ہمارے تمام نظام ہائے معیشت زر کے تحرک پر اُستوار ہوتے ہیں اور زر کی تمام تر حرکت اور افادہ کا تعین پہلے ہی کر لینا لازم سمجھا جاتا ہے، بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ علم معاشیات کی وجہِ صدور ہی یہ ہے کہ نفع نقصان کا حتمی تعین کاروبار کے آغاز سے پہلے ہی کیا جا سکے تاکہ نقصان کا احتمال یا خوف نہ رہے۔

سود یا صحیح تر الفاظ میں "ربا" سرمایہ کاری کے اُس تصور کا نام ہے جس میں سرمایہ کار فرد یا ادارہ اپنے منافع کا تعین اپنی محنت کی بجائے سرمایہ کاری (Investment) کی بنیاد پر کرتا ہے۔ سود یا ربا کی واحد اور آسان ترین پہچان یہ ہے کہ اِس نظام کے نتیجے میں دولت مند افراد کی ملکیتی دولت میں محنت کیے بغیر اور وقت لگائے بغیر گھر بیٹھے ہی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یوں دولت پورے معاشرے میں بھرپور انداز میں گردش کرنے کی بجائے چند متمول افراد کے ہاتھوں میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے۔ اب یہ اضافہ خواہ بینک انٹرسٹ کی صورت میں ہو، سلیپنگ پارٹنرشپ Partnership Sleeping یا زمین و جائداد کے کرائے ٹھیکے یا مزارعت مضاربت مشارکت وغیرہ کی شکل میں، جب بھی کسی محنت کے بغیر محض سرمایہ کاری کی بنیاد پر کسی ایک یا چند مخصوص افراد/نجی ادارے کیلئے منافع حاصل کرنے کو جائز قرار دے دیا جائے گا یہ ربا یعنی سود کہلائے گا۔ اِس سے یہ حقیقت بھی نکھر کر سامنے آ جاتی ہے کہ موجودہ نام نہاد اِسلامی بینکاری کے نظام میں منافع کی تقسیم اکاؤنٹ ہولڈرز میں چونکہ اُن کے جمع شدہ سرمائے کے حجم کے تناسب سے ہوتی ہے لہٰذا سود کے دائرے میں آئے گی اور محض اِسلامی بینکاری کہہ دینے سے غیر سودی نہیں ہو جاتی، عین اُسی طرح جیسے شراب کی بوتل پر انگور کا شربت لکھ دینے سے اِس کا نشہ ختم نہیں ہو جاتا۔

سود سے مبرا شراکت کا تصور سمجھنا بالکل آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کسی کاروبار کے منافع کی تقسیم کے وقت سرمایہ کاری کے عوض منافع کا کوئی حصہ مختص نہ ہو اور تقسیم کا لائحہ صرف محنت صلاحیت، ذمہ داریوں اور اوقات کار کی بنیاد پر وضع کیا جائے۔ الہامی کتابوں میں اِس تصور کو اِس طرح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ سرمایہ کار کیلئے صرف اُس کا اصل زر ہے۔ گویا اگر محض سرمایہ کاری کو جواز بنا کر سرمایہ کار کیلئے منافع میں کچھ فیصد متعین کر لیا جائے تو یہ سود بن جائے گا۔ پبلک سیکٹر یعنی قومی مالیاتی ادارے کی طرف سے کسی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کیلئے چونکہ منافع کی رقم کا چند مخصوص ہاتھوں میں جمع ہو جانے کا امکان نہیں ہوتا بلکہ منافع کی یہ رقم پورے معاشرے کے اِجتماعی قومی مفادات کیلئے اِستعمال ہوتی ہے لہٰذا اِس قسم کی سرمایہ کاری کیلئے الہامی کتب میں منافع کی تقسیم کا ایک اور تصور دیا گیا ہے جس کا نام انفال ہے، تاہم اُس کی تفصیل ہم آخری ابواب میں زیر نظر لائیں گے۔

دَورِ حاضر کا سرمایہ کار سودی تصور کی طرف اِس لیے لپکتا ہے کہ وہ محنت کیے بغیر اپنی ضروریات زندگی پوری کرنا چاہتا ہے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ سودی تصور کا چلن جب عام ہوتا ہے تو معاشرے میں کس قدر زہریلے اثرات مرتب کرتا ہے، لیکن وہ اِس لیے خود کو مجبور قرار دیتا ہے کہ اُسے محنت سے بچنے کی گارنٹی صرف سودی چلن میں دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔

یہی محنت سے بچنے کی تمنا نظامِ ربا اور سود کو معاشرے میں منظم Systemize کرتی ہے اور پھر میڈیا کے ذریعے سود کو ایک ناگزیر مجبوری قرار دے کر اُس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ عوامی نفسیات سود کی مجبوراً تائید میں ایسی بن جاتی ہے کہ سود کی یہ چھوٹی سی پھنسی عدم مزاحمت کے باعث ساری میکرو اکنامکس پر پھیل جاتی ہے اور پھر پورے ملک کا ناسور بن جاتی ہے حتیٰ کہ عالمی مہاجنوں کو قومی سطح پر سود ادا کرنے کیلئے عوام پر ٹیکس لگا کر ان کی محنت کا ثمر ان سے چھیننا بھی برحق سمجھا جانے لگتا ہے۔ اِس عمومی نفسیات کا باعث اور سود کو عوامی سطح پر ناگزیر تسلیم کرا لینے کے اِس سارے فساد کو جنم اور جواز دینے والی بنیاد یہی "محنت سے بچنے کی خواہش" ہے۔ عوام کو جب نیچے کی سطح پر اِس سودی تصور کا قائل کر لیا جاتا ہے تو قومی سطح پر غیر ملکی قرضوں کے سود کیلئے ٹیکس ادا کرنے کے خلاف ان کی مزاحمت خود بخود دم توڑ دیتی ہے اور یوں حکمران طبقہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے سود خور ڈائریکٹرز مفت کے وہ نوالے ہڑپ کرتے رہتے ہیں جو کرنسی کی قیمت کم کر کے افراطِ زر اور مہنگائی پیدا کرتے ہوئے اور غریب اور بے بس عوام پر ٹیکس لگا کر ان کے منہ سے چھینے گئے ہوتے ہیں۔ آئیے اِس بنیاد یعنی "محنت کے خوف" کا تجزیہ کریں جس کے جواز پر عوام کو اِس سودی تصور کے حق میں قائل کرنے کی اِبتدا ہوتی ہے۔

آج ہم اپنے معاشرے میں ایسی مثالیں عام دیکھتے ہیں کہ لوگ محنت کرتے کرتے ہلکان ہو جاتے ہیں لیکن ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں جبکہ مستند تاریخ میں ہم لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب لوگ کوئی خاص محنت بھی نہیں کرتے تھے اور ان کی ضرورتیں اس قدر آسانی سے پوری ہوتی تھیں کہ مخیر حضرات ہاتھ میں خیرات کی رقم لے کر نکلتے تھے اور لینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس دور میں فرشتہ صفت لوگ پیدا ہوتے تھے اور آج خدا نے شیطان صفت پیدا کرنے شروع کر دئیے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں آئین مملکت ایسا تھا جس کی موجودگی میں انسان کی ضرورتیں ہی بہت کم رہ جاتی تھیں۔ظاہر ہے کہ اس ٹیکس فری آئین کی ایک شرط یہی ہو گی کہ ہر شہری کیلئے اتنا ہی پھل ہے جتنی اس نے محنت کی، محض سرمایہ کاری کی بنیاد پر حاصل ہونے والے منافع پر کسی فرد کا انفرادی استحقاق نہیں ہے۔ اب اس شرط کی موجودگی میں معاشرے سے طبقاتی امتیاز خود بخود کم ہونا شروع ہو گیا ہو گا کیونکہ محنت کے ثمر میں فرق کم سے کم ہوتا چلا گیا ہو گا اور یوں ضرورتیں بھی کم رہ گئی ہوں گی۔ اسی اصول پر مبنی قانون آج مدون ہو کر آئین میں شامل کر لیا جائے تو آج کا معاشرہ بھی ویسا ہی ہو سکتا ہے جس میں بہت کم محنت کے معاوضے یا منافع سے ہی ضروریات پوری ہو جائیں۔ ہمہ گیر آئین مملکت کیلئے ایسے متعدد پہلو ہیں جو آج ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ اس بات کی وضاحت آئندہ ابواب میں ہو جائے گی۔

اب جدید اقتصادیات کے تناظر میں ضروریات زندگی کے اسی تصور کو دیکھیں۔

کوئی سرمایہ کار جب کوئی نیا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ متوقع نفع نقصان کا تخمینہ لگاتا ہے۔اس تخمینے یا Feasibility Report کی بنیاد پیداواری اخراجات پر استوار ہوتی ہے۔ ان اِخراجاتِ پیداوار Cost of Production پر حکومتی پالیسی اور نت نئے ٹیکسوں وغیرہ کی تبدیلی کے باعث اضافے کی بے بسی کے علاوہ بہت سے کائناتی عوامل بھی مثلاً موسم، قدرتی آفات و حادثات، بیماری اور صحت یا زندگی اور موت، یہ سب عوامل اِنسان کے پروگرام کو زیر و زبر کرتے رہتے ہیں۔ اب ناگہانی قدرتی آفات اور حادثات وغیرہ پر تحفظ کیلئے تو سودی نظام نے انشورنس کے نام سے ایک بوجھل طریقہ وضع کر رکھا ہے لیکن اگر پیداواری اخراجات میں نقصان کسی ناگہانی کے بغیر ہی سرکاری پابندیوں یا ٹیکسوں کی شرح یا اجرت میں اِضافے کے باعث ہو جائے تو اُس نقصان سے حفاظت کی ضمانت نظام معیشت میں نہیں ہوتی اور نظام معیشت کی یہی نااہلی سود کو ناگزیر بنائے ہوئے ہے، لہٰذا فطری نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں نہ تو پابندیوں اور ٹیکسوں کا وجود ہو اور نہ ہی اجرت کی کمی بیشی سے اِخراجاتِ پیداوار میں اضافہ ہونے کا اندیشہ موجود ہو چنانچہ نہ صرف انشورنس کا بوجھ اخراجات پیداوار سے ہٹ جائے بلکہ نقصان کا امکان نہ رہنے کے باعث منافع کے پیشگی تعین کی بھی کوئی خاص اہمیت نہ رہ جائے۔

بادی النظر میں یہ ایک ناممکن سی بات لگتی ہے کہ منافع کے پیشگی تعین کی بھی کوئی خاص اہمیت نہ ہو، مثال کے طور پر کوئی سرمایہ کار ایک کارخانہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اگر وہ اپنے منافع کی مقدار، اپنی Feasibility Report ہی تیار نہ کرے تو اُس کو کیا معلوم کہ اُس کے کاروبار کا کیا حشر ہونے والا ہے؟۔۔۔ مگر جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ صرف بادی النظر میں لگتا ہے۔ دراصل یہ رپورٹ بنیادی طور پر پیداواری اخراجات پر استوار ہوتی ہے اور اگر ہم اِس رپورٹ کو فطرت کے قریب تر لانا چاہتے ہیں یعنی منافع میں حسب منشا اِضافہ ممکن بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ کہ کسی ترکیب سے پیداواری اخراجات میں کمی کو لامحدود حد تک ممکن بنا دیں۔ دوسرے الفاظ میں ایک ایسی ترکیب ہونی چاہیے جس سے کوئی پروڈیوسر فرد یا ادارہ اپنی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں جب چاہے اور جتنی چاہے کمی کر سکے۔

اگر ہم ایک ایسی قانونی ترتیب اِختیار کر سکیں جس میں حکومت کے پاس ٹیکس یا پابندیاں لگانے کا اختیار نہ ہو اور سرمایہ کار کو وہ ترکیب معلوم ہو جس کے ذریعے وہ جب چاہے کسی بھی متعین شرح سے کہیں زیادہ افادہ حاصل کر سکتا ہو تو اُس کی نظر میں اپنے منافع کو پہلے سے متعین کرنے کی کوشش بے معنی ہو جائے گی اور وہ یقیناً حالات کی مناسبت سے اپنے اِخراجاتِ پیداوار میں رد و بدل کے ذریعے حسب منشا زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی پالیسی اپنائے گا۔ یہی قانون فطرت ہے اور یہی وہ حکمت عملی ہے جو بغیر کسی حیل و حجت کے، سود کو نظام معیشت میں ایک ناقابل اطلاق عامل قرار دے کر نکال باہر پھینکے گی۔۔۔ آیئے اِس الجھی ہوئی ڈور کا سرا ڈھونڈیں اور عاملین پیدائش Production Factors میں سے دیکھیں کہ کونسا عامل سب سے زیادہ غیر مستقل ہے؟

اِس تناظر میں دیکھنے سے صرف ایک ہی عامل یعنی "اُجرت" کا عامل ایسا دکھائی دیتا ہے جس پر اٹھنے والے اخراجات کم کرنا اِنفرادی طور پر پروڈیوسر کے اِختیار میں ہوتا ہے ورنہ دیگر عوامل مثلاً خام مال یا ایندھن کے اخراجات تو خارجی اور اِجتماعی بنیادوں پر متعین ہوتے ہیں اور اِن میں قابل ذکر کمی اِنفرادی طور پر پروڈیوسر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

اُجرت ایک ایسا عامل ہے جسے اگر غیر محدود حد تک لچک دار کر لیا جائے تو ہم اپنا ٹارگٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ اِسی بات کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسا نظام روزگار ترتیب دینا ہے جس میں اُجرت کا پیشگی تعین نہ ہو سکے بلکہ حالات کے مطابق اُجرت پر اٹھنے والے اخراجات میں آجر Employer کے حسب منشاء اِس طرح کمی بیشی ہو سکے کہ اِس کمی سے نہ تو پیداوار کے معیار و مقدار کو کوئی نقصان پہنچے اور نہ ہی اجیروں Employees کی تعداد یا کارکردگی میں کوئی فرق آئے۔

اِس کا ایک طریقہ تو ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ کار اور کارندے مختص کردہ وقت اور ذمہ داریوں کی نوعیت کی بنیاد پر کسی بھی طے شدہ تناسب کے ساتھ نفع نقصان میں حصہ دار ہوں۔۔۔ یہ طریقہ ہر چند کہ عین فطری ہے لیکن ہمہ گیر نہیں ہے اور ہر جگہ اِس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، مثال کے طور پر اگر کوئی سرمایہ کار اپنے ٹریڈ سیکرٹ کے طور پر پروڈکشن کی تکنیک یا کاروباری کلائنٹ کا پتہ نشان صیغہ راز میں رکھنا چاہے تو ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ اِس نظام میں ہر اُس شخص کو پڑتال کا حق ہوتا ہے جس کا منافع میں حصہ ہے۔

دوسری قباحت اِس میں یہ ہے کہ اِس معاہدے میں اختلاف رائے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کارندوں کی حیثیت چونکہ ورکنگ پارٹنرز کی ہوتی ہے لہٰذا وہ قدم قدم پر سرمایہ کار کو ٹوکتے ہیں اور اُس کے کاروبار کو اپنی پالیسی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ اِس کا جواز اُن کے پاس یہی ہوتا ہے کہ سرمایہ کار کی کمزور پالیسی سے اُن کا منافع متاثر ہو گا اور ان کی محنت ضائع چلی جائے گی۔۔۔ اِس اختلاف کے نتیجے میں اول تو ایسا معاہدہ ہو ہی نہیں پاتا اور اگر ہو بھی جائے تو اُسے ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ یہی وجہ ہے کہ اِس تصور کو کہیں کہیں صرف زرعی یا ایسے تجارتی نظم کاروبار میں تو اِستعمال کیا جاتا ہے جہاں سرمایہ کار کو کوئی پالیسی وضع نہیں کرنا ہوتی مثلاً دواؤں کی ڈسٹری بیوشن وغیرہ، لیکن صنعتی پیداواری میدان میں اِس تصور کی شاید ہی کوئی مثال موجود ہو۔

اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں مروجہ تصورِ اُجرت کے علاوہ اُجرت کی ہی ایک لچکدار ترتیب بھی فراہم کرنا ہو گی، گویا ہمیں ایک ایسا نظام دستیاب کرنا ہو گا جس میں اُجرت کی مالیت کے پیشگی تعین کا تصور نہ ہو بلکہ آجر کو آزادی ہو کہ وہ جب چاہے اِس مالیت میں کمی یا زیادتی کر سکتا ہو، لیکن اِس تبدیلی کے باوجود پروڈکٹ کے معیار اور پیداواری تناسب میں فرق نہ آئے یعنی اجیروں کی تعداد یا کارکردگی متاثر نہ ہو۔

اِس مقصد کیلئے ہمیں اُجرت کے نفسیاتی پہلو کا جائزہ لینا ہو گا۔

کوئی بھی اِنسان خواہ اُجرت کی شکل میں یا اپنے کاروباری نفع کے ذریعے، غرض جب روزی کماتا ہے تو اُس کا مقصد اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کرنا ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ اگر ہمیں اُجرت میں کمی کے تصور کو فول پروف رکھنا ہے تو ہمیں اِس شرط کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ اِس کمی کے باوجود اجیر کو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی میں رکاوٹ نہ آ سکے۔

اِس کیلئے ہمیں اِنسانی ضروریات کا حتمی تعین کرنا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ وہ کون کون سی شے ہے جس کے نہ ملنے پر اِنسان جرم پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنی جستجو کی ابتدا ہر قسم کے جرائم کے تجزئیے سے کرنا ہو گی۔ یہیں سے اِنسانی بنیادی ضروریات کی اصل پہچان، نوعیت اور شدت ہماری سمجھ میں آئے گی اور پھر حل تک پہنچنا بالکل سامنے کی بات ہو جائے گی۔

ظاہری طور پر یہ ایک بہت پیچیدہ مسئلہ دکھائی دیتا ہے مگر یقین کیجیے کہ یہ محض چند منٹوں کا احاطہ ہے اور آپ حیران ہوں گے کہ اِس قدر آسان اور پیش پا افتادہ معاملہ اِنسان کی سمجھ میں پہلے کیوں نہ آیا۔