالت کرنے والوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ جرأت استدلال پیش کیوں نہیں کرتے کہ اردو زبان کیونکہ ختم ہو رہی ہے اس لئے انہیں ہندی اپنا لینی چاہئے۔ ہمارے خیال میں اس تجویز میں پھر ایک لسانی استدلال ملتا ہے کہ اقلیتوں نے بارہا اپنی زبانیں بدلی ہیں، جزوی اور محتاط جرأت کے مقابلہ میں یہ بے محابا ہمت کم از کم ایک نسل کو لسانی دو رنگی سے بچا لے گی ورنہ گذشتہ 16 برس سے اردو کا رسم الخط تبدیل کرنے کی جو مہم کامیاب نہ ہو سکی وہ اپنوں کے ہاتھوں انجام پا جائے گی۔