محرکاتِ جرائم کا حتمی تعین

ہر قسم کے جرائم کے گہرے تجزیئے کے بعد ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ معاشرے میں اِنفرادی اور اِجتماعی، ہر قسم کے جرائم کے محرک صرف دو عوامل ہیں، افضلیت کی خواہش اور جنس۔ اِنسان کی تمام فطری ضروریات میں سے صرف یہی دو ایسی ہیں جو اپنی خاطر خواہ تکمیل نہ مل سکنے کی وجہ سے دیگر ضروریات کی نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ دو ضروریات اِنسان کیلئے مسئلہ نہ رہیں تو جسمانی تحفظ کی ضرورت یعنی غذا، لباس، رہائش وغیرہ کو بھی خود بخود تکمیل کا آسان راستہ میسر آ جائے گا کیونکہ ہر کسی کو اِس ضمن میں قیمتی لباس، عالیشان رہائش، پُر تعیش سواری وغیرہ حاصل کرنا ذریعہ عزت ہونے کی بجائے باعث تحقیر دکھائی دے رہا ہو گا۔

ہم نے دنیا بھر میں ہونے والے ہر قسم کے جرائم کے محرکات صرف دو عوامل قرار دیئے ہیں یعنی برتری کی طلب اور جنس۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اِس سے متفق نہ ہوں اور خوف، اِنتقام، غیرت اور اِشتعال وغیرہ کو بھی جرم کا محرک سمجھتے ہوں۔ یہاں اُن سے مزید غور کرنے کی اِستدعا ہے تاکہ وہ محرک اور جرم کی اِبتدا کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔

دراصل اِنتقام، خوف اور اِشتعال وغیرہ کی نفسیاتی حیثیت جرم کے محرک کی نہیں بلکہ جرم کے تسلسل Continuity کی ہے۔۔۔ اور جرم کا پھیلاؤ یا اُس کے وقوع پذیر ہونے کا درمیانی عمل اِس وقت ہمارا موضوعِ بحث نہیں ہے بلکہ اِس وقت جرم کی اِبتدا کا نکتہ زیر نظر ہے۔ جب کوئی شخص انتقام، خوف، غیرت یا اشتعال کے زیر اثر کوئی جرم کرتا ہے تو وہ دراصل ماضی میں ہونے والے کسی جرم کو آگے بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ ماضی میں ہونے والے اُس پہلے جرم کے محرک کو دیکھیں کہ جس کی وجہ سے انتقام یا غیرت کا جذبہ پیدا ہوا تو وہ یقیناً انہی دو عوامل یعنی برتری کی ضرورت یا جنس میں سے ہی کوئی ہو گا۔

ہم جانتے ہیں کہ اِنسان کی ضروریات زندگی کو تکمیل کا راستہ فراہم کرنا معاشرتی قانونی نظام کی ذمہ داری ہے۔ جو نظام اِس ذمہ داری کو خاطر خواہ طور پر نبھا نہ سکے وہ یا تو غلط ہوتا ہے یا نامکمل، مکمل ترین نظام کی پہچان یہی ہے کہ اُس کی موجودگی میں تمام اِنسانی ضرورتوں کو تکمیل کے مثبت اور محفوظ راستے دستیاب ہوں یعنی برتری کی ضرورت سمیت دیگر ضروریاتِ زندگی کی خود کو فراہمی کیلئے اِنسان کو دولت کی احتیاج کے بغیر راستہ دستیاب ہو اور جنسی ضرورت کی آسودگی کیلئے اُسے مالی، ذہنی، جذباتی یا نفسیاتی دباؤ کا سامنا نہ ہو اور امراض یعنی انفیکشن اور ایڈز کا کوئی احتمال نہ ہو۔

دنیا بھر میں مروج کوئی بھی نظام معاشرت ان دو کسوٹیوں پر پورا نہیں اترتا۔

سوشلزم/کمیونزم میں سب سے بڑی حماقت یہ ہے کہ یہ نظام بنیادی طور پر اِنسان کی ہر قسم کی فرسٹریشن کو معاش تک محدود کر دیتا ہے اور نفسیاتی، جنسی اور اِس کے ضمن میں طبی ضرورت کے بارے میں کوئی قانونی لائحہ عمل طے نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں غربت کے بارے میں بھی جو جابرانہ لائحہ عمل اِس میں مرتب ہے وہ بذات خود نفسیاتی پہلو سے اِنسان کیلئے زہر قاتل ہے کیونکہ وہ غیر منقولہ ذاتی ملکیت کی ہی نفی کر دیتا ہے یا اُسے بہت محدود کرتا ہے اور یوں اِنسان کو لاشعوری طور پر دل و جان سے کی جانے والی پر خلوص اور حتی المقدور زیادہ سے زیادہ محنت سے روک دیتا ہے کیونکہ اُس کیلئے ایسی محنت کا کوئی جذبہ محرکہ نہیں ہوتا چنانچہ یہ نظام عوام کی طرف سے ایسی پر خلوص محنت کیلئے محض ان کے جذبہ ایثار و قربانی پر انحصار رکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ کسی بھی قانون کا بہت بڑا سقم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بقا کیلئے تمام عوام کے اِخلاق و ایثار کی بلندیوں پر فائز ہونے اور پھر ان کے فرشتہ سیرت بنے رہنے کا محتاج ہو۔

مسائل کو غربت تک محدود سمجھ لینا ہرگز دانشمندی نہیں ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمیں اپنے اِردگرد بہت سے ایسے افراد بھی فرسٹریشن کے شکار دکھائی دے رہے ہیں جن کو دولت کی کوئی کمی نہیں ہے۔

جمہوریت یا آمریت کے تصورات سرے سے ہی سماجی نظام کا درجہ نہیں رکھتے، یہ تو صرف نظریات ہیں اور ایک زمین کی طرح ہیں جس پر سماجی نظام کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ اِن کی مثال کھانے کے برتن کی سی ہے، اصل کھانے کی نہیں۔ اصل کھانے کی مثال وہ معاشرتی قوانین ہیں جو نظام کے اندر کسی نظریئے مثلاً سیکولرازم، تھیوکریسی یا مطلق العنان مقننہ یا بادشاہت وغیرہ کے عنوان سے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ اگر قوانین غیر فطری ہوں، اگر کھانے میں زہر ملا ہوا ہو تو برتن بدل لینے سے یعنی جمہوریت یا آمریت کے نظریات کی جگہ بدل لینے سے معاشرتی ابتری میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اِس جائزے سے ہم اپنے ٹارگٹ کا تعین کر سکتے ہیں کہ درحقیقت ہمیں معاشرتی نظام کا سقم کہاں ڈھونڈنا ہے۔

اِنسانی عقل کی مکمل ترین اور بے عیب نظام معاشرت کو ترتیب نہ دے سکنے کی ایک وجہ یک طرفہ کارروائی ہے۔ جب ہمارا کوئی جینیئس نظام ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہے تو مسائل کو صرف اُسی نظر سے دیکھتا ہے جس میں وہ خود ماہر ہوتا ہے۔ اِقتصادیات کا ماہر نظام ہائے روزگار، مارکیٹ میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ اور دولت کی تقسیم کے عمل کو بنیادی خرابی سمجھتا ہے۔ نفسیات اور طب کے ماہرین اپنے بڑوں کی تھیوریوں پر سچے دل سے ایمان لا چکے ہیں اور انہی کے اندر رہتے ہوئے بنیادی خرابی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ سوشیالوجسٹ ابلاغ عامہ یعنی پراپیگنڈے کی ضرورت پر زور دیتا رہتا ہے۔ سائنس دان جدید سائنس اور طب سے عام آدمی کی ناواقفیت اور ترقی کی کمی یا زیادتی کی طرف پھسلتا ہے۔ سیاستدان ریاستی نظریہ انتخابات، طرزِ حکومت اور الیکشن کے دھاندلی والے ہتھکنڈوں کو تمام تر خرابیوں کی بنیاد قرار دینے لگتا ہے۔ غرض ہر جینیئس صرف اُسی میدان میں تمام مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہتا ہے جس میں وہ خود ماہر ہوتا ہے۔ اِس کی سب سے اچھی مثال سوشلزم ہے۔ کارل مارکس سے یہی بنیادی غلطی ہوئی کہ اُس نے تمام مسائل کا سبب دولت کا اِستعمال نہیں بلکہ اِس کی تقسیم کا عمل سمجھا۔

معاشرتی نظام کو بے عیب بنانے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم بیک وقت سبھی اِنسانی ضروریات کو مد نظر رکھتے جبکہ ہم اِن ضروریات کا تعین ہی نہیں کر سکے چنانچہ ہم نے یہ وطیرہ اپنایا کہ جس میدان کا مسئلہ سر ابھارتا، صرف اُسی سے متعلقہ قوانین کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگتے اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتے۔ ہم یہ حقیقت بھول جاتے کہ تمام اِنسانی ضروریات ایک دوسری میں گویا پیوست ہیں اور کوئی بھی قانون بناتے وقت ہم زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے صرف نظر نہیں کر سکتے تاکہ کسی دوسری بنیاد کو زد نہ پہنچے۔

آج ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی معاشی مسئلہ سر ابھارتا ہے تو ہم اُس کا نفسیاتی پہلو سمجھے بغیر معاشی قوانین میں ترمیم یا اضافہ وغیرہ کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی سماجی الجھن نمودار ہوتی ہے۔ اُس کے حل کیلئے مزید قوانین بناتے ہیں اور تب امن و امان یا عائلت کا مسئلہ ابھر آتا ہے۔ اِسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے اور اِس کے نتیجے میں جرائم، بدعنوانی اور دیگر سماجی برائیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ تب ہم جھنجھلا کر سزائیں شدید اور سخت کرنا شروع کر دیتے ہیں مگر اِس سے جرائم کی شرح میں کیا کمی ہوتی، الٹا ہوسِ زر اور آپا دھاپی زور پکڑنے لگتی ہیں۔ اِس ساری خرابی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نظام ترتیب دیتے وقت اِنسان کی تمام ضروریات کو بیک وقت مد نظر نہیں رکھتے۔

یکے بعد دیگرے قوانین پر قوانین بنانے کے باوجود ہم تاریکی میں رہتے ہیں تو ہمارے پاس سزاؤں کو شدید اور سخت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا اور یہ ہماری عقلی بے بسی کا اعتراف ہے۔ اگر ہم معاشرتی نظام کو مرتب کرتے وقت پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیتے کہ ہر قانون کو ترتیب دیتے ہوئے اس کے تمام ممکنہ Side Effects کا حل فراہم کیے بغیر اسے معاشرے میں نافذ ہی نہیں کیا جا سکتا تو یقیناً چھوٹے چھوٹے قوانین یکے بعد دیگرے جنم دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور ایک ہی جامع نظام کی تشکیل پر ہماری توجہ مرکوز ہو جاتی۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماضی میں کبھی ان خطوط پر بھی کوشش ہوئی ہو کہ معاشرتی نظام میں ایک ایسا قانونی باب تخلیق ہو جائے جو اِنسان کی تمام تشنگی کے ہر پہلو سے سیراب ہونے کا راستہ مہیا کر سکے مگر یہ کوشش بھی ناکام رہی جیسا کہ آج کے حالات سے ظاہر ہے۔ اِس کی وجہ صرف ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ قانون ترتیب دینے والے لوگ اِنسان کی بنیادی ضروریات اور حقوق کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہی سوچ کر اِس تحریر میں سب سے پہلے اِنسانی ضروریات کا نفسیاتی مشاہدہ کیا جا رہا ہے اور اِس کے نتیجے میں کچھ ایسے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں جو شخصی آزادی، بنیادی حقوق اور اِنسان کی جنسی ضرورت کے بارے میں جدید علوم کے مروجہ تصورات کو ہی غلط ثابت کر رہے ہیں۔

اِس عمل کے بعد اُس معاشرتی نظام کو ترتیب دیا گیا ہے جس کے بارے میں ہمیں پورا یقین ہے کہ اِس کی موجودگی میں کسی بھی فطری اِنسانی بنیادی ضرورت کو تکمیل کا مثبت اور محفوظ راستہ بند نہیں مل سکتا۔ اِس یقین کا ثبوت وہ تجویز ہے جس پر اِس قانون کا ڈھانچہ مرتب ہے، اور وہ تجویز یہ ہے کہ یہ قانون کسی فرد کو بھی صرف اپنے تحت چلنے پر مجبور یا پابند نہیں کرتا بلکہ یہ آئین کی دستاویز میں ایک اضافی باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی فرد اِس قانون سے جزوی یا کلی طور پر متفق نہ ہو یا کسی ایک شعبہ زندگی میں اِس قانون کی اپنے لیے Application مناسب نہ سمجھے تو اُسے پورا حق اور اِختیار ہے کہ وہ کسی دوسرے متبادل نظام کے مطابق اپنی پوری زندگی یا کسی بھی شعبہ زندگی کی ترتیب وضع کر سکتا ہے۔ یوں نہ صرف کسی بھی فرد کیلئے اِس قانون سے اختلاف یا اعتراض کی بنیاد بھی ختم ہو رہی ہے بلکہ اِنسانی حقوق کی اساس کے مطابق ہر فرد کیلئے اپنی زندگی کا انداز ترتیب دینے کیلئے اپنی مرضی کے قانونی باب کو جزوی یا کلی طور پر منتخب کرنے یا اُسے چھوڑ دینے کی ہر وقت آزادی بھی میسر رہتی ہے۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ یہ قانونی فراخدلی کی آخری حد ہے۔ آیئے اب اِس قانون کو ترتیب دینے کے عمل کا آغاز کریں۔