انسانی عقل کی نارسائی اور یوٹوپیائی ٹامک ٹوئیاں

ہر جرم کی محرک فرسٹریشن Frustration ہے۔ ہمیں اِس لفظ کا حقیقی اُردو مترادف نہیں ملا کیونکہ مایوسی، محرومی، بے چینی، ناکامی، تفکر اور تشویش جیسے الفاظ مفہوم کو مکمل طور پر واضح نہیں کرتے لہٰذا یہاں اور آگے چل کے ہم یہی لفظ اِستعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

فرسٹریشن کے بغیر کوئی جرم نہیں ہو سکتا۔ جس سانحہ، جس واقعہ کے پس منظر میں کوئی فرسٹریشن نہ ہو، اُسے جرم نہیں کہتے، حادثہ کہتے ہیں۔ جرم کی پہچان ہی یہ ہے کہ اُس کی محرک اِنسان کی کوئی نہ کوئی فرسٹریشن ہوتی ہے۔ قانون کی زبان میں اِسے وجہِ جرم کہتے ہیں۔

جرم کا اِرتکاب اِجتماعی طور پر ہوا ہو یعنی جنگ و قتال، تو مورخین وجہِ جرم کی تفصیل اخذ کر کے تاریخ کے صفحات میں مجرم افواج پر فرد جرم عائد کرتے ہیں اور اگر جرم اِنفرادی سطح پر ہوا ہو تو عدالت اِسی فرسٹریشن کو جرم کا محرک تسلیم کرتی ہے۔۔۔ اور ہم جانتے ہیں کہ وجہِ جرم کی موجودگی کے بغیر کوئی قانون کسی کو مجرم نہیں ٹھہرا سکتا۔

فرسٹریشن اُسی وقت وقوع پذیر ہوتی ہے جب اِنسان کیلئے اُس کی کسی فطری ضرورت کی تکمیل ممکن نہ رہے۔۔۔ یہاں یہ جاننا لازم ہے کہ ضرورت کس چیز کا نام ہے اور "بنیادی ضرورت" اور "محض خواہش" میں فرق کرنے کا پیمانہ کیا ہے؟

اِس پیمانے کا نام "طلب" ہے۔ ہم بخوبی سمجھتے ہیں کہ اِنسان میں کسی شے کی طلب جن عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے وہ یہی دو ہیں، ضرورت یا خواہش۔۔۔ لیکن اِن دونوں عوامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی طلب کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ جب اِنسان کو کوئی بنیادی ضرورت پوری کرنا ہوتی ہے تو جب تک یہ ضرورت پوری نہ ہو، طلب بڑھتی جاتی ہے، حتیٰ کہ فرسٹریشن میں بدل جاتی ہے اور انجام کار اِنسان کو جرم پر آمادہ کر دیتی ہے جبکہ محض خواہش کے زیر اثر پیدا ہونے والی طلب کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ طلب خواہ کتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہو، ویسی ہی یکساں Constant رہتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس میں ایسا اضافہ نہیں ہوتا جو اِنسان کو اِرتکابِ جرم تک پہنچا سکے۔ اِس کی آسان مثال پانی اور کوکا کولا کے فرق میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پانی اِنسان کی ضرورت ہے اور اگر نہ ملے تو طلب بڑھتی جائے گی چنانچہ ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ جب اِنسان اِس طلب کے ہاتھوں مجبور ہو کر قتل جیسے جرم کا بھی ارتکاب کر بیٹھے جبکہ کولا یعنی وہ ذائقہ اور خوشبوئیں (فلیورز اور سوڈے کی گیس) نارمل اِنسان کی محض خواہش کا درجہ رکھتی ہیں۔ اِنسان میں ان کی طلب تو موجود ہوتی ہے لیکن اگر یہ اُسے برسوں تک بھی دستیاب نہ ہوں تو بھی یہ طلب نہ تو فرسٹریشن کا باعث بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی سنگین جرم پر اُسے آمادہ کر سکتی ہے۔

اِس پیمانے کو ملحوظ نظر رکھیں تو دکھائی دے گا کہ اِنسان فطری طور پر جو ضرورتیں لے کر پیدا ہوا ہے اور جنہیں پورا کرنے کیلئے اُسے مروجہ قانونی نظام کے تحت جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور جو اُس کیلئے مسئلہ بن سکتی ہیں، ان کی تعداد صرف تین ہے۔