اِنتساب

تبلیغی جماعت کے اکابرین کے نام

اردو جرنلزم اکیڈمی کی مجلس ادارت کے محبان میں ایسے احباب بھی شامل ہیں جنہوں نے مختلف مکاتب فکر کے ماحول میں زندگیاں گزاری ہیں۔ ایک دوست جنہوں نے عملی اور معنوی، دونوں اعتبار سے تبلیغی جماعت کے فکری نہج کا برسوں تک اس سے منسلک رہ کر مطالعہ و مشاہدہ کیا اور وہ بس اسی بات کو صراط مستقیم کی دلیل مانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت نہ تو کسی سے چندہ، فنڈ، صدقات، نذرانے مانگتی ہے اور نہ قبول کرتی ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ ہمیں تبلیغی جماعت کے اکابرین کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے۔ ان دنوں میں تنظیم اسلامی کے جریدے ندائے خلافت کے شعبہ اداریہ میں کچھ ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھا اور اس وقت بھی قرآن کے الفاظ "لیظہرہ علی الدین کلہ" کے مطابق اس بات پر مکمل ایمان رکھتا تھا کہ فرعون کی حکومت میں اظہار دین یا نظام مصطفے ٰ کا قیام ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے مجھے تبلیغی جماعت کے اکابرین کی خدمت میں حاضر ہونے میں تامل تھا کیونکہ میری رائے میں تبلیغی جماعت کی فکری نہج میں فرعون کی نقاب کشائی کا گزر نہیں تھا۔ میرے ایک محب گرامی ریاضی کے پروفیسر جعفر نے جو خود رائے ونڈ کے ہی رہائشی ہیں، تبلیغی جماعت کے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں اور اکابرین سے تعلق خاطر رکھتے ہیں، ایک روز مجھے ساتھ لے جا کر رائے ونڈ مرکز میں امیر تشکیل بھائی جنگ شیر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا اور میری کیفیت بھی بیان کر دی۔

بھائی جنگ شیر صاحب کا ایک ہی مختصر سا جملہ گویا مجھ جیسے سہل پسندوں کیلئے ایک تازیانہ تھا۔ انہوں نے مسجد کے صحن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میاں ہم تو مجمع اکٹھا کر رہے ہیں۔ اس سے یہ بات روز روشن کی طرح میرے سامنے آ گئی کہ یہ سب کچھ کس کار عظیم کی تیاری ہے۔ مجھے جماعت کی معتبر ترین شخصیت حاجی عبدالوہاب کی ایک مثال یاد آئی، انہوں نے روانہ ہونے والی جماعتوں کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب کبھی کسی عمارت میں آگ لگ جائے تو کچھ لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو اس کو بجھانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں جبکہ کچھ بچے گلیوں میں یہ چیختے ہوئے دوڑتے پھرتے ہیں کہ لوگو آگ لگ گئی۔ پھر فرمایا ساتھیو! تم انہی بچوں کی مانند ہو اور تمہارا بھی اصل مقصد یہی ہے کہ جیسے بھی ہو آگ بجھ جائے۔ مجھے افسوس ہوا کہ اتنی سامنے کی بات پہلے میری سمجھ میں کیوں نہ آئی۔ اب میرا دل یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح شور مچانے کے ساتھ ساتھ آگ بجھانے کی محنت بھی شروع ہو جائے، یہی آرزو اس کتاب کی محرک بھی ہے اور اسی لیے میں اسے تبلیغی جماعت کی نذر کرتا ہوں۔

مدیر مسؤل