جب کہیں کوئی غیر مخلص مفاد پرست شخص برسر اقتدار آتا ہے تو اُس کی ہوسِ اُسے عوام سے اُن کی محنتوں کا ثمر چھیننے پر اُکساتی ہے اور اُس کی سوچ کا رُخ بالکل ویسا ہی ہو جاتا ہے جیسا بیگار کیمپ کے مالک کا ہوتا ہے۔ تب اُسے اپنے مفادات پورے کرنے کی غرض سے عوام پر مختلف ٹیکس اور پابندیاں وغیرہ عائد کرنے کے لیے ایک جواز درکار ہوتا ہے۔ یہ جواز مادرِ وطن کہلاتا ہے۔ عوام میں جو ذی شعور لوگ اِس جواز کو درست ماننے سے انکار کر سکتے ہوں ان کا دماغ ٹھکانے رکھنے کے لے وہ غنڈے بدمعاشوں کے گروہ ملازم رکھتا ہے۔ اِن گروہوں کو مسلح افواج کہا جاتا ہے۔ افواج کا اصل مقصد تشکیل یہی ہے جبکہ دفاعی ضرورت محض ایک ڈھکوسلا ہے کیونکہ درحقیقت دنیا میں کوئی سے بھی دو ممالک کے درمیان ایسا تنازعہ نہیں ہے جسے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کے بعد بھی حل نہ کیا جا سکے۔

اِس کے باوجود یہ احتمال موجود رہتا ہے کہ عوام کسی مرکز پر متحد ہو کر اِنقلاب برپا کر سکتے ہیں چنانچہ اِس احتمال سے بچاؤ کے لیے خبیث اہل اقتدار دو طرح کے ہتھکنڈے اِستعمال کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی پالیسی وضع کرتے ہیں اور لوگوں کے درمیان باہمی منافرت اور عدم اِتفاق کی فضا قائم رکھتے ہیں چنانچہ اِس مقصد کے لیے خود پس پردہ رہ کر عوام میں مذہب و مسلک، زبان اور نسل وغیرہ کی بنیاد پر تعصبات کو فروغ دلواتے ہیں۔۔۔ اور دوسرا ہتھکنڈہ یہ کہ عوام کے ذہنوں کو گمراہ رکھا جائے اور وہ وطن کے بت اور اِس کے نام پر بنائے جانے والے مفاد پرستانہ آئین کی بجائے زیادہ آبادی، خشک سالی یا عالمی معیشت، کرنسی کے اتار چڑھاؤ جیسی بے سروپا باتوں کو اپنی بدحالی کا ذمہ دار سمجھتے رہیں، اِس مقصد کے لیے یہ خبیث اہل اقتدار گمراہ کن تعلیمی نصاب مرتب کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے بھی عوام کے ذہنوں میں وطن پرستی کے وہ نظریات انجکٹ کرتے ہیں جن کے نتیجے میں عوام کی آنکھوں پر پڑا ہوا پردہ مزید موٹا ہو جاتا ہے جبکہ دوسری طرف سچے اور مخلص افراد کے لیے ذرائع ابلاغ تک رسائی مشکل سے مشکل تر کر دیتے ہیں۔

بیگار کیمپ کی افزائش کا یہ تمام عمل مادرِ وطن، حب الوطنی اور دیگر ایسے عنوانات کے تحت ہوتا ہے جنہیں میڈیا اور تعلیمی نصابوں کے ذریعے معاشرے میں قابل عزت بنا دیا جاتا ہے۔ اِسی چیز کو اِلہامی مذاہب میں "بُت" قرار دیا گیا ہے۔ وطن پرستی کی تبلیغ میں فعال کردار ادا کرنے والے مختلف افراد کو تمغے اور اعزازات سے نوازنے کا عمل بھی اِسی بُت کے اِستحکام کا راستہ ہے۔ قومی ترانے اور پرچم کے احترام میں خاموش اور با ادب کھڑے ہونا اِسی بُت کی پرستش کا ایک انداز ہے۔ اِسی طرح عوام میں اِس بُت کی پرستش کو راسخ کرنے کے لیے نصابِ تعلیم میں پہلی جماعت سے ہی ذہنوں کو ہموار کرنے کا کام شروع ہو جاتا ہے چنانچہ پختگی کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اِن بچوں کی ذہنیت ایسی بن جاتی ہے کہ اِنہیں وطن کے نام پر کٹ مرنا نہ تو غیر فطری اور احمقانہ فعل دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اِس میں اِنہیں اپنے خالق سے سرکشی اور بغاوت کی بو محسوس ہوتی ہے۔

آج پوری دنیا میں ایک ہی مفاد پرست ٹولہ قارون کی صورت اِختیار کر چکا ہے اور مختلف ممالک کے سربراہان مملکت درحقیقت اُس ٹولے کے ہاتھوں کی خواہی نخواہی کٹھ پتلیاں ہیں۔ یہ ٹولہ وہی لوگ ہیں جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، عالمی بنیادی کرنسی یعنی امریکی ڈالر جاری کرنے والے ادارے فیڈرل ریزرو بینک آف امریکہ، کالے دھن کے اکلوتے محافظ سوئس بینکوں اور یورو ڈالر کے سرپرست ادارے کے مالکان اور ڈائریکٹرز ہیں۔ انہوں نے اِس طرح کے چارٹر ترتیب دے رکھے ہیں کہ اُن کے سوا کوئی دوسرا اِن اداروں کا ڈائریکٹر بن ہی نہیں سکتا۔ یہ لوگ جو اِسرائیل کے اصلی گاڈ فادر ہیں، ساری دنیا کے سربراہان مملکت کو چند مخصوص لابیوں کے ذریعے جن میں سے ایک کا نام فری میسن بتایا جاتا ہے، اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں، اِنہیں معزول کراتے اور برسراقتدار لاتے ہیں اور اگر کسی ملک کا سربراہ اُن کی مخالفت اور کھلم کھلا حکم عدولی پر اتر آئے تو اُسے ایسی سزا دیتے ہیں جس سے باقی ممالک کے سربراہوں کو آئندہ کبھی ایسی مخالفت کی جرات نہ ہو۔ اِس تناظر میں دیکھنے پر صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ امریکی صدور ابراہام لنکن اور کینیڈی، پاکستانی سربراہان بھٹو، جنرل ضیاء الحق مرحوم، سعودی عرب کے شاہ فیصل کی ہلاکت اور سوئیس بینکوں کے مقابلے میں بنائے گئے بینک بی سی سی آئی (بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل) کی تباہی اِسی کی روشن مثالیں ہیں۔ ابراہام لنکن کا جرم یہ دکھائی دیتا ہے کہ اُس نے امریکی ڈالر کو پرائیویٹ ادارے فیڈرل ریزرو بینک کی بجائے براہِ راست امریکی حکومت کے اِختیار میں دینے کا عندیہ دے دیا تھا۔ صدر کینیڈی کی بغاوت زیادہ شدید تھی، بتایا جاتا ہے کہ اُس نے ریزرو بینک کے مقابلے میں خود امریکی حکومت کی طرف سے ڈالر جاری کرنے شروع کر دیئے تھے چنانچہ اُسے زیادہ بھیانک سزا دی گئی اور اُس کے سارے خاندان کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ آخری فرد اُس کا بیٹا کینیڈی جونیئر تھا جس نے بچپن میں اپنے مقتول باپ کی میت کو ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ الوداعی سیلوٹ کیمرے میں ریکارڈ کرایا تھا۔ اُسے بیسویں صدی کے آخری برس میں مبینہ طور پر ایک ہوائی حادثے کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا گیا تاکہ باقی سربراہوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ قارون کے خلاف ایسی شدید بغاوت کی سزا یہ ہے کہ نہ صرف اُن کو بلکہ اُن کی نسل کو بھی مٹا دیا جائے گا، چنانچہ اُن کے دماغ ٹھکانے رہیں اور وہ "فرعونیت" پر قانع رہیں، "قارونیت" پر بھی قبضہ کرنے کی جسارت نہ کریں۔ بھٹو اور شاہ فیصل کی غیر فطری ہلاکت بھی اِسی حوالے سے معنی خیز ہے کہ انہوں نے لاہور کی اِسلامی سربراہی کانفرنس میں آئی ایم ایف کے متوازی ایک اِسلامی بینک یعنی "قارون" بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے افغانستان کو پاکستان میں شامل کرنے اور اُس کے بعد پاکستان کو اِسلام کا اقتصادی قلعہ یعنی "اسلامی قارون" بنانے کا عندیہ اور اِس مقصد کیلئے اِسرائیل کی مخالفت میں عالم اِسلام کو اکسانا اُن گاڈ فادرز کیلئے ناقابل برداشت ہو چکا ہو گا۔ روس کی توڑ پھوڑ بظاہر اِس لیے بھی ضروری ہو گئی تھی کہ بحیرۂ کیسپین کے مشرق میں بھی تیل کا ایک مزید بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہو چکا تھا چنانچہ اُس کو ہتھیانے کیلئے اُنہیں بینک کو سود ادا کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اِستعمال کرنا تھا اور ان کمپنیوں کی اُس روسی سوشلسٹ معاشرے میں گنجائش نہیں پیدا ہو سکتی تھی۔ بی سی سی آئی نے آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر سوئس بینکوں کے مقابلے میں کالے دھن کا ایک نیا پول بننے کیلئے پیش رفت شروع کر دی تھی۔

یہ تفصیلات اور دنیا بھر میں بکھری ہوئی ایسی مثالوں کا ذکر بے پناہ طوالت کا متقاضی ہے اور ویسے بھی چونکہ ہمارے موضوع کا براہ راست حصہ نہیں لہٰذا ہم صرف اِس نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے کہ عالمی سطح پر وطن پرستی کا محافظ یہی ٹولہ ہے۔ اقوام متحدہ اور اُس کے ذیلی ادارے، نوبل پرائز اور دیگر عالمی اعزازات، سپورٹس مقابلے، قومی سطح کے میلے اور جشن، قومی ہیرو اور اُن کے نام پر منائے جانے والے دن پوری اِنسانیت کی سطح پر اِسی مذہبِ وطنیت کو نفسیاتی اِستحکام دینے کے وہ انتظامات ہیں جن کا پس پردہ مقصد یہی ہے کہ اُن علاقوں کو چھوڑ کر جہاں اِس ٹولے کے افراد اور اِن کی برادری قبیم کو خود رہنا ہے اور اپنی جان مال کو محفوظ رکھنا ہے، اُن علاقوں کو چھوڑ کر باقی دنیا میں ہر ملک کے مقامی حکمرانوں کے ذریعے قانون کے نام پر عوامی مال و متاع کی لوٹ کھسوٹ اِس طرح کی جائے کہ اِس میں مذہبی قوتیں بھی مزاحم نہ ہو سکیں اور پھر اِس لوٹ کے مال سے دونوں پارٹیاں یعنی ملکی مقامی حکمران اور مرکزی عالمی ٹولہ مل کر انجوائے کریں اور اِس عمل میں چرچ اور دیگر مذہبی پیشوائیت کو شامل نہ کرنا پڑے۔ اِسی مقصد کیلئے قانون سازی کی بنیاد مذہب کی بجائے وطنیت پر رکھی گئی، البتہ جن علاقوں میں اِس ٹولے کو خود رہنا ہے مثلاً سکینڈے نیویا کے ممالک اور لیشٹن سٹائنLeichtenstein وغیرہ، وہاں اور اُن کے گرد و نواح میں یہ لوگ وطنیت کا تصور زندہ رکھنے کے باوجود مہلک قوانین نافذ نہیں ہونے دیتے اور یوں لوٹ کھسوٹ نہیں مچنے دیتے تاکہ تیسری دنیا کا ذی شعور ذہن بھی اصل زہر پکڑ نہ پائے اور یہ سمجھتا رہے کہ اگر وطنیت کا تصور غلط ہوتا تو دنیا کے ہر ملک کے عوام پریشان حال ہوتے۔

اُن علاقوں میں جہاں کا موسم خوشگوار ہے، وہ ٹولہ خود رہتا ہے اور اپنی جان مال کو محفوظ رکھنے کیلئے صحت مندانہ قوانین نافذ کراتا ہے تاکہ اُن کے معاشرے اور گرد و نواح میں جرائم اور کرپشن نہ پھیلے، اُن علاقوں کو ہم ترقی یافتہ ممالک یا فلاحی مملکتیں کہتے ہیں۔

ذرا گہرائی میں غور کریں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ وطنیت کے اِس تصور کی حیثیت ایک ایسے متبادل مذہب کی سی بنا دی گئی ہے جس میں عوام سے اپنی پرستش کرانے یعنی وطن کی محبت کے نام پر ظالمانہ قوانین نافذ کرنے کیلئے فرعون کو مذہبی پیشوائیت کی تائید درکار نہیں ہوتی حالانکہ بنیادی تصور اِس مذہب وطنیت کا بھی بالکل وہی ہے جو یہودیت یا ہندو ازم کا ہے۔ وہاں مذہب پر ایک نسل کی اجارہ داری ہے اور اِسی بنیاد پر وہ خود کو ایک قوم کہتے رہے ہیں یعنی کسی فرد کی قومیت کا انحصار اِس امر پر ہے کہ اُس کے والدین کی قومیت کیا ہے۔ اب اگر کوئی دوسرا شخص جو ان کی نسل سے نہ ہو، ان میں شامل ہونا چاہے تو اُس کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا۔ بالکل یہی بات وطنیت کے تصور کی بنیاد ہے یعنی ہر فرد کی قومیت کا لیبل خواہ وہ اُس کے والدین کی قومیت کی بنیاد پر ہو یا اُس کی جائے پیدائش کی بنیاد پر، اُس کی پیدائش کے وقت سے ہی اُس پر تقریباً ہمیشہ کیلئے لگ جاتا ہے اور پھر وہ اِسی کو قبول یا برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہے یعنی اگر اُسے برداشت کرنا پڑ رہا ہوتا ہے تو وہ اُسے جب چاہے بدل نہیں سکتا اور اپنی مرضی کی قومیت اِختیار نہیں کر سکتا لہٰذا اِسی پیدائشی قومیت کو اپنے لیے ذہنی طور پر قبولیت کے درجے تک پہنچانے کیلئے وہ ہر سطح پر اپنی سی کر گزرتا ہے اور اُس وقت اُس کی نظر میں دوسری اقوام کے افراد کیلئے کسی قسم کا جذبۂ اُنس و اپنائیت نہیں رہتا چنانچہ اِن افراد کے خلاف جنگوں اور اِس سے بھی بڑھ کر بہیمانہ اقدامات اٹھاتے وقت اُس کا ضمیر مزاحم ہی نہیں ہوتا اور یوں اُس کو حیوان بنتے دیر نہیں لگتی۔

ماضی قریب کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس عالمی منصوبہ بندی کی اِبتدا اُنیسویں صدی کے آخر میں ہوئی تھی اور اِسے عالمی صیہونی سازش Zionist Conspiracy (Protocols of the Learned Zion Elders) کا نام دیا گیا تھا۔ اِس سازش کا لب لباب یہ بتایا جاتا ہے کہ صیہونیوں کی نظر میں خود اُن کے سوا باقی تمام اِنسانیت جانوروں حیوانوں کی مانند ہے اور وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ حیوان اُنہی کی غلامی کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ صیہون کسی نظریاتی قوم کا نام نہیں بلکہ یہودیوں کی ایک بالائی نسل کا نام ہے اور مروجہ عیسائیت یا اِسلام کی طرح ہر اِنسان جب چاہے اُس نسل میں شامل نہیں ہو سکتا۔

اِس سازش کے ذریعے انہوں نے درحقیقت پوری اِنسانیت سے اپنی نسل کیلئے غلامی کرانے کا طریق کار وضع کیا تھا۔ وہ طریق کار یہ تھا کہ دنیا بھرکے معاشروں میں دولت کے زور پر آلہ کار پیدا کیے جائیں، پھر اِن آلہ کار افراد کو مالی سپورٹ دے کر اِن کے علاقوں میں اِنہیں حکمران بنوایا جائے اور تب اِن کے ذریعے اقوام کو مقروض کرنے کے علاوہ معاشروں میں ایسے قوانین نافذ کرائے جائیں جن کے نتیجے میں معاشروں میں ہوسِ زر فروغ پائے تاکہ اِقتدار کا حصول بھی دولت کا محتاج رہے چنانچہ پہلے اربابِ اقتدار اور پھر اِن کے ذریعے پوری اِنسانیت اُن یہود کی دست نگر ہو جائے۔ (جمہوریت کے حق میں جو عالمی ذرائع ابلاغ پر اِس قدر غوغا مچایا جاتا ہے اِس کا پس پردہ محرک بھی یہی ہے کہ ایسے معاشروں میں جہاں عوام کو سستا اور فوری انصاف میسر نہ ہو اور جان و مال عزت و آبرو کے تحفظ کی گارنٹی نہ ملے وہاں جمہوری نظام میں چند سال کیلئے اقتدار حاصل کرنے کیلئے بھی کافی دولت درکار ہوتی ہے۔ مارشل لاء اور آمریت کی مخالفت اِسی لیے کی جاتی ہے کہ دولت اِستعمال کیے بغیر اقتدار غیر معینہ مدت تک کیلئے حاصل کر لینے والے حکمرانوں کے عوام سے مخلص ہو جانے کا احتمال زیادہ قوی ہوتا ہے جبکہ جمہوری نظام میں دولت کے زور پر محدود مدت کیلئے برسراقتدار آنے والے حکام کو سب سے پہلے اپنی دولت کو واپس مع نفع حاصل کرنے کی فکر لگی ہوتی ہے۔)

سازش کا اگلا مرحلہ یہ تھا کہ اِنہی آلہ کار حکمرانوں کے ذریعے بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی، دفاع اور ترقیات وغیرہ کیلئے ٹیکس کے نام پر عوام سے اُن کی محنتوں کا ثمر اُسی طرح حاصل کیا جاتا رہے جس طرح باربر داری کے جانوروں سے یا بیگار کیمپ کے قیدیوں سے حاصل کیا جاتا ہے یعنی ان سے خوب محنت کرائی جائے لیکن ان کی محنتوں کا ثمر اُن پر ٹیکس عائد کر کے اُن سے چھین لیا جائے اور اُن کے پاس صرف اسی قدر رہنے دیا جائے جس سے وہ مزید محنت کرتے رہنے کے قابل ہو سکیں۔دوسری طرف اِن آلہ کار حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کو تقویت دینے کیلئے اِن کے کالے دھن کو محفوظ کرنے کا اجارہ دارانہ انتظام بھی سوئس بینکوں کے نام سے موجود رکھا گیا تاکہ یہ حکمران اُن غیر ملکی قرضوں کو جو اُنہیں اُن کے وطن کی ضرورت کے نام پر دیئے جائیں، اُن قرضوں کو اور ملک سے لوٹی ہوئی دیگر دولت کو ہڑپ کر کے کالے دھن کی صورت میں محفوظ کرنے کیلئے اُسی ٹولے کے سوئس بینکوں میں اپنا اکاؤنٹ کھولیں اور یوں یہود کی اصل رقم بھی ہر پھر کے مع سود واپس اُنہی کی جیب میں پہنچ جائے۔

بتایا جاتا ہے کہ یہ سازشی منصوبہ جب تقریباً سو سال قبل طشت از بام ہوا تو پہلی جنگ عظیم کا محرک بنا، پھر ہٹلر بھی یہود کے خلاف اِسی کا انتقامی رد عمل بن کر ابھرا اور اُس نے یہودی نسل کو دنیا سے ہی ختم کر دینے کا اعلان کیا لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک المیہ ہے کہ اُس وقت بھی اور اُس کے بعد بھی اِنسانیت اِس سازش کے طریق واردات کو سمجھ ہی نہ سکی چنانچہ آج یہ سازش پوری طرح فعال ہو چکی ہے اور عالمی بینکاروں اور دیگر مالیاتی اداروں کے مالکان پر مشتمل یہ حکمران ٹولہ اُنہی صف اول کے صیہونیوں (یہودیوں ) پر مشتمل ہے جن کے آباؤ اجداد نے اِس سازش کا تانا بانا بُنا تھا۔

اس سازش کا ڈھانچہ نظام بینکاری پر اُستوار ہے۔ اقتصادیات کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ بینکاری کا یہ نظام دنیا بھر میں ایک ہی مقام پر پول Pool ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے آخری برسوں میں نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے لوٹ کھسوٹ کا جو نیا طریقہ اِختیار کیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ اُس ٹولے کو یعنی بینک کو سود ادا کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کاروباری اجارہ داری ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور مقامی آلہ کار حکمرانوں کے ذریعے قائم اور محفوظ کی جائے گی تاکہ عوام انہی کمپنیوں کی مہنگی مصنوعات اِستعمال کرنے پر مجبور ہوں اور زیادہ سے زیادہ سود بینکوں کے ذریعے اُس ٹولے کو پہنچے، یہ طریقہ بھی گلوبلائزیشن کے نام سے اِسی سازش کا ضمیمہ ہے۔

ٹیکس چونکہ افراد کی محنتوں کا ثمر چھیننے کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کو ظلم قرار دینے کیلئے کسی خاص بصیرت اور عمیق نگہی کی ضرورت نہیں ہوتی چنانچہ اِس کے نتیجے میں عوامی اِنقلاب کا احتمال موجود رہتا ہے۔ اِس کے علاوہ اِس طریقے سے ایک بڑا طبقہ جو عوام سے یہ ٹیکس یا بیگار چھینتا ہے یعنی جس کے افراد برسراقتدار لائے جاتے ہیں، وہ طبقہ بھی بہرحال ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جاتا ہے جو خود کوئی محنت نہیں کرتے اور دوسروں کی محنت پر عیاشیاں کرتے ہیں۔ اِس سے مزید عوامی اشتعال وجود میں آتا ہے۔ اب چونکہ یہ لوگ خود اپنی محنت کی کمائی پر قانع نہیں ہوتے لہٰذا نہ صرف یہ کہ عالمی قارون کو کچھ دینا نہیں چاہتے بلکہ الٹا یہ قارون کی جگہ بھی ہتھیا لینے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے قارون کو بھاری خرچ پر ان میں سے ایسے باغی حکمرانوں کی سرکوبی بھی کرنا پڑتی ہے۔ ڈبلیو ٹی او اور گلوبلائزیشن کا تصور ایسے ہی ہر احتمال کیلئے قارونی پیش بندی ہے چنانچہ اب منصوبہ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ممالک کی اقتصادی شہ رگ دسترس میں رکھنے کیلئے گلوبلائزیشن کے نام پر یورو کی طرح ایسی کرنسیوں کو رواج دینے کی کوشش کی جائے گی جن پر کسی ایک ملک کی چھاپ نہیں ہو گی اور یہ کرنسیاں عالمی مالیاتی اداروں کے یعنی خود ان کے کنٹرول میں ہوں گی جس کے نتیجے میں ممالک کی مقامی حکومتوں کا قومی اقتصادی پالیسی پر اختیار بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا اور اسی ضمن میں تابوت کے آخری کیل کا کام ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کرے گی۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سودی قرض دیئے جائیں گے، یہی کمپنیاں مختلف ممالک میں ترقیاتی کاموں کو بھی کمرشل بنیادوں پر انجام دیں گی اور اپنی مہنگی مصنوعات بھی فروخت کریں گی اور سروسز Services بھی فراہم کریں گی۔ اِس کے نتیجے میں بینک کو براہ راست سود پہنچنے لگے گا اور یوں انہیں عوام کی محنت کا ثمر حاصل کرنے کیلئے مقامی حکومتوں یعنی فرعون کی احتیاج نہیں رہے گی جبکہ خود مترفین کا طبقہ بھی جو اِن مصنوعات کا سب سے بڑا گاہک ہو گا، ان مصنوعات کی قیمت کی شکل میں اپنے حصے کا سود قارون کو ادا کرے گا، دوسری طرف ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ دارانہ مارکیٹنگ قائم کرنے کیلئے ان کے مقابلے میں کسی ایسی کمپنی کو سر اٹھانے نہیں دیا جائے گا جو ان عالمی مہاجنوں کی مقروض نہ ہو چنانچہ دنیا بھر میں پرائیویٹائزیشن کا عمل اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہی مثال ترقیاتی کاموں کی ہے۔ عام آدمی کیلئے جو اقتصادیات کی گہرائیوں میں نہیں اترتا، اِس عمل کو سمجھنے کی ایک عمدہ مثال موٹر وے ہے جو پرائیویٹ سیکٹر میں بنائی جاتی ہے اور جہاں ہر پرائیویٹ گاڑی گزرنے کیلئے ٹکٹ کی قیمت ادا کرتی ہے خواہ وہ پرائیویٹ گاڑی کسی وزیر کی ہی کیوں نہ ہو۔ اِس قیمت میں بینک کا سود بھی شامل ہوتا ہے۔

اب قارون کا ہدف یہی ہو سکتا ہے کہ اُن ممالک میں جہاں وہ خود رہتا ہے اور جنہیں ہم فلاحی ممالک کہتے ہیں، اُن ممالک کے غیر یہودی باشندوں کو بھی غلام بنائے اور اِس کیلئے لازم ہے کہ یہودی ساری دنیا سے ہجرت کر کے اپنا ایک الگ اور بہت بڑا ملک بنا لیں تاکہ دیگر معاشروں میں مفاد پرستانہ قوانین نافذ کروا کر باقی اِنسانیت سے بھی اُس کی محنتوں کا پھل چھینا جا سکے۔اِس مقصد کیلئے دنیا کا سب سے زرخیز اور پورے سال کے دوران سب سے خوشگوار موسم کا حامل علاقہ یعنی فلسطین اور اُس کے وسیع و عریض ملحقہ علاقے اور ممالک کو انہوں نے اپنا بہت بڑا ملک گریٹر اِسرائیل Greater Israel بنانے کیلئے منتخب کر لیا ہے اور اس کیلئے مذہبی بنیادوں پر عیسائیوں کو اکسانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔

اب اِس منصوبے کی انتہا یہ محسوس ہوتی ہے کہ جس طرح وطنیت کو مذہب کی حیثیت دے کر ہامان یعنی مذہبی پیشوائیت کو معاشرے میں تقریباً بے حیثیت کیا گیا ہے اِسی طرح اب فرعون کی خود مختاری بھی معدوم کی جائے تاکہ معدنی ذخائر مثلاً تیل گیس وغیرہ پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے قبضہ کرنے کی راہ میں بھی یہ فرعون یعنی حکام مزاحم نہ ہو سکیں۔ اِس کا آسان طریقہ ہم دیکھ آئے ہیں کہ ساری دنیا پر مشترکہ کرنسیوں کے چلن کے ذریعے ایک ایسی اقتصادی سپریم پاور یا مالیاتی اتھارٹی مسلط کر دی جائے جو کسی فرعون یعنی کسی ایک ملک کے حاکم کے ماتحت نہ ہو بلکہ مشترکہ بنیادوں پر ایستادہ ہونے کی وجہ سے براہِ راست آئی ایم ایف وغیرہ، غرض عالمی قارون، عالمی مالیاتی اداروں کے ماتحت ہو کیونکہ ان اداروں کے مالکان وہ خود ہیں، جبکہ دوسری طرف سارے فرعون اُس سپریم پاور کے چارٹر کی رُو سے اس مشترکہ کرنسی کے ذریعے اپنے ملکی مالیاتی امور میں اُس اتھارٹی کے بالواسطہ طور پر ماتحت اور آلہ کار بن جائیں، شاید اسی کو گلوبلائزیشن اور نیو ورلڈ آرڈر جیسی اصطلاحات سے معنون کیا گیا ہے۔ ایک صدی پہلے سامنے لائے گئے صیہونی منصوبے میں اُس اقتصادی قوت کے مرکز کیلئے یورپ کا تعین موجود ہے چنانچہ یورپ کی مشترکہ کرنسی اور یورپی یونین کا قیام اِسی ہدف کی طرف پہلا قدم کہلا سکتا ہے تاہم یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ منصوبے کے اگلے مراحل مثلاً کسی مشترکہ کرنسی جیسے یوروکو امریکی ڈالر سے بہتر کرنسی کے طور پر مستحکم کرنا اور پھر عالمی سطح پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کی تجارت اور درآمد و بر آمد کے حسب منشا قوانین نافذ کرنے کیلئے ڈبلیو ٹی او وغیرہ کے ذریعے زمین ہموار کرنا،نیل سے فرات تک کے درمیانی علاقے میں وسیع تر گریٹر اِسرائیل کا قیام اور پھر اُس اِسرائیل کی مخالف اُس کی پڑوسی عرب اقوام کو ایک بڑی جنگ کے ذریعے عیسائی دنیا کے ہاتھوں نیست و نابود کرانا تاکہ وسیع و عریض اسرائیل کے گرد و نواح میں بھی اُن کے پسندیدہ قوانین نافذ ہو سکیں۔۔۔ اور پھر دنیا کے سب سے امیر سب سے ترقی یافتہ اور سب سے طاقتور ہتھیاروں کے حامل اُس ملک اسرائیل میں امریکہ سمیت دنیا بھر سے یہودیوں کی آبادکاری کے ساتھ ساتھ عالمی کرنسی یا ایک سے زیادہ ایسی مشترکہ کرنسیوں کا اجرا جن پر کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کا اختیار ہو، یہ سب مراحل آناً فاناً ممکن نہیں، بلکہ شاید اِس کیلئے ایک پوری نسل کا فاصلہ انہیں طے کرنا پڑ سکتا ہے تاہم یہ بات محل نظر ہے کہ گمنام دہشت گردی کے واقعات ایک تواتر کے ساتھ نہ صرف جاری بلکہ روز افزوں بھی ہیں اور جن کے ذمہ دار کچھ ایسے پر اِسرار لوگ بتائے جاتے ہیں جنہیں عربی النسل مسلمان قرار دیا جا رہا ہے، چنانچہ اِس تمام شور و غل میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے جسے میڈیا پراپیگنڈے کے زور پر اِسرائیل مخالف عربوں اور عیسائیوں کے درمیان مسلح تصادم کی صورت میں منتج کیا جا سکتا ہے اوریوں عالمی سپریم گورنمنٹ کی داغ بیل رکھی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت اہل نظر سے پوشیدہ نہیں کہ عالمی میڈیا خود انہی کی ملکیت ہے۔

یہ تمام عمل اُسی وقت مکمل ہو سکتا ہے جب اِس کے تحفظ کیلئے یعنی عام آدمی کو غلام بنانے کیلئے قانون سازی کے وقت وطن پرستی کی جڑیں عوام میں گہری ہو چکی ہوں چنانچہ اِس بات کی ممکنہ مخالفت کا سد باب کرنا بھی ان کیلئے ضروری تھا۔ یہ مخالفت صرف مذہبی حلقوں سے ہی ممکن تھی لہٰذا اِس کیلئے ایک طرف سیکولرازم کی آڑ ڈھونڈی گئی اور اِنسان کو یہ باور کرانے کا پراپیگنڈا ہوتا رہا کہ مذہب محض اندھے عقیدے Dogma کا نام ہے اور اِس کا مادرِ وطن کی بقاء اور اِستحکام کے نام پر بننے والے آئین اور قانون سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ مذہب ہر شخص کا ذاتی اور اِنفرادی معاملہ ہے۔۔۔۔۔ اور دوسری طرف زر پروردہ مذہبی پیشوائیت پروان چڑھائی گئی جس کا کام یہ تھا کہ فرقہ وارانہ تعصبات پیدا کر کے عوام کو باہم الجھائے رکھے اور انہیں فساد کی اصل جڑ کی جانب متوجہ نہ ہونے دے۔

آسمانی مذاہب میں ان دونوں کرداروں کی یعنی اُس عالمی ٹولہ اور اُس کے زر پروردہ آلہ کار حکمرانوں کی نشاندہی قارون اور فرعون کے نام سے موجود ہے۔ قارون معاشرے میں فرعون کی نشوونما کرتا ہے یعنی اسے برسر اقتدار آنے کیلئے مالی سہارا فراہم کرتا ہے اور پھر اِس فرعون کے ذریعے مادر وطن کے نام پر ایسے قوانین نافذ کراتا ہے جن سے اقتدار کا حصول دولت مندی کا محتاج ہو جائے اور یوں ہوسِ زر شدت کے ساتھ فزوں تر ہو جائے۔ اِس سے طبقاتی اِمتیاز جنم لیتا ہے اور پھر اقتصادی عدم تحفظ کے باعث سود خود بخود ایک ضرورت بن جاتا ہے جس سے قارون کے خزانوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اِن دونوں یعنی قارون اور فرعون کا معاون کردار جو عوام کی توجہ ہٹائے رکھنے کیلئے یا اُنہیں گمراہ یا باہم دست و گریباں رکھنے کے ہتھکنڈے اِستعمال کرتا ہے، ہامان کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہ تینوں کردار اِنسانی معاشرے میں ہمیشہ سے رہے ہیں، آج صرف یہ فرق پڑا ہے کہ یہ عالمی جسامت اِختیار کر گئے ہیں۔ قارون کی جگہ پر آئی ایم ایف ورلڈ بینک کے کرتا دھرتا یہود، فرعون کی جگہ پر اِستبدادی آئین کی محافظ حکومتوں اور ہامان کی جگہ پر تفرقہ پرست مذہبی پیشوائیت، لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دے کر چندہ وصول کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کو رکھ کر دیکھئے، آپ کو آسمانی مذاہب کی تعلیمات سمجھ میں آنے لگیں گی۔

مختصر یہ کہ وطن پرستی وہ زہر ہے جو نفسیاتی طور پر ہر ظلم، ہر اِستحصال کے خلاف عوامی مدافعت کی کمر توڑ دیتا ہے اور مہنگائی، غربت اور کسمپرسی کے ہاتھوں خودکشی پر آمادہ ہو جانے کے بعد بھی سسکنے والے کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر حکومت کا مادرِ وطن کے نام پر اُس کے بچوں کے منہ کا نوالہ چھین لینا درست ہے تو پھر غلط کیا ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ آخر اِس زہر کا تریاق کیا ہے؟ اگر ہم یہ توقع کریں کہ کوئی نہ کوئی فرعون ہی معجزانہ طور پر نیک نیت ہو جائے اور ملک کو ٹیکس فری اسٹیٹ قرار دے دے، ہوسِ زر کو تقویت دینے والے قوانین منسوخ کر دے، رزق کے وسائل یعنی آزادانہ درآمد و برآمد، کھلی منڈی کی تجارت صنعت و زراعت وغیرہ سب کیلئے کھول دے۔۔۔ تو یہ اِس لیے آسان نہیں ہے کہ قارون اُس بسیار پشیماں فرعون کا دشمن ہو جائے گا اور اُس کا عبرت ناک حشر کرنا چاہے گا۔۔۔ عوام کو اِنقلاب پر مائل کرنے کا راستہ ہامان نے مسدود کر رکھا ہے۔ اگر عوام میں سے کوئی سر سے کفن باندھ بھی لے تو بھی نقار خانے میں اُس توتی کی آواز کوئی نہیں سنے گا اور اگر کوئی بلند آواز والا اٹھ کھڑا ہوا تو اُس کا گلا گھونٹ دینا قارون اور فرعون کے لیے چنداں دشوار نہیں، لہٰذا یہاں ایک ہی ابتدائی صورت ممکن ہے کہ ایک ایسے پرکشش اصلاح بخش لیکن اضافی قانون کا نفاذ ہو جائے جس کی موجودگی میں خباثت بھرے یعنی ہوسِ زر کو فروغ دینے والے مروج قارونی قوانین موجود ہونے کے باوجود اِس طرح بے حیثیت ہو جائیں جس طرح ٹھنڈے میٹھے فرحت انگیز پاکیزہ مشروب کی وافر موجودگی میں غلیظ اور آلودہ پینے کا پانی ناقابل توجہ ہو جاتا ہے۔ تب پھر چونکہ افراد ان خبیث قوانین کے مطابق اپنی زندگی کی ترتیب اِختیار نہیں کریں گے لہٰذا ہوسِ زر ختم ہو جائے گی، مذموم مفادات پورے کر لینا ممکن ہی نہ رہے گا اور یوں تمام تر بدنیتی کے باوجود وہ مفاد پرست عناصر عوام کا اِستحصال کر ہی نہ سکیں گے یہاں تک کہ خبیث قوانین کا وجود ہی معدوم ہو جائے گا۔

آئیے اِس پر کشش اِصلاح بخش قانون کی طرف قدم بڑھائیں۔