اِسی ضرورت کی تیسری سطح اِنفرادی برتری ہے۔ یہ وہ سطح ہے جہاں اِنسان اپنے معاشرے کے اندر رہتے ہوئے، اِرد گرد کے اِنسانوں پر اپنی ذات کی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے اور اِس کا طریقہ اُسے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ ممتاز اور نمایاں تسلیم کر لیا جائے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے معاشرے کے اندر رہتے ہوئے ایک اِمتیازی حیثیت حاصل کرنا ہر اِنسان کی فطری ضرورت ہے۔

غیرت، انا، عزتِ نفس، تکبر، گالی، تحقیر و تذلیل اِسی ضرورت کے مختلف ردِ عمل ہیں۔ عہدہ و اِختیارات، گلیمر Glamour، عالیشان رہائش گاہ اور سواری، زرق برق ملبوسات، کاسمیٹکس اور دیگر سامان تعیش، نمود و نمائش اور جاہ و حشم اِسی ضرورت کی سیرابی کے مختلف اظہار ہیں۔ دولت، تعلیم اور فنی مہارت کی جدوجہد یعنی اِنفرادی ترقی اِسی آسودگی کو حاصل کرنے کی کوشش کا نام ہے۔

نفسیات کے ماہرین اور ہمارے معاشرتی نظاموں کو مرتب کرنے والوں کی فاش غلطی یہی ہے کہ ہرچند وہ اِنسان کی اِس طلب کے منکر تو نہیں ہیں لیکن اِسے بنیادی، فطری اور ناگزیر ضرورت کی حیثیت دینے کا انہیں کبھی خیال ہی نہیں آیا اور ان کی یہی بھول مکمل ترین نظام زندگی تک نہ پہنچ سکنے کی اصل وجہ بنی رہی اور اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک اِنسانی ضرورتوں کا حتمی تعین ہمارے ماہرین نفسیات نہ کر سکے اور وہ جسمانی تحفظ کی ضرورت کو برتری کی ضرورت کے ساتھ مخلوط کرتے رہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو جسمانی تحفظ کی ضرورت یعنی معمولی رہائش، سستا لباس، مٹی کے برتن وغیرہ اِنسان کا مسئلہ نہیں بلکہ اِسے مسئلہ بنانے والا عامل یہی برتری حاصل کرنے کی طلب ہے جو اِنسان کو جسمانی تحفظ کی ضرورت پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرنے پر اکساتی ہے اور اِسے مسئلہ بنا دیتی ہے۔

برتری یا افضلیت حاصل کرنے کی یہ اِنسانی ضرورت وہ بنیاد ہے جس پر اِس تحریر میں دیئے گئے مکمل ترین قانونی نظام کو ایستادہ کیا گیا ہے۔