اِس جستجو کی ابتدا تب ہوئی جب سلمان رشدی، پوپ بینڈکٹ اور دیگر معترضین کے آج کے جدید دور کے حوالے سے اِسلام پر ہونے والے اعتراضات سامنے آئے اور پھر اِن کا خاطر خواہ جواب یعنی عقائد و اخلاقیات سے بلند تر ایک قانونی اور منطقی ایسا مدلل جواب اُردو کے تمام تر تاریخی اِسلامی علمی تحقیق و تدبر کے انبار میں موجود نہ پایا جو خود معترض اور دیگر غیر مسلم دنیا کو بے اِختیار دین کی عظمت کا قائل کر دے، تب ایسا خاطر خواہ جواب ہم چند احباب نے خود ڈھونڈنا چاہا اور پھر بہت سی لرزہ خیز حقیقتوں کی نقاب کشائی ہوئی جن میں پہلی حقیقت یہ تھی کہ دین کے متعدد پہلوؤں سے غیر مسلم تو درکنار، خود ہم بھی لاعلم رکھے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِسلام پر ہونے والے اعتراضات پر مبنی لٹریچر پر پوری اِسلامی دنیا میں پابندی بھی عائد ہے۔ اِس پابندی کی وجہ مذہبی قیادت کی طرف سے بالعموم یہی پیش کی جاتی رہی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو عام آدمی کے گمراہ ہو جانے کا احتمال ہے۔۔۔ یہ دلیل نہ صرف قرآنی ہدایت یعنی "دعوت علیٰ وجہ البصیرت" کے خلاف ہے بلکہ پہلی ہی نظر میں بودی دکھائی دے جاتی ہے کیونکہ اگر محض گمراہی کا اندیشہ ہی مد نظر تھا تو اِس مواد کو عقلی جوابات اور منطقی دلائل کے ساتھ پیش کرنے میں کونسا امر مانع تھا؟ درحقیقت ہمارے پاس ان اعتراضات کی کماحقہ تردید کیلئے ایسے مشاہداتی سائنسی اور تجزیاتی دلائل موجود ہی نہیں تھے جو دعوت علیٰ وجہ البصیرت کی کسوٹی پر پورے اتر سکیں اور اخلاقیات کے سہارے کے بغیر اِسلام کو دور جدید کے تناظر میں دنیا کا بہترین آئینی، اقتصادی اور عائلی نظام ثابت کر سکیں۔ بے بضاعتی اور بے بسی کا یہی احساس اِس جستجو کے محرکات میں شامل ہے جس کا ثمر یہ ملا کہ نہ صرف بنی نوع اِنسان کے جملہ مسائل کا فوری اور یقینی حل بھی سامنے آ گیا بلکہ بڑے بڑے علوم مثلاً اقتصاد و معاشیات، نفسیات، طب (یعنی میڈیکل سائنس) سوشیالوجی اور انتھراپالوجی وغیرہ کے بنیادی خطوط کی اصلاح بھی ہو گئی اور یوں ان قبیح اعتراضات کے مؤثر جوابات بھی ضمنی طور پر خود بخود سامنے آ گئے۔ ذیل میں انہی اعتراضات میں سے چند ایک "نقل کفر کفر نباشد" کے مصداق نقل کیے جا رہے ہیں۔ ان کا تفصیلی جواب آئندہ ابواب میں انشاء اللہ آپ پر واضح ہو جائے گا۔