یہ ایسی ضرورت ہے جو اِنسان اور دیگر مخلوقات کے درمیان فرق اور اِمتیاز کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی وہ ضرورت ہے جو پہلی دونوں ضروریات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یوں سمجھیں کہ اِنسان کی جسمانی ضرورت تو محض لباس ہے لیکن اِس کے ضمن میں ایک قیمتی لباس کا انتخاب وہ برتری کی ضرورت پوری کرنے کیلئے کرتا ہے۔ یہی وہ ضرورت ہے جو اِنسان کو تعلیم حاصل کرنے پر اکساتی ہے، اُسے لباس، غذا، رہائش اور دیگر جسمانی ضروریات پر "زیادہ" رقم خرچ کرنے کیلئے آمادہ کرتی ہے اور یہی وہ ضرورت ہے جسے ہمارے قانون ساز جینیئس نے لازمی بنیادی ضرورت کا درجہ نہ دیا بلکہ محض ایک خواہش سمجھتا رہا چنانچہ اِس کے بنائے ہوئے ہر قانونی نظام نے اِنسان کو اِس ضرورت کی تکمیل کیلئے دولت مندی کی نمائش کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ دیا اور پھر اِنسان کیلئے زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

اِنسانی نفسیات کے علم و تحقیق کی تاریخ میں ہمیں جو دو قابل ذکر مکاتب فکر دکھائی دیتے ہیں ان میں سے ایک تو "فرائڈ" ہے جو جنسی طلب کو ہر فساد کی جڑ قرار دیتا ہے اور دوسرا اُس کے شاگرد "ایڈلر" کا مکتب فکر ہے۔ اُس کی دانست میں معاشرتی اِبتلا کا بنیادی عامل ہر اِنسان کی دوسرے اِنسانوں پر حاوی ہونے کی خواہش ہے۔ اِسے وہ Urge to Dominate کا نام دیتا ہے۔

یہ دونوں نظریات غلط نہ سہی، لاحاصل بہرحال ہیں، اِس لیے کہ نامکمل ہیں۔ دونوں ماہرین کے سامنے جب تصویر فطرت نے اپنے ایک ایک گوشے سے نقاب ہٹایا تو وہ اپنی اپنی جگہ عالم سرخوشی میں اپنے اپنے اِنکشاف کو پوری تصویر فطرت سمجھ بیٹھے اور انہیں شاید کچھ ویسا ہی محسوس ہونے لگا جیسا ارشمیدس کو "یوریکا، یوریکا" چلاتے وقت محسوس ہو رہا تھا۔ اُنہوں نے مزید تحقیق اور عمیق نگہی کی کتاب بند کر دی اور باقی عمر اپنے اپنے اِنکشافات کو مکمل امر واقعہ ثابت کرنے میں صرف کر دی۔ اگر وہ مزید گہرائی میں اترتے تو یہ حقیقت بھی اُن پر آشکار ہو جاتی کہ یہ دونوں نظریات ہم پلہ ہیں اور اِنسانی معاشرے پر یکساں شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتے ہیں، اِس لیے کہ بنیادی اِنسانی ضروریات کی ذیل میں آتے ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ اِس نتیجے پر بھی پہنچ جاتا کہ نفسیاتی اعتبار سے بھی جنسی تعلق کی حیثیت مرد اور عورت میں ایک جیسی نہیں ہے اور ایڈلر کی سمجھ میں یہ بھی آ جاتا کہ وہ جسے Dominate to Urge کا نام دے رہا ہے وہ محض Urge ہی نہیں ہے بلکہ اِنسان کی ایک ایسی بنیادی فطری ضرورت ہے جسے ہر حال میں پوری کرنا اُس کی ویسی ہی مجبوری ہے جیسی بھوک پیاس مٹانا۔

یہ ضرورت اِنسان کی وہ خصوصیت ہے جو اُسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ دوسرے جانوروں میں ہم دو طرح کے رویے دیکھتے ہیں، ایک یہ کہ اپنے ہم جنسوں میں برابری کی سطح پر مل جل کر رہنا جیسے پرندے چوپائے اور حشرات وغیرہ۔۔۔ اور دوسرا یہ کہ اپنے گرد و نواح میں کسی ہم جنس کی موجودگی گوارا نہ کرنا جیسے خونخوار درندے۔ اِنسان واحد جاندار ہے جسے دوسرے اِنسانوں کے درمیان رہتے ہوئے ہر سطح پر اپنی افضلیت اور برتری دوسروں سے تسلیم کروانا ہوتی ہے اور اِسی ضرورت کے نتیجے میں دنیا بھر کی ترقیاں، تمام علوم اور فنکاریاں وجود میں آئی ہیں۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اِنسان ترقی کا خواہشمند ہے تو یہ بات مہمل، مبہم یا نامکمل سی محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِنسان دراصل برتری کا طلبگار ہے اور اُسے حاصل کرنے کی کوشش کے رد عمل میں ترقی وجود میں آتی ہے، یعنی اِس کوشش کے نتیجے میں وہ ایسے کام کر جاتا ہے جنہیں ہم ترقی کا نام دیتے ہیں۔

اِس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ ایسی ضرورت ہے جسے اِنسان کو اپنی زندگی کے تینوں پہلوؤں Dimensions میں پوری کرنا ہوتا ہے۔ زندگی کے تین پہلو یہ ہیں۔

  1. بحیثیت ایک اِنسان کے۔
  2. بحیثیت اِجتماعی (یعنی کسی قوم اور علاقہ سے نسبت رکھتے ہوئے)
  3. بحیثیت اِنفرادی (یعنی اپنے معاشرے کے اندر رہتے ہوئے، اپنی ذات کے حوالے سے)

اب ہم اِن تینوں پہلوؤں کا باری باری جائزہ لیں گے۔