معاشروں میں برتری اور عظمت کے معیار

اِنسان جب اِمتیازی حیثیت حاصل کرنے کیلئے جدوجہد شروع کرتا ہے تو یہ یقینی امر ہے کہ وہ اِس جدوجہد کا رُخ اُنہی معیاروں کی طرف کرے گا جو معاشرے میں برتری کے ثبوت کے طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ اگر معاشرتی ماحول ایسا ہو جس میں برتری کے ثبوت کے طور پر وہی معیار مسلمہ ہوں جو ہر وقت ہر اِنسان کے بس میں ہوتے ہیں اور جو کسی سے چھینے یا خریدے نہیں جا سکتے یعنی اِخلاقی اقدار، حسن سلوک، شائستگی، ہمدردی، سچائی، دیانتداری، سادگی، مستحسن عادات و اطوار اور سلیقہ وغیرہ۔۔۔ تو یقیناً ہر شخص کیلئے ہر وقت اِنہیں زیادہ سے زیادہ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ لامحدود مقدار میں حاصل کرنے کا راستہ موجود رہتا ہے اور چونکہ یہ چیزیں کسی سے چھینی یا خریدی نہیں جا سکتیں لہٰذا جرائم بھی وقوع پذیر نہیں ہوتے۔۔۔ لیکن اگر معاشرے میں برتری کی علامت کے طور پر ایسے عوامل کو معیار کا درجہ دے دیا گیا ہو جو ہر وقت ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتے مثلاً دولت مندی اور امارت کا اظہار۔۔۔ تو یقیناً ان کی بنیاد پر معاشرے میں ممتاز اور نمایاں ہونے کا راستہ ہر وقت ہر کسی کیلئے کھلا ہونا ممکن نہیں ہے چنانچہ اِس ماحول میں فرسٹریشن اور پھر جرائم کا فروغ پانا ایک قدرتی امر ہے۔

اِنسان برتر ہونے کی کوشش میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کیلئے جنونی ہو جاتا ہے اور اِس کیلئے ہر جائز و ناجائز حربہ اِختیار کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اِسی کے نتیجے میں چوری، ڈاکہ، رشوت، اقرباپروری، ڈرگ مافیا وجود میں آتے ہیں۔ کسی جائز طریقے سے نمایاں نہ ہو سکنے والے پر احساس کمتری کی فرسٹریشن طاری ہوتی ہے۔ سٹیٹس کامپلکس، نئی اور پرانی نسل کا جھگڑا، نمود و نمائش اور جہیز جیسی سماجی برائیاں اِسی کا نتیجہ ہیں۔ اِسی کے رد عمل میں سنگین جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب کسی نے محض شہرت حاصل کرنے کیلئے کئی افراد کو قتل کر ڈالا، کہیں تباہی پھیلا دی، ڈاکہ یا اغوا کا مرتکب ہو گیا، وغیرہ۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ اُسے اپنی یہ ضرورت پوری کرنے کا مثبت راستہ نہیں ملا چنانچہ وہ لاشعوری طور پر یہ تسلیم کر چکا تھا کہ وہ افضلیت اور برتری کی جس بلندی تک پہنچنا چاہتا ہے وہ اُسے مثبت طریقوں سے حاصل نہیں ہو سکتی۔

جو فرسٹریٹڈ Frustrated شخص جرم نہیں بھی کرتا وہ زندگی کی کٹھنائیوں سے فرار حاصل کرنے والاEscapist بن جاتا ہے اور خود کو شراب، منشیات وغیرہ میں غرق کر کے اِس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تب وہ معاشرے کا سود مند شہری بننے کے قابل نہیں رہتا۔ وہ نفسیاتی مریض بن سکتا ہے، ذہنی دباؤ یا شراب و منشیات سے پیدا ہونے والی بیماریوں، بلڈ پریشر، فالج، السر، ذیابیطس، نروس بریک ڈاؤن، حتیٰ کہ کینسر کا شکار ہو سکتا ہے۔ دولت چھن جانے کا صدمہ اچانک پہنچے تو ہارٹ فیل بھی ہو سکتا ہے۔ اِن سب عوامل کی وجہ یہی ہے کہ اِنسان اپنی ملکیتی دولت کو افضلیت کا پیمانہ سمجھتا ہے اور اِس میں کمی کے احساس پر یہ سمجھتا ہے کہ اُس کیلئے معاشرے میں برتری کا ٹارگٹ حاصل کرنا دشوار تر ہو گیا ہے۔ چونکہ اِس ضرورت کو پورا کرنا اِنسان کی مجبوری ہے لہٰذا وہ اِس کیلئے جدوجہد کرتا ہے اور یہ بھی فطری امر ہے کہ اِس کیلئے وہ وہی راستہ اِختیار کرتا ہے جو معاشرتی نظام اور ماحول میں دستیاب ہے، اگر یہ راستہ دولت مندی کا اظہار ہے تو وہ یقیناً اِسی کے پیچھے بھاگے گا۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دولت بذاتِ خود اِنسان کیلئے ضرورت کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ اِنسان اِنفرادی سطح پر دوسرے اِنسانوں سے اپنی افضلیت تسلیم کرائے اور اِس کا پیمانہ امارت کا اظہار بن چکا ہے۔

اب ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاشرے میں نمایاں ہونے کیلئے جو معیار مقرر ہے یعنی دولت مندی کی نمائش، وہی خرابیوں کا سبب ہے۔ اگر معاشرے میں عظمت اور ستائش کا ذریعہ یہ نمائش نہ رہے بلکہ اِس کی بجائے اِخلاقی اقدار اور نیک نامی بن جائے تو دولت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی فرسٹریشن وجود میں ہی نہیں آئے گی جو جرائم کو جنم دیتی ہے۔

اِس نکتے سے تو ہمارے دَور کا، بالخصوص ترقی یافتہ معاشروں کا جینیئس بھی بخوبی واقف ہے لیکن اِس کے بعد اُس کی ہوا نکل جاتی ہے۔ اُس کے پاس ایسا معاشرتی نظام ترتیب دینے کا کوئی راستہ نہیں ہے جس کے نتیجے میں برتری کا معیار اِنسان کی دولت مندی کی بجائے اُس کی ذاتی خوبیاں قرار پا جائیں اور دولت مندی کی ملکیتی حیثیت تو بے شک قائم رہے لیکن اِس کا اظہار اور اِس کی نمائش معاشرے میں ایک گھٹیا اور رذیل حرکت تصور ہونے لگے۔ یہاں وہ جینیئس بے بس ہو جاتا ہے حالانکہ یہ بالکل سیدھا معاملہ ہے، ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ کسی ترکیب سے معاشرے میں دولت مند اور غریب آدمی کا معیارِ زندگی اِس طرح یکساں بنا دیں جس میں کمیونزم کی طرح کسی پر کوئی زبردستی نہ کی جا رہی ہو۔

یہ کام کس طرح ممکن ہے؟ اِس سوال کے جواب سے پہلے اس منظر نامہ کا جائزہ لینا مناسب ہو گا کہ حکومتیں اِس اِجتماعی و اِنفرادی ضرورت کی سیرابی کے مثبت راستے بند کر کے عوام کو اپنے مفاد پرستانہ مقاصد کے لیے کیسے اِستعمال کرتی ہیں؟ ***