یہ اعتراض اور اِس سے ملتے جلتے اعتراضات عموماً کمیونسٹ معاشرے کی طرف سے کیے جاتے ہیں اور کسی بھی ایسے مذہب پر ہو سکتے ہیں جس میں پرستش یا پوجا کا تصور موجود ہے، جبکہ اِس کی حقیقی تردید و تکذیب صرف دین اِسلام کے پاس ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ دین کا یہ اِنتہائے کمال ہماری نگاہ تحقیق و تدبر سے سو ڈیڑھ سو سال قبل اوجھل کر دیا گیا۔

کیا خدا (نعوذ باللہ) خوشامد سے اور اِنسان کے اِس کے نام پر اذیت برداشت کرنے سے خوش ہوتا ہے؟

وضاحت:۔نماز بظاہر دو نوع کے کلمات کا امتزاج ہے، حمد و ثنا یعنی خدا کی تعریف و توصیف اور دُعا۔ اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر صمد اور بے نیاز ہے تو کیوں اِنسان کے لبوں سے روزانہ پانچ دفعہ (نعوذ باللہ) اپنی تعریف سننا چاہتا ہے اور اِس کے بغیر اُس کی دُعا قبول نہیں کرتا؟ کیا ہر سال ایک ماہ تک اِنسان کو اپنے نام پر دن بھر بھوکا پیاسا رکھے بغیر (معاذاللہ) خوش نہیں ہوتا؟۔۔۔ اِس کے بعد وہ منہ پھٹ معترض ایسے ایسے نفسیاتی عوارض خدا کے تصور کے ساتھ منسلک کرنے لگتے ہیں جن کو اُن کے الفاظ میں بیان کرنے کی ہم جسارت ہی نہیں کر سکتے۔ اِس تمام تر مو شگافی کا باعث یہ تصور ہے کہ ہم نے عبادات کو مدح (ثنا) اور طلب (دُعا) تک محدود سمجھ لیا ہے۔ یقیناً اِن عبادات کا مقصد اتنا محدود نہیں ہو سکتا بلکہ کہیں اعلیٰ و ارفع ہونا چاہیے، اور یہی ہماری نگاہ سے اوجھل ہے۔

یہ جستجو کی ابتدا تھی اور پھر اِسی کے نتیجے میں وہ انوکھا اِجتماعی نظام ملا جس میں بنی نوع اِنسان کے تمام مسائل یعنی معاشی، سماجی، طبی، عائلی اور دیگر تمام محرومیوں اور الجھنوں کا خواہ وہ اِجتماعی سطح پر ہوں یا اِنفرادی سطح پر، ہر مسئلے کا ایسا فوری اور حتمی حل موجود ہے جو معمولی عقل کے اِنسان کو بھی با آسانی سمجھ میں آ سکتا ہے۔

یہ نظام قرآن سے اخذ کیا گیا ہے مگر یہاں یہ دُکھ بھرا اعتراف ضروری ہے کہ بدقسمتی سے ہم تقریباً دو صدیوں سے قرآن کی اُردو ترجمانی متعدد مقامات پر غلط کرتے چلے آ رہے ہیں اور چونکہ ذہنوں میں شخصیت پرستی اِس حد تک پختہ کر دی گئی ہے کہ ہم اکابرین سے ہونے والی خطا کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں لہٰذا لغزش پر لغزش ہو رہی ہے اور یہی سارے فساد کی جڑ ہے۔

ہر سمجھدار شخص بخوبی جانتا ہے کہ کسی بھی معاشرتی نظام میں موجود خلا کو محض اِخلاقیات اور پند و نصائح سے بھرا نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پند و نصائح کی بھرمار کے باوجود معاشرے سے سدھار ختم ہوتا جا رہا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جسے معاشرتی نظام کے مینوفیکچررز ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ جہاں بھی قانونی طور پر بے بس ہوتے ہیں، ان کے پاس سزائیں شدید کرنے اور اِخلاقی اقدار کا درس دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا حالانکہ آج بنی نوع اِنسان کی اصل ضرورت اِخلاقیات کی تدریس سے زیادہ بے عیب قانونی نظام کی تکمیل اور دستیابی ہے اور نظام کی پہچان یہ ہے کہ اُسے اِخلاقیات کے سہارے کا محتاج نہیں ہونا چاہیے، مثال کے طور پر یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر اہل ثروت اِنفرادی صدقات و خیرات کرنا بند کر دیں تو اِس سے غریب آدمی متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس پر اِسلام کا نظام اِجتماعی جسے شریعت کی اصطلاح میں دین کہتے ہیں، اپنے سنہری ادوار میں پورا اُترتا رہا ہے اور ہم تاریخ میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ اہل ثروت ہاتھ میں خیرات کی رقم لے کر نکلتے تھے اور لینے والا نہیں ملتا تھا۔ یہ سماجی بناوٹ اُس دور میں مروجہ قانون کا نفسیاتی رد عمل تھی اور اِس میں افراد کی اخلاقی بلندی کا کچھ دخل نہ تھا۔

اِسی کسوٹی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اِس نظام کے معاشرتی اور معاشی حصہ کو جو اِس کتاب کا موضوع بھی ہے، ابتدائی ابواب میں مذہبی حوالوں کے ذکر کے بغیر صرف طبی، نفسیاتی، عمرانی اور اقتصادی حوالوں کے ساتھ اور صرف کائناتی حقیقتوں کے تائیدی ثبوت کے ساتھ عقلی طور پر مرتب کیا ہے اور اِس ضمن میں اِس امر کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی میدان کے کسی بھی ماہر کی ذاتی رائے کو حجت نہ بنایا جائے تاکہ دنیا کے کسی بھی فرد کے لیے تعصب کا کوئی احتمال نہ رہے۔

اِس کے بعد کے باب "ضابطۂ قانون اور طریق نفاذ" میں قانونی شقوں کو ترتیب دیا گیا ہے۔ اگلے باب "منظر نامہ" میں اِس نظام کی قانونی اجازت ملنے کے بعد کا معاشرتی منظر چشم تصور پر اُجاگر کیا گیا ہے اور آخری ابواب میں نظام کے اصل ماخذ یعنی شریعت کے حوالہ جات اور نظام مملکت پر مشتمل اُس حصۂ دین کا ذکر ہے جو آج ہماری آنکھ سے اوجھل ہے۔

باری تعالیٰ کی طرزِ رہنمائی کا ہر دَور میں دستور یہ رہا ہے کہ اِس راہنمائی کو اِنسان کے سامنے اُنہی کسوٹیوں پر کھرا اُتارتے ہیں جو اُس دور میں اِنسان نے بطور دلیل اُستوار کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اِسی مناسبت سے پیغمبروں کو معجزے بھی عطا ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں شعبدہ بازی اور نظر بندی وغیرہ کا جسے جدید سائنس کی اصطلاح میں ہپناٹزم مسمیرزم اور ٹیلی پیتھی کہا جاتا ہے، رُعب اور دبدبہ مسلمہ تھا اور اِسی وجہ سے اُنہیں اِسی نوعیت کے معجزات عطا ہوئے تاکہ معاشرے میں حق کی دلیل بن سکیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں حق و صداقت کے ثبوت کے طور پر حکمت اور علاج معالجہ کی حیثیت کسوٹی کی تھی۔ اِسی مناسبت سے اُنہیں اِنتہائے حکمت یعنی مسیحائی کا معجزہ عطا ہوا۔ رسالت مآب ﷺ کے دَور میں شاعری اور علم و ادب معاشرے میں کسوٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ قرآن حکیم کی صورت میں ناقابل موازنہ اور زبان و ادب کی انتہائی اعلیٰ خصوصیات کا حامل اُسلوب اِنسان کے سامنے بطور معجزہ لایا گیا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ اِنسان کو حقیقی فلاح کا راستہ دکھانے کے لئے اپنی طرف سے کوئی نئی کسوٹیاں ترتیب نہیں دیتے بلکہ فطری انداز میں اُنہی کسوٹیوں پر اِس راہنمائی کو پرکھواتے ہیں جو اِنسان نے اپنے دَور میں ترتیب دے رکھی ہوتی ہیں۔ یہاں ہم آپ کو ایک اِنتہائی اہم نکتے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ پہلے انبیاء کو جو معجزے عطا کیے گئے وہ اِک خاص دَور اور خاص معاشرے تک محدود تھے جبکہ نبی کریم ﷺ صرف ایک زمانے یا کسی ایک قوم اور معاشرے کے لیے رسول نہیں ہیں بلکہ قیامت تک آنے والے ہر دور اور پوری اِنسانیت کیلئے رسول ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُنہیں جو معجزہ عطا ہوا یعنی قرآنِ حکیم، وہ صرف ادبی خصوصیات تک محدود نہیں ہے بلکہ قیامت تک آنے والا ہر دَور جس "کسوٹی" پر بھی اِس کی راہنمائی کو پرکھنا چاہے گا وہ اِس پر پورا اترے گا۔ اِس کی مثالیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ رسالت مآب صلعم کے دور میں شعر و ادب اور زباندانی کا غلغلہ تھا۔قرآن اِس کسوٹی پر بطور معجزہ پورا اترا اور دلوں کو مسخر کر گیا۔ پھر عقائد کا دور آیا اور ہمارے اکابرین کی مثالیں موجود ہیں جب عقائد کی بنیاد پر ہونے والے اعتراضات کا حتمی جواب اکابر علماء نے دیا جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، مثلاً ایک واقعہ وہ ہے جس میں عیسائی پادری کے سوالات جو آج ہمیں بچکانہ سے دکھائی دیتے ہیں لیکن کتابوں میں لکھا ہے کہ اُس وقت اِن سوالات نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا تھا، مثلاً "اللہ کا منہ کدھر ہے، اللہ اِس وقت کیا کر رہا ہے " وغیرہ اور ایسے کئی سوالات کا منہ توڑ جواب قرآن کی روشنی میں اُسی زبان اُسی کسوٹی کے مطابق دیا گیا جو اُس دَور کی ضرورت تھی۔ اِس کے بعد روحانیت کا دَور آیا اور ہم جانتے ہیں کہ اولیاء اور عارفین کی ایک بہت بڑی جماعت نے معرفت، وجدان اور تصوف اور پھر تبلیغی جماعت از قسم مختلف تعلیمات کی صورت میں سادھ، ویدانت، جوگ، نروان، تپسیا، گیان، بھگتی، شدھی، اہنسا اور دیگر ایسے تمام احمقانہ تصورات کے مقابلے میں دین کو بہترین راہنمائی ثابت کیا جو دوسرے مذاہب راہنمائی کے لیبل میں سامنے لا رہے تھے۔ یہ سب کچھ دراصل اپنے اپنے ادوار میں افراد کی ذہنی اِستطاعت کے مطابق قرآنی معجزے کا تسلسل ہی تھا۔ اب یہاں وہ اہم ترین مقام جس کی طرف ہم آپ کو لے جانا چاہتے ہیں، یہ ہے کہ آج کا دَور اِنسان کی شعوری ترقی کا دَور ہے اور اِس کے نتیجے میں معاشرے کی غالب اکثریت کی نظر میں حقیقی راہنمائی کو پرکھنے کی آج کی کسوٹی اندھے عقائد و روحانیت، فلسفہ و تصوف یا شعری یا ادبی اُسلوب بیان نہیں بلکہ مشاہداتی و سائنسی اعداد و شمار اور نتائج پر مبنی علمی،منطقی اور تجزیاتی دلائل بن چکی ہے اور اگر اُمت کو دین کی عظمت کے لئے سینہ سپر ہونا ہے تو ذمہ داروں کو اِسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی احکام کو اِسی عقل و منطق اور شاندار ترین معاشرتی نتائج کی کسوٹی پر کھرا عملاً ثابت کر کے دکھانا تھا۔ یہی وہ اہم نکتہ تھا جس سے ہم اب تک بھاگتے رہے ہیں۔۔۔ اور اب انہی خطوط پر ہونے والی بحمدللہ اُردو میں پہلی کامیاب جستجو کا ثمر یہ تحریر ہے جو آئندہ صفحات میں آپ کے زیرِ نظر آئے گی۔

آخر میں ایک امر کی وضاحت کر دیں کہ ہماری یہ تحقیق پتھر کی لکیر نہیں ہے اور نہ ہی ہم کوئی مافوق البشر قسم کے لوگ ہیں، ہم سے بھی غلطی، کوتاہی ہو سکتی ہے لہٰذا اِس تحریر کو حرفِ آخر نہ سمجھا جائے۔ یقیناً اِس نظام کے متن میں مزید اِصلاح کی بہت سی گنجائش ہو گی لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جب تک پکا پکایا کھانا اِنسان کے سامنے نہ آ جائے اِنسان اُس کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے۔ یقیناً جستجو ہر اِنسان کا فرض ہے اور یقیناً ہم سے بہتر اور متعلقہ سائنسی اور علمی میدانوں کے وہ مدبرین جنہیں قرآن نے "اُولوالالباب" کا لقب دیا ہے اور علماء قرار دیا ہے، اِسی موضوع پر بہتر انداز میں گرفت رکھ سکتے ہیں لہٰذا اِس تحریر سے مقصود یہ سمجھا جائے کہ یہ بھی ایک طرح سے متوجہ کرنے کی ایک کوشش ہے تاکہ اِنسان کے لیے فلاح و سکون کا وہ راستہ جو خالق نے ترتیب دیا ہے، دنیا کے ہر اِنسان کو دستیاب کرنے کیلئے مشاورت کی صورت پیدا ہو سکے۔

آخر میں یہ دُعا کہ باری تعالیٰ ہمیں اصلی ہدایت کے راستے اصلی بے عیب قرآنی قانونی نظامِ مملکت و معاشرت کو دنیا میں سب سے پہلے اِختیار کرنے کی سعادت نصیب فرمائے کیونکہ اگر ہم اپنی عظیم اِسلامی شخصی تاریخ اور ورثے کے تکبر کی غلط فہمی میں بنی اِسرائیل کی طرح مبتلا رہے تو کوئی عجب نہیں کہ باری تعالیٰ اِس مقصد کے لیے کسی بھی دوسری قوم بلکہ یہاں تک کہ خود اہل مغرب کو قبول فرما لے اور یہ امر ہم سب کے لیے ڈُوب مرنے کا مقام ہو گا۔