علامہ عبید اللہ ثاقب۔ کراچی

قرآن نے جو منہج انقلاب مقرر کیا ہے اس میں افراد سازی کیلئے تین ضابطے مرتب ہیں۔

1: یتلو علیھم اٰیاتہ (آیات پر تدبر)
2: یزکیھم (تزکیہ)
3: یعلمھم الکتاب والحکمۃ (اپنے زمان و مکان کے تناظر مین قانون سازی اور اس کے اہداف کا تعین)۔

یہی تینوں ضابطے قرونِ اولیٰ میں بھی انقلاب کے ضامن ہوئے تھے اور یہی آج بھی نشاۃ ثانیہ کی ترویج کریں گے۔ گزشتہ ہزار برس میں اگر دنیا میں کوئی اسلامی انقلاب نہیں آ سکا تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ تینوں ضابطے، انقلابی فارمولے کے یہ تینوں اجزا اُمت کو بیک وقت کبھی دستیاب نہیں ہوئے۔ پہلے جزو یعنی آیات کی تلاوت و تدبر کا حق تو ہر دور اور ہر زبان میں ادا ہوتا رہا، مثال کے طور پر بیسویں صدی عیسوی کے دوران برصغیر میں ابوالکلام آزاد، سید مودودی، حافظ جی حضور اور ڈاکٹر اسرار احمد اس فکر کے نمایاں موئید رہے۔ اس طرح تزکیہ کی تربیت کے ضمن میں سب سے نمایاں مثال تبلیغی جماعت کی ہے لیکن تیسرے جزو یعنی قرآن سے اپنے زمان و مکان کے مطابق آئینی نظام اخذ کرنا اور پھر اس کے ثمرات و نتائج کا تعین کرنا، یہ کام کبھی نہ ہو سکا۔ حزب التحریر سے طالبان تک جس نے بھی کچھ کر دکھانے کا دعویٰ کیا، غور کیجئے تو اللہ کے نام پر نری تھیوکریسی یعنی مذہبی پیشوائیت کی مطلق العنان حکومت ہی نکلے گی۔ ایک صاحب نے بھی جن کا نام علامہ غلام احمد پرویز بتایا جاتا ہے، تھیو کریسی سے ہٹ کر یہی بات شروع کی لیکن وہ بھی شاید لا اکراہ فی الدین کا اصولِ آزادی فراموش کر بیٹھے چنانچہ انہیں سوشلزم اسلام کا عکس دکھائی دیتا رہا اور یوں یہ قصہ بھی ختم ہوا۔ مختصر یہ کہ انقلابی فارمولے کا یہ تیسرا جزو امت کی آرزوئے احیائے دین کو کبھی دستیاب نہ ہو سکا جس کے نتیجے میں زوال بڑھتا چلا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہر لائحہ تربیت خود کو پورے انقلاب کا مکلف سمجھنے لگتا چنانچہ اپنے اختیار کیے ہوئے راستے کو ہی حتمی اور کافی قرار دیتا اور یہ حقیقت بھول جاتا کہ اس کا اختیار کردہ راستہ مکمل سفر کا محض ایک تہائی حصہ ہے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی انقلاب کی ندا بلند کرنے والوں کی نظر میں تبلیغی جماعت تضیع اوقات بنی جبکہ تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کی اکثریت اسلامی نظام اور نظام مصطفے ٰ کے نعرے کو سیاسی ڈرامہ بازی سمجھتی رہی۔ دونوں طرف ایک دوسرے کیلئے نرم گوشہ دستیاب نہ تھا چنانچہ احیائے دین اور تزکیہ کی مساعی یک جا نہ ہو پائی، قانون کی تشکیل کا مرحلہ تو اس کے بعد طے ہونا تھا اس کی نوبت ہی نہ آ سکی، فیصلہ کن قیادت کہاں سے ابھرتی، کیسے لا اکراہ فی الدین پر مبنی آزادی کا آئین مرتب ہوتا اور کیونکر ید خلون فی دین اللہ افواجا کی صورت گری ہوتی، کب فوج در فوج دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے افراد جغرافیائی مملکتوں کی حدود مٹاتے اور کب لیکون الدین کلہٗ للہ یعنی پورے کرہ ارض پر اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں آتا۔ یہاں تو حالت یہ تھی کہ اسلامی تعلیمات پر اٹھنے والے اعتراضات کا شافی جواب ہی بن نہ پایا اور پھر پیشوائیت کا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کا وطیرہ امت کی استہزاء کا سبب بنتا رہا۔ اب اس کتاب کی صورت میں پہلی دفعہ کچھ حوصلہ سا محسوس ہو رہا ہے۔ میری دعائیں ایسی ہر مساعی کے ساتھ ہیں۔