یہ اِس ضرورت کے ضمن میں اِنسانی زندگی کا دوسرا پہلو ہے۔

تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں اِنسان مذہب کی بنیاد پر معاشرے تشکیل دیتا اور پھر انہیں برتر ثابت کرنے کیلئے جنگیں لڑتا رہا ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کے دوران نظریۂ وطنیت کو معاشرے کی اساس بنانے کیلئے یہ معاشرے توڑے جاتے رہے۔ اِس عمل کو ہم اِنقلاباتِ عالم کا نام دیتے ہیں۔

اِن اِنقلابات کے ذریعے درحقیقت مذہب کو تشخص کے درجے سے ہٹانا مقصود تھا اور اِس کیلئے لازم تھا کہ اِنسان کو اُس کے اِجتماعی تشخص کیلئے کوئی دوسرا نظریاتی متبادل فراہم کیا جاتا۔ یہ متبادل جغرافیائی بنیادوں پر استوار قومیت یعنی وطنیت کی صورت میں فراہم کیا گیا۔

جغرافیائی قومیت کا تصور فروغ دیئے جانے کی وجہ تاریخ کے مطالعہ سے قدرے واضح ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کی تائید اور حمایت حاصل کرنا ہر حکومت کی بنیادی ضرورت تھا تاکہ اِس سے فائدہ اٹھا کر وہ حکومت رعایا سے زیادہ سے زیادہ ریونیو Revenue وصول کر سکتی۔۔۔ اور اُسے یہ حمایت تبھی مل سکتی تھی جب وہ خود ہی اپنے عوام کی اِجتماعی برتری کی علامت ہوتی۔ معاشرے کے مذہب کے نام پر اُستوار ہونے سے عوامی حمایت اور اِجتماعی برتری کا مرکز و محور بادشاہوں کی بجائے مذہبی پیشوائیت ٹھہرتی تھی چنانچہ اُن بادشاہوں کو اُس مذہبی پیشوائیت کی تائید حاصل رکھنے کیلئے ریونیو میں سے ایک بڑا حصہ چرچ کو دینا پڑتا تھا۔ یہ اُن بادشاہی حکومتوں کا کمزور پہلو تھا جسے اِنقلاب کے علمبرداروں نے بھانپ لیا اور پھر اِنقلابی عمل کے ذریعے برتری کی علامت یعنی اِجتماعی تشخص مذہب کی بجائے علاقے یعنی ملک کو قرار دے دیا تاکہ حکومت کو رعایا سے اپنے مفاد پرستانہ احکام منوانے کیلئے مذہبی پیشوائیت کی احتیاج ختم ہو جائے اور آئین سازی پر اُس حکومت کی مطلق العنانی قائم ہو جائے اور یوں عوامی اِطاعت یعنی حسب منشاء ریونیو وصولنے کے ضمن میں مذہبی پیشوائیت اُس حکومت کو بلیک میل نہ کر سکے۔ اِنقلابِ فرانس اِسی مقصد کیےئت برپا کیا گیا اور پھر پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اِنسان کو یقین آنے لگا کہ وہ جس ملک یا علاقہ سے تعلق رکھتا ہے وہی اُس کا قومی تشخص ہے، اُس کی اِجتماعی برتری کی علامت ہے اور اگر یہ علامت نہ رہی تو اُس کی پہچان یعنی افضلیت کی حیثیت صفر ہو جائے گی۔ یہی سوچ پیدا کرنا آج بھی ہر مفاد پرست حکومت کیلئے کامیابی کا پہلا سبق ہے چنانچہ وہ اِس سوچ کو حب الوطنی کا نام دیتی ہے اور اِس کی مزید تقویت کیلئے تمغوں، اِنعامات اور اعزازات کا سلسلہ وضع کرتی ہے تاکہ اِنسانوں کیلئے اِنفرادی برتری کا لالچ بھی پیدا ہو جائے۔ اگر کسی موقع پر اِنسان کو یہ یقین ہو کہ ملک ختم ہونے کے باوجود اُس کی اِجتماعی برتری کی پہچان اور حیثیت متاثر نہیں ہو گی تو وہاں اُس کی حب الوطنی ملک ختم ہونے کے راستے میں بھی مزاحم نہیں ہوتی۔ اِس کی ایک بہت عمدہ مثال مشرقی اور مغربی جرمنی کا اِنضمام ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اِنسان کی ضرورت ملکی یا مذہبی پہچان یا قوم سے محبت کرنا نہیں ہے بلکہ باقی معاشروں پر اپنے معاشرتی گروہ کو برتر تسلیم کرانا ہے اور اِس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اُسے ایک لیبل درکار ہوتا ہے جو اِجتماعی تشخص کہلاتا ہے۔ یہ تشخص پہلے مذہب کے نام پر وضع ہوتا تھا، اب ملک اور شہریت کے نام پر تشکیل دیا جانے لگا ہے۔

جب سے جغرافیائی بنیادوں پر قومیت یا دوسرے الفاظ میں وطنیت کے تصور کو فروغ دیا گیا ہے، اِنسان اپنی اِجتماعی برتری کی کوشش جو پہلے مذہب کے نام پر کرتا تھا، اب قوم اور ملک کے نام پر کرنے لگا ہے۔ جدید خلائی دَور کی تمام ایجادات اور ترقی اِسی کوشش کا شاخسانہ ہے، بیسویں صدی کی تمام جنگیں اِسی بنیاد پر ہوئیں، نسلی اِمتیاز کو بھی اِسی بہانے ہوا دی جاتی ہے، آج کی عالمی سیاست میں یہی اِنسانی ضرورت دُکھتی رگ کی حیثیت رکھتی ہے جسے کائیاں سیاستدان زیادہ سے زیادہ چھیڑ کر الیکشن میں ووٹ حاصل کرتے ہیں۔

ملکوں کے درمیان ہونے والے کھیلوں کے مقابلے اِسی ضرورت کی تکمیل کا راستہ ہیں۔ اِن مقابلوں میں اِس ضرورت کی تکمیل کا پہلو دونوں سطحوں پر ہوتا ہے، دیکھنے والوں کیلئے یہ مقابلے اِجتماعی برتری یعنی قومی برتری حاصل کرنے کا راستہ ہیں جبکہ کھلاڑی کیلئے یہ بیک وقت اِنفرادی اور اِجتماعی، دونوں پہلوؤں کی تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔

اِجتماعی برتری کا حصول اِنسان کی وہ ضرورت ہے جس کے مثبت طریقے سے پورا نہ ہونے پر وہ اِجتماعی جرائم یعنی جنگیں لڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور یہی وہ ضرورت ہے جس کی تشنگی پیدا کر کے تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتیں اپنے عوام کو گویا بلیک میل کرتی ہیں اور اِسے دفاعی ضرورت کا نام دے کر اِس کی بنیاد پر ٹیکس عائد کرتی ہیں۔

اب رہا یہ سوال کہ اِنسان کو اپنی اِجتماعی افضلیت کیلئے کوشش کرنے کا وہ فطری راستہ کونسا دستیاب کیا جا سکتا ہے جس سے جنگ و جدل یا رعایا کے اِستحصال کی کوئی ممکنات پیدا نہیں ہوتیں؟ تو اِس کی تفصیلی وضاحت کے لیے اِس سارے عمل کے منظر نامے کا مشاہدہ ہم آئندہ صفحات میں کریں گے لیکن اِس سے پہلے اِس ضرورت کے تیسرے پہلو یعنی "اِنفرادی سطح پر برتری" کا اِجمالی جائزہ لازم ہے۔