علامہ اقبال مرحوم نے فرمایا تھا

اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اِس کا ہے مذہب کا کفن ہے

ایک عرصہ تک یہ شعر ناقابل فہم رہا۔ واضح نہ ہو سکا کہ علامہ اِنسان کو کس فعل سے اور کیوں روکنا چاہتے ہیں؟

کچھ عرصہ قبل ایک محقق کی تقریر زیر سماعت آئی۔ وہ خدا کے نبی حضرت ابراہیم کے حالات بیان کر رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ حضرت ابراہیمؑ نے قوم کو منطقی دلائل سے قائل کرنے کا طریقہ اپنایا اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے، تم اپنے ہاتھوں سے بُت بناتے ہو اور پھر اُن کی پوجا شروع کر دیتے ہو؟۔۔۔ اِس کے بعد محقق موصوف اپنے سامعین کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ دَورِ حاضر میں اِسی مفہوم کو بیان کرنے کیلئے ایک لفظ بدل جائے گا، اب اِسے یوں کہیں گے کہ تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے، تم اپنے ووٹوں سے بُت بناتے ہو اور پھر اُن کی عبادت کرنے لگتے ہو؟؟

یوں وطنیت کا حقیقی تصور ذہن میں اجاگر ہونے لگا اور یہ سمجھنا قطعی دشوار نہ رہا کہ وطن وہ بُت ہے جس کی پرستش کے نام پر اِنسانی آزادی اور حقوق کے حقیقی علمبردار آفاقی قوانین کو معطل کر کے مفاد پرستی کا اور اِنسانیت کو غلام بنانے کا جواز پیدا کیا جاتا ہے۔

آج دنیا میں آئین اور قانون کے تحت ہونے والی تمام زیادتیاں، ٹیکس، جارحیتیں، ظلم، بدعنوانیاں، پابندیاں، لوٹ کھسوٹ، طبقاتی اِمتیاز، آقا غلام اور سسکتے بلکتے بے بس اِنسانوں کے مناظر جن اِختیارات اور قوت و اقتدار کے بل پر تشکیل پاتے ہیں وہ نہ تو فطرت نے اِنسان کو دئیے ہیں اور نہ ہی کسی آسمانی مذہب میں اِن کی گنجائش ہے۔ یہ اِختیارات مادرِ وطن کے نام پر ایستادہ کیے جاتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر وطن وہ بُت ہے جس کے ذریعے خود ساختہ اور مفاد پرستانہ آئین مملکت کی اِطاعت کرائی جاتی ہے، بالکل اِسی طرح جیسے تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ لات و منات، عزیٰ، ہبل، سومنات اور اِنقلابِ فرانس سے پہلے چرچ کے نام پر حکام اور پادری اپنی رعایا سے زبردستی نذرانے یعنی ٹیکس لیا کرتے تھے۔

یہاں دو سوال اٹھتے ہیں۔ ایک یہ کہ اِنسان وطن پرستی کی طرف آخر رجوع کرتا ہی کیوں ہے؟ وہ کونسی بنیادی ضرورت ہے جس کی تکمیل کیلئے اُسے ایک اِجتماعی تشخص، ایک پہچان ہر قیمت پر درکار ہوتی ہے اور چونکہ موجودہ دَور میں اِس اِجتماعی تشخص کا راستہ صرف وطنیت دستیاب رکھا گیا ہے لہٰذا وہ اِسی کو اپنانے پر مجبور ہوتا ہے؟؟ کیوں وہ وطن کی پوجا کو حب الوطنی کا نام دے کر جائز بنانے اور اپنے ضمیر کو تھپتھپانے کی کوشش کرتا ہے، جمہوری اِلیکشن، آمریت، بادشاہت، اور سوشلزم، غرض مختلف طریقوں سے اِس بت مندر، اِس وطن کے پجاری متولی متعین کرتا ہے اور پھر ان کے خود غرضانہ قوانین کی طوعاً و کرہاً اِطاعت کرتے ہوئے وہ سلوک برداشت کرتا ہے جو بیگار کیمپ میں غلاموں کے ساتھ کیا جاتا ہے حالانکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اِس اِطاعت میں وہ نہ صرف ظلم سہہ رہا ہے بلکہ خالق کائنات سے کھلم کھلا بغاوت اور سرکشی کا ارتکاب بھی کر رہا ہے، ایسی مثالیں موجود ہیں جیسے اِسلام کا قلعہ کہلائے جانے والے ملک کے مالیاتی اور عائلی قوانین میں یہ شق بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اِن قوانین کے مقابلے میں شریعت کے قوانین زیرکار نہیں لائے جائیں گے۔۔۔ یہ وہی الفاظ ہیں جو فرعون نے کہے تھے لیکن آج ان الفاظ کو بخوبی سمجھنے کے باوجود یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت کو اِس بت پرستی کے وقت یعنی اِس قانون کی اِطاعت میں اِس مالیاتی ڈھانچے کو اِختیار کرتے اور نکاح نامہ پر دستخط کرتے ہوئے ذرہ برابر شرمندگی اور ندامت محسوس نہیں ہوتی، آخر کیوں؟؟۔۔۔ یقیناً اِنسان کی کوئی فطری مجبوری ہے جس کے ہاتھوں بے بس ہو کر وہ اِجتماعی تشخص کا ضرورت مند ہوتا ہے اور جس کا مثبت راستہ نہ ملنے پر اُسے وطنیت کو تشخص کا درجہ دینا پڑتا ہے، وہ مجبوری کیا ہے؟؟؟

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن کے نام پر یہ تشخص کس نے بنایا اور اِس میں اُس کی کیا مفاد پرستی پنہاں ہے؟ وہ کون سا اعلیٰ اور فطری تشخص ہے جسے رعایا کو اِختیار کروانے میں یہ مفادات پورے نہیں ہوتے؟ مزید یہ کہ اُس اعلیٰ تشخص تک اِنسانیت کو رسائی حاصل نہ ہو سکے، اِس کے لیے کون کون سے داؤ پیچ اور ہتھکنڈے اِستعمال کیے جاتے ہیں اور اِنسانی نگہ بصیرت میں کیسے دھول جھونکی جاتی ہے؟

اور آخر میں یہ کہ اِس ظلم، بیگار کیمپ کی اِس غلامی سے اِنسان کے نجات پانے کا راستہ کیا ہے کہ جس کے بعد نہ تو معاشرے میں لاقانونیت، بدعنوانی، بدحالی اور جرائم جنم لیں اور نہ ہی کوئی حکومت مختلف بہانوں سے عوام کو بے وقوف بنا کر، وطن کے نام پر ٹیکس اور تجارتی و صنعتی پابندیاں لگا کر ان سے ان کی محنتوں کا ماحصل چھیننا چاہے؟

ان سب سوالوں کے جو حقیقت میں ایک ہی سوال کے مختلف پہلو ہیں، جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں پہلے اِنسانی مجبوریوں کو سمجھنا پڑے گا اور اِس کے لئے اِنسانی ضرورتوں کا حتمی تعین کرنا پڑے گا کیونکہ اِس کے بغیر عوام کو بیوقوف بنانے کا حکومتی طریقہ واردات واضح نہیں ہو سکتا۔ یہ اِنسانیت کی بدقسمتی ہے کہ آج تک اِنسانی ضرورتوں کے اِس حتمی تعین تک ہمارے علم الانسان Anthropology اور نفسیات کی نظر نہیں پہنچ سکی۔