معاشرے میں عزت اور برتر مقام حاصل کرنا اِنسان کی ضرورت ہے۔ قارون صرف یہ کرتا ہے کہ فرعون کے ذریعے ایسے قوانین نافذ کراتا ہے جن سے یہ ضرورت پوری کرنے کا راستہ صرف دولت رہ جائے۔ عائلی قوانین میں ہر صوابدیدی قدغن، صنعت و تجارت اور آزادانہ درآمد و برآمد پر ہر پابندی، لیبر ایکٹ اور ٹیکس، ڈیوٹی، لائسنس، سرچارج وغیرہ اِسی ضمن میں آتے ہیں۔ اب چونکہ اُس نے عالمی مالیاتی سسٹم ایسا اجارہ دارانہ بنایا ہوا ہے کہ دولت کا بہاؤ از خود اسی کی جانب رہتا ہے اور دولت کے تمام ذخائر خواہ وہ کالا دَھن ہو یا ممالک کے قومی ریزرو اثاثے، سب اسی کے پاس ہی اکٹھے ہو سکتے ہیں لہٰذا پوری اِنسانیت اُس کی بالواسطہ طور پر محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ اِسی احتیاج کے باعث تیسری دنیا کے ممالک میں عوام اپنی محنتوں کا ثمر اُسے پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں ایسے قانون کی آزادی حاصل ہو جائے جس کے نتیجے میں عزت اور برتر سماجی مقام حاصل کرنے کا راستہ دولت نہ رہے اور برتری کا معیار وہ بن جائے جو کسی سے خریدا یا چھینا نہیں جا سکتا اور جس کی کوئی حد نہیں ہوتی یعنی اِخلاق و اطوار، رویہ و سلوک اور سادگی اور سچائی وغیرہ۔۔۔ تو دولت کا بہاؤ قارون کی جانب ہونے کے باوجود کسی کو دولت مندی کی احتیاج بلکہ پروا ہی نہ رہے۔ تب وہ معاشرہ نہ صرف قارون اور فرعون کے چنگل سے نکل جائے گا بلکہ دنوں ہفتوں میں دنیا کے خوشحال ترین معاشرے کا درجہ حاصل کر لے گا۔

یہ قانون کون سا ہے؟ اِس تحریر کا بنیادی موضوع یہی ہے، لیکن اُس کی جستجو سے پہلے لازم ہے کہ جرم کے دوسرے محرک یعنی جسمانی تعلق کی ضرورت کو بھی مد نظر رکھا جائے۔

فرسٹریشن کے پیدا ہونے کی دوسری اور آخری وجہ جنس ہے۔ بہت سے سنگین جرائم جن کی بنیاد دولت نہیں ہوتی، بلاواسطہ یا بالواسطہ جنس سے متعلق ہوتے ہیں۔ بہت سی بیماریاں مثلاً ایڈز، جنس سے وابستہ ہیں۔ منشیات، بلکہ سگمنڈ فرائڈ کی رائے میں تو تمباکو نوشی تک کے پس منظر میں جنس کارفرما ہوتی ہے۔ یہی وہ ضرورت ہے جو معاشرے میں سنگین جرائم کے وقوع پذیر ہونے کا دوسرا بڑا سبب ہے۔

اب ہمارے لیے راہِ فکر بن گئی اور ہمارے سامنے وجوہاتِ جرم کا خاکہ ابھرنا شروع ہو گیا۔ اب ذرا سا کلوز اَپ میں جائیں گے تو اِس خاکے کے خط و خال اور وہ قانونی سقم صاف دکھائی دے جائیں گے جن کے ذریعے مفاد پرستوں نے معاشرے میں فساد برپا کر رکھا ہے۔