ہم جان چکے ہیں کہ برتری کی خواہش اِنسان کی وہ ضرورت ہے جو جسمانی تحفظ کی ضرورت یعنی غذا، لباس، رہائش وغیرہ کی نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہے اور اِنسان دوسری ضرورت یعنی جسمانی تحفظ کی ضرورت کی تکمیل کیلئے وہی انداز اِختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے ذریعے اُس کی دیگر اِنسانوں پر اِمتیازی حیثیت یا افضلیت ثابت ہوتی ہو۔ غذا، لباس اور دیگر رہن سہن میں پر تعیش اور قیمتی کے انتخاب کی وجہ یہی برتری کی طلب ہے۔

آج کے تمام معاشروں میں اِجتماعی و اِنفرادی، ہر طرح سے برتری کی پہچان دولت کی ملکیتی مقدار ہے۔ اِس کا اِجتماعی قومی اظہار سائنسی یا فوجی قوت کے زور پر اور اِنفرادی اِظہار سامانِ تعیش اور نمود و نمائش کے ذریعے ہوتا ہے۔ اِس کی وجہ سے ہمیں یہ غلط فہمی ہونے لگتی ہے کہ دولت کا حصول اِنسان کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے اعلیٰ اور برتر معاشرہ اُسے سمجھا جاتا ہے جہاں فی کس آمدنی کی شرح دوسروں سے زیادہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اِنسان کی اصل ضرورت اپنی افضلیت اور برتری تسلیم کرانا ہے اور دولت مندی کی حیثیت اِس ضرورت کی تکمیل کیلئے اکلوتے دستیاب راستے کی ہے۔ دولت بذات خود کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ بنیادی ضرورت کی تکمیل کیلئے اکلوتے راستے پر اجارہ داری کی وجہ سے ہر کسی کی مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے اور در حقیقت اِنسان کی الجھن کا باعث اُس کی ملکیتی دولت کی کمی نہیں بلکہ معاشرے میں اُس دولت کی اجارہ داری ہے لہٰذا ہمارا ٹارگٹ سوشلزم کی طرح ملکیت کے حق کو ختم کرنا نہیں بلکہ دولت کی اُس اجارہ داری کو ختم کرنا ہے۔ اِس مقصد کیلئے آیئے ہم ان تصورات کے تجزیئے سے ابتدا کریں جو یہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک معاشرے کی فی کس آمدنی کا تصور ہے۔

اِنسان اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دو طریقوں سے دولت حاصل کرتا ہے، اپنی خدمات کے عوض یا سرمایہ کاری سے منافع حاصل کر کے۔ دونوں صورتوں میں بنیادی مقصد دولت حاصل کرنا نہیں بلکہ برتری کی طلب سمیت تینوں فطری ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ دونوں طریقوں سے یعنی اُجرت یا منافع سے حاصل شدہ دولت آمدن کہلاتی ہے اور اِس کے مجموعے کا اوسط نکال کر ہم کسی معاشرے کی فی کس آمدنی کا تعین کرتے ہیں۔ ہم اِسے برتری کی علامت سمجھنے کے اِس حد تک عادی ہو چکے ہیں کہ الیکشن کے وقت انتخابی منشوروں تک میں اِس کو مرکزی جگہ دیتے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ فی کس آمدنی کے اعداد و شمار کی بنیاد پر الیکشن جیتتے اور ہارتے ہیں حالانکہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ فی کس اوسط آمدنی میں کمی یا اضافے سے ضروریاتِ زندگی، اِنفرادی برتری کی طلب اور طبقاتی درجہ بندی کی فرسٹریشن کے باعث ہونے والے جرائم اور سماجی برائیوں کا کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ یہ بات شاید وضاحت کے بغیر سمجھ میں نہ آئے، اِس لیے وضاحت پیش خدمت ہے۔

جب کوئی فرد دوسروں پر یعنی اپنے عزیزو اقارب اور شناساؤں دوستوں وغیرہ پر اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے دولت کے حصول کی جدوجہد کرتا ہے تو اگر وہ کامیاب ہو جائے اور اُس کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے جس کا وہ معاشرے میں دکھاوا کر لے تو یقیناً ایک دفعہ تو اُسے تسکین محسوس ہو جائے گی اور اُسے ان لوگوں پر اپنی برتری کا احساس ہو جائے گا جو اُس کے مد نظر ہیں، مگر یہ سب کچھ بہت تھوڑی دیر کیلئے ہو گا اور کچھ ہی مدت کے بعد وہ لوگ جن پر وہ اپنی برتری ثابت کر چکا ہے، اُس کے مد نظر نہیں رہیں گے بلکہ اُس کی توجہ کا مرکز وہ لوگ ہو جائیں گے جو کہ اب اُس کی اِنکم بریکٹ میں ہیں یعنی دولت اور گلیمر کے توازن میں اُس کے ہم پلہ ہیں۔ اب وہ اُن اِنکم بریکٹ کے افراد پر اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے فرسٹریٹڈ ہونے لگے گا جبکہ دوسری طرف احساسِ کمتری میں مبتلا وہ لوگ ہوں گے جن پر وہ اپنی افضلیت ثابت کر کے انہیں مزید فرسٹریشن کا شکار بنا چکا ہے۔

اِس مثال سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ فی کس آمدنی میں اضافے سے اِنسانوں کی مجموعی فرسٹریشن اور سماجی برائیوں یا جرائم کی شرح میں اضافہ تو ہو سکتا ہے، کمی نہیں ہو سکتی۔

اگر اِس مثال سے پوری طرح وضاحت نہ ہو سکی ہو تو ایک اور مثال سے مزید وضاحت ہو جائے گی۔

فرض کیجیے کسی غریب معاشرے کے تمام افراد کو فی کس ایک کلو سونا مل جائے تو بتایئے کہ کیا دولت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی فرسٹریشن ختم ہو جائے گی؟۔۔۔ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں، یہ فرسٹریشن ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائے گی کیونکہ آج کے معاشروں میں برتری کا اِنحصار زیادہ ملکیتی دولت کی موجودگی یا عدم موجودگی پر نہیں بلکہ دولت مندی کی دوسروں سے بڑھ کر نمائش اور اِظہار پر ہے۔ اگر معاشرے کے ہر فرد کو معلوم ہے کہ جتنی دولت خود اُسے ملی ہے اتنی ہی مقدار میں دوسرے افراد کو بھی ملی ہے تو فی کس آمدن بڑھ جانے اور سب کا معیارِ زندگی قدرے پر تعیش ہو جانے کے باوجود اِنفرادی برتری کی طلب پوری نہیں ہو گی، فرسٹریشن میں کوئی کمی نہیں ہو گی، دولت مندی میں دوسروں سے بڑھنے کی ہوس برقرار رہے گی اور سماجی برائیاں اور جرائم جنم لیتے رہیں گے۔

اِس جائزے کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ فی کس آمدنی یعنی دولت مندی کے حجم میں اضافہ مسائل کا حل قطعی نہیں ہے جس کیلئے ہم جنونی ہوئے جا رہے ہیں۔ رہی یہ بات کہ دنیا بھر کے سیاستدان فی کس آمدنی میں کمی کو فرسٹریشن کا سبب کیوں کہتے ہیں؟۔۔۔ تو ظاہر ہے کہ اِس کی وجہ ان کی سیاست ہے۔ انہیں ووٹ حاصل کرنے کیلئے کسی منفی سہارے کی ضرورت ہے اگر وہ محض اِخلاقیات اور اقدار کو ہی بنیاد بنا کر ووٹ حاصل کرنا چاہیں تو یہ صورت حال ان کے لئے خود غرضانہ مقاصد کو ہی زندہ نہیں رہنے دیتی جن کی خاطر وہ سیاست کو اپنا کاروبار بنائے ہوتے ہیں۔

اب ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فی کس آمدنی میں اضافے کے باوجود کسی معاشرے کے افراد میں اِنفرادی برتری کی طلب، فرسٹریشن اور جرائم تو ویسے ہی رہتے ہیں البتہ اِجتماعی برتری کو قدرے تسکین پہنچ سکتی ہے لیکن وہ بھی اِس صورت میں جب وہ اضافہ صرف اسی معاشرے میں ہوا ہو۔ اگر دیگر معاشروں میں بھی جو اُس کے ساتھ مسابقت کی دوڑ میں شریک ہیں، یہی اضافہ ہو جائے تو اِس اضافے سے اُس اِجتماعی ضرورت کو بھی رتی برابر تسکین نہیں ملے گی۔ اِس سے یہ سمجھ لینا کچھ دشوار نہیں کہ ہمارے جو مخلص ماہرین معاشیات و سیاسیات بھی دولت مندی اور آمدن کے دائرے سے باہر نکلنا نہیں چاہتے انہیں ابھی تک اِنسانی ضرورت کی حقیقت کا اِدراک نہیں ہے۔

ہم سمجھ چکے ہیں کہ معاشرے میں افراد کی ملکیتی دولت کی مقدار میں اضافہ یا کمی کا جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم اِس پراپیگنڈے سے اثر کیوں لیتے ہیں اور وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر دولت مندی کا اِظہار معاشرے میں افضلیت اور برتری کی پہچان کے طور پر اجارہ داری حاصل کر چکا ہے۔

جب کوئی شخص اِس بنیادی ضرورت یعنی برتری کی طلب کو پورا کرنا چاہتا ہے تو وہ لا محالہ کسی ایسی چیز کی جستجو کرتا ہے جو اُس کے پاس اتنی مقدار میں ہو جائے کہ اتنی مقدار میں اُن دوسرے افراد کے پاس نہ ہو جن پر وہ اپنی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے۔ فطرت کا تقاضا ہے کہ یہ چیز ایسی ہونی چاہیے جو کسی سے چھینی یا خریدی نہ جا سکتی ہو تاکہ اُسے حاصل کرنے کی مسابقت میں جرم وقوع پذیر نہ ہو لیکن جدید سائنس اور ترقی نے Luxuries کے نام سے ایسی بہت سی چیزیں فراہم کر دی ہیں کہ دولت مند کو خود کو برتر تسلیم کرانے کیلئے کسی انوکھے سہارے کو تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی اور وہ بڑی آسانی سے اپنا طرز زندگی پر تعیش کر کے کم آمدنی والے لوگوں پر اپنی افضلیت ثابت کرتے ہوئے اُنہیں فرسٹریشن میں مبتلا کر دیتا ہے کیونکہ دولت ایسی چیز نہیں ہے جسے ہر کسی کیلئے ہر وقت لا محدود مقدار میں اِس طرح حاصل کر لینا ممکن ہو کہ اِس سے کسی دوسرے فرد کی دولت میں کمی واقع نہ ہونے پائے چنانچہ دولت کے معیارِ عزت بن جانے سے غریب آدمی کی فرسٹریشن میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ لیبر ڈیمانڈ اور ہڑتالوں وغیرہ کی صورت حال اِسی کے ردِ عمل کا ایک منظر ہے۔

بادی النظر میں اِس کا حل یہی محسوس ہوتا ہے کہ اگر کسی معاشرے میں دولت مند اور غریب آدمی کا طرزِ زندگی کسی قانون کے نتیجے میں ایک جیسا ہو جائے تو تعیش اور دکھاوے کی بنیاد پر، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ دولت مندی کی نمائش کی بنیاد پر ابھرنے والی فرسٹریشن ختم ہو جائے گی۔

یہی وہ نکتہ ہے جہاں اِنسانی عقل ماؤف ہونے لگتی ہے اور ہمارے جینیئس کو کمیونزم یا اِس سے ملتے جلتے کسی نظام کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا جبکہ ہم جانتے ہیں کہ کمیونزم کی بنیاد جبر اور زبردستی پر ہے اور جبر ایک غیر فطری عمل ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مقصد شخصی آزادی اور بنیادی اِنسانی حقوق کے تحفظ کو قائم رکھنا ہے اور اِس دائرے کے اندر رہتے ہوئے سٹیٹس کامپلیکس ختم کر دینے والا ایک جامع نظام مرتب کرنا ہے، ایک ایسا نظام جو جبر کی بجائے ترغیبPersuasion کے اصول پر مبنی ہو یعنی اِس میں دولت مند کو اپنا معیارِ زندگی غریب آدمی کے مساوی بنا لینے میں بہت بڑا فائدہ تو دکھائی دے لیکن اُس کو بہرحال اِس امر پر یوں قانوناً مجبور نہ کیا جا سکے جس طرح کمیونزم میں کیا جاتا ہے۔ ہمیں اِس نظام میں برتری کی ضرورت کو تکمیل کا ایسا راستہ فراہم کرنا ہے جو دولت کے اِمتیاز کے بغیر ہر وقت ہر شخص کے بس اور اِختیار میں ہو اور جسے اِختیار کرنے، کیے رکھنے اور چھوڑ دینے کی ہر وقت ہر کسی کیلئے آزادی ہو۔۔۔ اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کمیونزم اِس معیار پر ہرگز پورا نہیں اترتا۔ ہمیں ایک ایسا قانون اِنسانیت کو فراہم کرنا ہے جس کی موجودگی میں مفاد پرستانہ قوانین نافذ ہونے کے باوجود یوں بے حیثیت ہو جائیں جیسے ٹھنڈے میٹھے پاکیزہ مشروب کی وافر موجودگی میں غلیظ اور آلودہ پینے کا پانی بے وقعت ہو جاتا ہے۔ درحقیقت ہمیں ہر شخص کی اُن فطری اِخلاقی خصوصیات Moral Values کو مارکیٹ میں قانونی طور پر مادی قدرو قیمت Commercial Value حاصل کرنے کا راستہ دینا ہے جن میں لا محدود کمی یا اضافہ ہر وقت ہر شخص کے بس میں ہے اور جو کسی دوسرے فرد سے چھینی یا خریدی نہیں جا سکتیں یعنی سچائی، نیک نامی، ہمدردی، خوش اِخلاقی، پارسائی، دیانت داری، سادگی وغیرہ۔

اِس مقصد میں پہلی اور آخری رکاوٹ دولت کی اجارہ داری ہے اور اگر ہمیں کسی جامع قانون کو بنانے کا مشن پورا کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں معاشرے میں دولت کی اِس اجارہ داری کی حیثیت اور اِس کا فنکشن سمجھنا ہو گا۔

اِنسان دولت اِس لیے کماتا ہے کہ وہ اپنی فطری ضروریات کو پورا کر سکے۔ ان ضروریات میں رہن سہن، علاج معالجہ اور اِن پر اثر انداز ہوتی ہوئی آرزوئے افضلیت یعنی برتری کی طلب شامل ہے۔ اپنی کمائی ہوئی دولت سے وہ اِن ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کی کمائی ہوئی دولت اُن کی برتری کی طلب کو آخری حد تک اور ہمیشہ کیلئے پورا کر دے۔ اگرچہ فرسٹریشن سے وہ بھی نہیں بچ سکے مگر اُن کی فرسٹریشن کی بنیاد دولت کی کمی نہیں ہوتی بلکہ اُس کا سبب کچھ اور ہے جس پر جنسی ضرورت کے ضمن میں گفتگو ہو گی۔

دنیا میں ننانوے فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جن میں دولت کی طلب موجود ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی موجودہ ملکیتی دولت اُن کی ضروریات کی تکمیل کیلئے کافی نہیں ہے۔ اِس نقطہ نظر پر آپ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ عیاشی کیلئے دولت کی طلب رکھتے ہیں۔۔۔ تو جواب صرف یہ ہے کہ اِس ضمن میں کسی دوسرے کی طرف دیکھنے کی بجائے صرف اپنے آپ کو دیکھئے۔ ہو سکتا ہے کہ جس چیز کو آپ دوسرے شخص کی عیاشی قرار دے رہے ہیں وہ نظام فرعونیت کے باعث اُس کی ضرورت بن چکی ہو، بالکل اسی طرح کہ جس چیز کو آپ اپنی ضرورت سمجھ رہے ہیں وہ کسی تیسرے شخص کے خیال میں آپ کی عیاشی ہے۔ مثال کے طور پر جس طرح آپ کے خیال میں کسی عرب یا امریکی ارب پتی کی چمکیلی رولز رائس گاڑی اُس کی عیاشی ہے، بالکل اسی طرح ایتھوپیا کے قحط زدہ باشندے کی رائے میں آپ کی بائیسکل آپ کی عیاشی ہے۔

اِنسان جب معاشی جدوجہد کرتا ہے تو اِس کے عوض دولت حاصل کرتا ہے، پھر اِس کے بعد وہ اِس دولت کے عوض اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ گویا دولت کی حیثیت اِنسان کی جدوجہد اور کفالتی تحفظ کے درمیان ایک رابطہ کی سی ہے اور اِنسان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جس کے مطابق وہ اپنی جدوجہد اور کفالت کے درمیان اِس رابطے کا محتاج نہ ہو۔

یہی درمیانی رابطہ وہ چیز ہے جسے ہم دولت کی اجارہ داری کا نام دیتے ہیں اور یہی اجارہ داری وہ اُلجھن ہے جو ہمیں گوناگوں مسائل میں اُلجھا رہی ہے۔ اگر ہم دولت کے اِس درمیانی رابطے کو اِنسان کی جدوجہد اور ضروریات کی تکمیل کے درمیان میں سے نکال باہر کریں تو ظاہر ہے کہ دولت کی یہ اجارہ داری بے وقعت، بے وجود ہو جائے گی اور نہ ہی وہ مسائل رہیں گے جو اِس اجارہ داری کے نتیجے میں اِنسانیت کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

یہ مقصد تبھی پورا ہو سکتا ہے جب ہر اِنسان کو اپنی جدوجہد کے بدلے میں دولت کی کسی متعینہ مقدار کو درمیان میں لائے بغیر مکمل ضروریاتِ زندگی براہِ راست فراہم ہو سکتی ہوں۔ گویا ہمیں ایک ایسا معاشی نظام ترتیب دینا ہو گا کہ اگر کوئی شخص اپنی محنت کے بدلے میں دولت کی کسی متعین مقدار کی بجائے مکمل کفالتی تحفظ حاصل کرنا چاہے تو اُسے اِس کا قانونی راستہ دستیاب ہو۔

جب کوئی معاشی نظام ترتیب دیا جاتا ہے تو اس کا محور معاہدۂ روزگار ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ معاشرے میں چند افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ تو آجر Employer ہوتے ہیں اور نہ ہی اجیر Employee مگر چونکہ ان کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی مجموعی بناوٹ اور ہیئت پر اثر انداز نہیں ہو سکتے اِس لیے انہیں معاشی نظام سے باہر تصور کر لیا جاتا ہے اور یہ سیدھی سی بات ہے کہ جس فرد کا کسی دوسرے فرد کے ساتھ معاشی اِنحصار یعنی اُجرت کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اُسے ہم لیبر ایکٹ میں کیا حیثیت دے سکتے ہیں؟ (یہاں یہ ذکر کرنا بہتر ہو گا کہ اِس کتاب میں جس لیبر ایکٹ کو ہم مرتب کرنے جا رہے ہیں وہ اِس قدر وسیع ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اِس کا کوئی نہ کوئی فریق بنتا ہوا نظر آ جائے گا اور اِس کی وضاحت جنس پر گفتگو کے دوران سامنے آئے گی۔)

اب ہم اِس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں ایک ایسا نظام روزگار مرتب کرنا ہے جس کے مطابق آجر کی جانب سے اجیر کو اُجرت کی صورت میں کسی مقررہ رقم کی بجائے تمام ضروریاتِ زندگی کی مکمل فراہمی کی اجازت ہو۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ روزگار کا یہ تصور ایک معاہدے کی مانند ہی ہو سکتا ہے لہٰذا اِس کا مطلب یہ ہوا کہ لیبر ایکٹ کے مطابق ایسا معاہدہ کرنے کی قانوناً اجازت ہو جس کے مطابق آجر نے اجیر کو اُس کی خدمات کے بدلے میں اُجرت کی رقم کی بجائے مکمل کفالتی تحفظ فراہم کرنا ہو۔

یہ تصور غیر واضح اور نامکمل ہے کیونکہ جب تک کفالتی تحفظ فراہم کرنے کیلئے کوئی معیار مقرر نہ کر دیا جائے، اِس لفظ کا مفہوم واضح نہیں ہوتا اور نہ ہی اِس کی کوئی افادیت تسلیم کی جا سکتی ہے۔۔۔ اور کفالتی تحفظ کا معیار مقرر کرنے کیلئے لازم ہے کہ پہلے ہم اجیر کی ضروریات کا تعین کریں۔

ہم اِس نتیجے پر پہلے ہی پہنچ چکے ہیں کہ غذا، لباس اور رہائش ایسی ضروریات نہیں ہیں جو بذات خود بہت زیادہ دولت کی محتاج ہوں۔ ان کو دولت کی محتاج بنانے والی چیز برتری کی طلب ہے۔ اِسی کو ہم نے سٹیٹس کا نام دے رکھا ہے اور یہی Status Complex سماجی برائیوں کو پنپنے کا موقع دیتا ہے اور اِنسان کو اپنے رہن سہن پر زیادہ سے زیادہ دولت خرچ کرنے پر اکساتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ کفالتی تحفظ کے معیار کیلئے ہمیں اِسی طبقاتی اِمتیاز کو مد نظر رکھنا ہو گا ورنہ یہ تو ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ محض گھٹیا غذا، بدصورت سستا لباس، تھرڈ کلاس علاج معالجہ اور بیکار سی رہائش اپنے ورکرز کیلئے فراہم کر دینا کسی بھی آجر کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

برتری کی طلب کا جائزہ لیتے ہوئے ہم سمجھ چکے ہیں کہ Status Complex کا باعث ملکیتی دولت کی کم یا زیادہ مقدار نہیں بلکہ اُس دولت کا اِستعمال یعنی آجر اور اجیر کے طرز زندگی میں فرق ہے۔ یہی فرق اجیر کو فرسٹریشن کا شکار بناتا ہے۔ گویا ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم کفالتی تحفظ کا معیار مقرر کرتے وقت آجر کو خواہ کتنا ہی قیمتی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیوں نہ کریں، برتری کی طلب پر پیدا ہونے والی فرسٹریشن اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک آجر اور اجیر کے طرزِ زندگی میں فرق موجود ہے لہٰذا ہمیں اگر کفالتی تحفظ کے تصور کو فول پروف بنانا ہے تو طرز زندگی کے اِس فرق کو مٹانا ہو گا اور یہ فرق ختم کرنے کا بہترین بلکہ واحد طریقہ یہ ہے کہ اجیر کو فراہم کیے جانے والے کفالتی تحفظ کے معیار کیلئے خود آجر کی ذات متعین کر دی جائے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آجر اپنے اجیر کو اُجرت کے طور پر وہی معیارِ زندگی یعنی زندگی کی وہی تمام سہولتیں، اُسی مقدار میں فراہم کرے جو خود وہ اپنے تصرف میں رکھتا ہے اور اِس کفالت کے معیار کا دائرہ زندگی کے ہر پہلو یعنی خوراک، لباس، رہائش، علاج معالجہ، تعلیم، تفریح، تقریبات، غرض ہر پہلو پر محیط ہو۔

چونکہ ہمارے نظام کا بنیادی تصور شخصی آزادی اور اِنسانی حقوق پر اُستوار ہے لہٰذا ہم کسی بھی فرد کو خواہ وہ آجر ہو یا اجیر، اِس مجوزہ معاہدے کو اِختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے چنانچہ ہمیں دونوں راستے کھلے رکھنا ہوں گے یعنی ہر دو فریق اگر چاہںم تو اُجرت کی مقررہ رقم کی صورت میں ادائیگی کا معاہدہ کریں اور اگر چاہیں تو باہمی رضامندی سے اُجرت میں رقم کی بجائے آجر کی طرف سے اجیر کو مساویانہ کفالتی تحفظ کی فراہمی کا معاہدہ کریں۔ اِس دوسرے معاہدے میں البتہ یہ پابندی ہو کہ آجر اپنے اجیر کو وہی معیارِ زندگی فراہم کرے گا جسے وہ خود اِختیار کیے ہوئے ہے، تاکہ اجیر کو طبقاتی اِمتیاز کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آجر کو دونوں قانونی تصورات میں سے کسی ایک کو اِختیار کرنے یا کیے رکھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اُسے معاہدۂ روزگار کے کسی بھی تصور کو اِختیار کرنے کی ہر وقت آزادی ہے تو بھلا اُسے کیا پڑی ہے کہ وہ رقم کی صورت میں اُجرت کی ادائیگی کا آسان راستہ چھوڑ کر مساویانہ کفالت کی فراہمی کا کٹھن راستہ اِختیار کرے؟ ظاہر ہے کہ اُسے اپنے اجیر کی سماجی، نفسیاتی، تعلیمی، تفریحی یا طبی فلاح و بہبود سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اِس تصورِ معاہدہ کو اِختیار کر لینے کے بعد اُسے اپنی لیبر پر اٹھنے والے اخراجات کو، خود اپنے طرزِ زندگی کو حسب ضرورت سادہ کرتے ہوئے جب چاہے اور جتنا چاہے کم کرنے کا فارمولا ہاتھ آ جائے گا اور اُس کیلئے لیبر ڈیمانڈ، بونس، انشورنس، گریجویٹی، پنشن، ہڑتال وغیرہ کا قضیہ ہی ختم ہو جائے گا اور یوں اخراجات پیداوار کو حسب منشا کم کرنے کی صلاحیت مل جانے کے بعد اُس کیلئے کاروباری نقصان کا اندیشہ معدوم ہو جائے گا مگر اِس کے باوجود یہ کوئی ایسا بھرپور لالچ نہیں ہے جس کی خاطر وہ دل پر جبر کر کے اپنے ملازم کو فراہم کیے جانے والے کفالتی تحفظ کا معیار خود بھی اِختیار کرنے کا فیصلہ کرے۔ وہ یقیناً اُجرت میں رقم کی ادائیگی کا نظام ہی اپنے لیے بہتر سمجھے گا اور یوں اجیر کیلئے طبقاتی اِمتیاز اور فرسٹریشن سے نجات کا ہمارا مقصد بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔

اگر ہمیں آجر کو اِس معاہدے کی قبولیت پر بخوشی آمادہ کرنا ہے تو ہمیں اُس کیلئے ایک بہت بڑی ترغیب یا لالچ دریافت کرنا ہو گا ورنہ یہ نظام فیل ہو جائے گا، دولت کی اجارہ داری ختم نہیں ہو گی اور معاشرے میں امیر اور غریب کے طرز زندگی کا وہ فرق نہیں مٹ سکے گا جو دولت مندی کی نمائش کو برتری کی علامت بنا دینے کا واحد سبب ہے۔

آجر کیلئے ایسی ترغیب ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اِس ترغیب کا ماخذ ڈھونڈنا ہے، اور یہ ماخذ ظاہر ہے کہ اجیر کی ذات ہی ہو سکتی ہے۔

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اجیر کے پاس اپنی خدمات کے علاوہ وہ کونسی ایسی شے ہے جو فطری اور پیدائشی طور پر اُس کی ملکیت ہے اور جسے وہ تمام ضروریاتِ زندگی کی مساویانہ فراہمی کے لالچ میں اپنے آجر کو دے سکتا ہے؟

اِس پہلو سے غور کرنے پر ہمارے سامنے ایک ہی چیز ایسی آتی ہے جو ہر شخص کا فطری حق ہے اور اُس کی ذاتی ملکیت ہے مگر ہمارے مروجہ معاشی نظاموں کے مطابق وہ اِس چیز سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور وہ چیز، وہ جائداد اُس کیلئے بے معنی، بے فیض اور بے قیمت ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ ناقابل اِنتقال Non-Transferable بنا دی گئی ہے۔۔۔ اور وہ جائداد ہے اجیر کا حق اِستعفیٰ، یعنی جب چاہے نوکری چھوڑنے اور اپنی مرضی سے نیا آجر منتخب کرنے کا حق۔

اگر اِس حق کو قانونی طور پر قابل اِنتقال یعنی Transferable تسلیم کر لیا جائے تو یقیناً یہ ایسی زبردست ترغیب ہو سکتی ہے جسے حاصل کرنے کی آرزو میں آجر اپنے اجیر کو اپنے برابر کی یعنی مساویانہ کفالت کا تحفظ فراہم کرنے پر بھی بے اِختیار آمادہ ہو گا۔ بالفاظِ دیگر آجر کیلئے اگر یہ گارنٹی قانوناً ممکن ہو جائے کہ اُس کا اجیر کام کا تجربہ حاصل کر لینے اور ایک قیمتی با صلاحیت ورکر بن جانے کے بعد اُس کی اجازت کے بغیر جب چاہے محض اپنی مرضی سے اُس کی ملازمت چھوڑ کر نہیں جا سکتا تو وہ اِس گارنٹی کو ہر صورت میں حاصل کرنا چاہے گا خواہ اِس کیلئے اُسے کچھ قیمت بھی ادا کیوں نہ کرنا پڑے اور اُسے اپنا معیارِ زندگی بھی اپنے اجیر کے مساوی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ کارکنوں کی اُجرت، بونس، لیبر ڈیمانڈ، سوشل سیکورٹی، انشورنس وغیرہ از قسم بکھیڑوں سے نجات کا لالچ تو ایک ضمنی سی بات ہو جائے گی۔

قانون میں آجر کیلئے یہ ترغیب مہیا کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اجیر کے اِس ملکیتی حق کو قابل اِنتقال قرار دے دیں، یعنی یہ اجیر کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے اپنے آجر کو اپنا یہ فطری حق یعنی حق اِستعفیٰ اپنی مرضی کی قیمت پر منتقل کر سکتا ہے۔

یہاں ایک اہم سوال اور ابھرتا ہے کہ معاہدہ طے ہونے پر منہ مانگی قیمت پر ہی سہی، اگر اجیر کا حق اِستعفیٰ آجر کو منتقل ہو گیا تو ظاہر ہے کہ اجیر کا اِس حق پر اِختیار ختم ہو جائے گا، دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ حق اِستعفیٰ کی فروخت کے بعد اجیر جب چاہے ملازمت چھوڑ دینے کا مختار نہیں رہے گا۔ اِس صورت میں جب وہ ملازمت چھوڑنا چاہے گا تو اُس کے پاس کیا راستہ ہو گا؟

ہم جانتے ہیں کہ اِنسان کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع آ سکتے ہیں جب اُسے اپنے موجودہ ذریعۂ معاش کی ضرورت نہ رہے، مثلاً اُس کو تحفہ یا ترکہ یا کسی دوسرے ذریعہ سے ایک بڑی رقم مل سکتی ہے، کوئی امیر شریک حیات مل سکتا ہے، اعلیٰ تعلیم یا کسی فن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اُس کی خدمات کی مارکیٹ ویلیو بڑھ سکتی ہے اور اُسے کسی بہتر آجر کے ہاں ملازمت کا چانس مل سکتا ہے، کسی ادبی، سائنسی، سماجی، فلاحی یا کسی دوسری خصوصی کار کردگی کی وجہ سے اُس کا معاشرتی مقام بلند ہو سکتا ہے۔۔۔ تو ایسی صورت میں جب وہ اپنی موجودہ نوکری کو خیرباد کہنا چاہے اور نہ کہہ سکے تو کیا یہ ظلم نہ ہو گا؟

اِس سوال کا بہترین جواب بھی حق اِستعفیٰ کی قابل اِنتقال صلاحیت میں موجود ہے اور وہ یہ کہ معاہدے میں اِس حق کی منتقلی کے ساتھ ہی اِس کی واپسی قیمت کا تعین بھی ہو جانا چاہیے تاکہ اپنے حق اِستعفیٰ کو اپنے آجر کے نام منتقل کرتے ہوئے اجیر کو اسے جب چاہے واپس حاصل کر لینے کی مالیت معلوم ہو اور اُسے پہلے سے ہی بخوبی علم ہو کہ وہ اپنے جس حق اِستعفیٰ کو اپنے آجر کے نام منتقل کرنے جا رہا ہے اُسے جب چاہے دوبارہ واپس لینے کیلئے اُسے اپنے آجر کو کیا ادا کرنا ہو گا۔ اِس طرح آجر اِس امر کا پابند ہو جائے گا کہ اُس کا اجیر جب چاہے اُسے مقررہ واپسی قیمت ادا کر کے اپنے حق اِستعفیٰ کو واپس حاصل کر سکتا ہے اور یوں اُس کی ملازمت چھوڑ سکتا ہے۔ اِس معاہدے کو ایسے رہن کی مثال سمجھا جا سکتا ہے جس میں کسی شے کی رہن رکھوائی کا بدل قیمت اور اُس کی واپسی کا بدل قیمت الگ الگ متعین ہو سکتا ہو۔

یہاں ایک سوال اور ابھرتا ہے کہ اگر آجر نے اجیر کو منہ مانگی قیمت ادا کرنے اور اُس کے حق اِستعفیٰ کی واپسی قیمت اُس کی رضامندی سے طے کرنے کے بعد یہ معاہدہ کر لیا ہو اور اِس کے کچھ عرصہ بعد وہ خود ہی کسی وجہ سے اُس اجیر کی ملازمت برقرار رکھنا نہ چاہے جبکہ اجیر اُسے اپنے حق اِستعفیٰ کی واپسی قیمت جو معاہدے میں طے ہوئی تھی، ادا نہ کر سکے یا ادا کرنے پر تیار نہ ہو تو اُس صورت میں آجر اپنا نقصان کیسے برداشت کرے؟ اُس کو اپنی سرمایہ کاری کیلئے جو اجیر کا حق اِستعفیٰ حاصل کرنے پر کی گئی تھی، کیا تحفظ حاصل ہے؟

اس سوال کا جواب بھی اِس حق اِستعفیٰ کی قابل اِنتقال صلاحیت میں موجود ہے اور وہ یہ کہ معاہدے کی حیثیت بھی قابل اِنتقال ہونی چاہیے کیونکہ اجیر اپنے حق اِستعفیٰ کی منتقلی کے بعد واپسی قیمت ادا کیے بغیر محض اپنی مرضی سے نوکری چھوڑنے اور نیا آجر منتخب کرنے کا مختار نہیں ہو گا۔ بالفاظِ دیگر آجر کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنی مرضی سے اگر اجیر کی خدمات برخاست کرنا چاہے جبکہ اجیر اُسے واپسی قیمت ادا کرنے پر تیار نہ ہو تو وہ اِس معاہدے کو کسی بھی دوسرے فرد یا ادارے کے ہاتھ فروخت کر سکیں۔ اِس فروخت کے بعد اجیر کی خدمات واپسی قیمت کی اُسی طے شدہ شرط کی موجودگی میں نئے آجر کیلئے مخصوص ہو جائیں جو معاہدے میں اِسے طے پاتے وقت ذکر کی گئی ہو۔ اِس کے بعد کفالتی تحفظ کا معیار نئے آجر کا طرز زندگی قرار پائے۔

اب اِس مجوزہ نظام روزگار کا جو خاکہ ہمارے سامنے آتا ہے وہ کچھ اِس طرح ہے۔

یہ قانون معاہدہ روزگار کے ایک ایسے تصور پر مبنی ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اجیر کو دولت کے درمیانی رابطے کے بغیر اپنی خدمات کے عوض کسی مقررہ اُجرت کی بجائے اُس کی ضروریات زندگی کی مکمل اور بے عیب فراہمی دستیاب ہو سکے۔

اب ہم اِس معاہدے کے خط و خال متعین کریں گے۔

ہر آجر اور اجیر کو ایسا قانونی معاہدہ کرنے کی اجازت ہو جس کی رُو سے آجر اِس امر کا پابند ہو کہ وہ اجیر کو اُجرت کی صورت میں وہی معیارِ زندگی فراہم کرے گا جو وہ خود اپنائے ہوئے ہو گا۔

اجیر کا حق اِستعفیٰ قابل اِنتقال Transferable صلاحیت کا حامل ہے اور اجیر کو یہ اِختیار حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اِس حق کو اپنے آجر کے ہاتھ اپنی مرضی کی قیمت پر منتقل کر سکتا ہے۔

حق اِستعفیٰ کی منتقلی کی صورت میں اُس کی واپسی قیمت کا معاہدے کے متن میں تعین ہونا لازمی ہے تاکہ اجیر کو اپنے منتقل شدہ حق کو جب چاہے واپس حاصل کر لینے کی مالیت اور راستہ معلوم ہو۔

معاہدے کی حیثیت قابل اِنتقال ہو گی اور اِس کے تحت آجر کو یہ اِختیار ہو گا کہ وہ جب چاہے یہ معاہدہ کسی بھی دوسرے فرد کو منتقل کر کے اُسے اجیر کی خدمات پر اپنے قانونی اِختیارات منتقل کر سکے۔۔۔ تاکہ آجر کو اپنی سرمایہ کاری کا تحفظ حاصل رہے اور وہ اجیر کے حق اِستعفیٰ کے اپنے نام اِنتقال کیلئے اُسے زیادہ سے زیادہ رقم ادا کرنے پر آمادہ ہو سکے۔

اگر اجیر کے اوپر یہ معاہدہ کرنے سے پہلے کسی فرد یا افراد کی کفالتی ذمہ داری بھی ہے یعنی اُس کے بیوی بچے اور بوڑھے والدین یا نابالغ بہن بھائی وغیرہ، تو اِس صورت میں وہ یہ معاہدہ کرنے کا اہل تبھی ہو سکتا ہے جب اُس کا ممکنہ آجر اُس کی یہ کفالتی ذمہ داری بھی اٹھانے پر رضامند ہو۔

یہ وہ تصوراتی خاکہ ہے جو ایک ایسے قانونی نظام کی تشکیل کیلئے راہ ہموار کرے گا کہ جس کی معاشرے کو اجازت ملنے کے بعد دولت کی نمائش اور اِس کی بنیاد پر پیدا ہونے والی فرسٹریشن کا خاتمہ ہو جائے گا، تب اِنسان کی ذاتی خوبیاں کمرشل اقدار کی حیثیت اِختیار کر لیں گی اور یہی اِنسانی معاشرے کی حقیقی ضرورت ہے۔ اِس امر کا تفصیلی منظر نامہ آئندہ ابواب میں زیر نظر آئے گا۔

یہاں ایک بہت بڑے ضمنی فائدے کا ذکر بھی لازم ہے۔

چونکہ اِس معاہدے کے تحت اُجرت کی رقم یا تنخواہ وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے لہٰذا آجر کیلئے اجیر کی خدمات کی نوعیت اور مقام کا تصور بھی لازم نہیں ٹھہرتا۔ مثال کے طور پر ایک آجر جو اپنے کفالتی خدمتگار سے ڈرائیونگ کی خدمات لیتا ہے، اگر اپنی گاڑی بیچ دے اور خدمتگار سے کوئی دوسری خدمت مثلاً باورچی کی خدمات لینا چاہے تو یقیناً خدمت گار کو اِس امر پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اعتراض اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تنخواہ یا اُجرت کا مسئلہ درمیان میں آتا ہو۔ اِسی طرح اگر کوئی آجر نقل مکانی کر کے کسی دوسرے شہر میں چلا جائے تو بھی اجیر کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اِس کی اور اِس کے اہل خانہ کی اپنے مساوی رہائش، غذا، تعلیم وغیرہ فراہم کرنا خود آجر کی ذمہ داری ہے جس کے معیار میں کسی قسم کی کمی یا کوتاہی کی صورت میں اجیر بڑے مزے سے عدالت کے ذریعے واپسی قیمت ادا کیے بغیر اپنا حق اِستعفیٰ واپس حاصل کر سکتا ہے اور دوبارہ کسی دوسرے آجر کو منتقل کر کے مزید رقم حاصل کر سکتا ہے۔

ممکن ہے بعض لوگوں کو یہ مجوزہ خاکہ ایک دوسرے قانونی تصور سے مشابہ لگنے کی غلط فہمی ہو جوBonded Labor کے نام سے دنیا کے کئی معاشروں میں مروج ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ دونوں قوانین کے درمیان فرق کی وضاحت ہو جائے۔

Bonded Labor کی یہ ترتیب عام طور پر فوجی بھرتی کیلئے اِستعمال کی جاتی ہے۔ آرمی میں کمیشن ملنے سے پہلے نوجوان میں ایک خاص سطح کی ذہنی، جسمانی، تعلیمی اور حربی قابلیت پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس قابلیت کو پیدا کرنے میں اٹھنے والے اخراجات کو تحفظ دینے کیلئے حکومت اِس قانونی ترتیب کو اِختیار کرتی ہے اور اِس حلف نامے سے کیڈٹ اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد مخصوص مدت تک کیلئے فوجی خدمات انجام دینے کا پابند ہو جاتا ہے۔

پرائیویٹ سیکٹر کے معاہدہ ہائے روزگار میں بھی کہیں کہیں اِس کا ذکر ملتا ہے۔ عموماً اِسے کسی زیر تعلیم طالب علم کے تعلیمی اخراجات فراہم کرنے کیلئے اِستعمال کیا جاتا ہے۔ اِس کے مطابق طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی مخصوص مدت تک متعینہ تنخواہ پر اُس آجر کیلئے خدمات ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے جو اِس کے تعلیمی اخراجات برداشت کر رہا ہے۔ یورپ میں فٹ بال اور دیگر کھیلوں کے کلب کھلاڑیوں سے اِسی نوعیت کے معاہدے کر لیتے ہیں۔

اِس کے علاوہ بھی یہ قانون کہیں کہیں موجود ہے مگر بحیثیت مجموعی یہ قانون معاشرے میں بری طرح ناکام ہے اور عام طور پر آجر اور اجیر دونوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔ اِس کی وجوہات واضح ہیں۔

اِس قانون کا سب سے پہلا اور بنیادی سقم یہ ہے کہ اِس معاہدے کے مطابق اُجرت رقم کی صورت میں ادا کی جاتی ہے اور اِس طرح معاشرے میں طبقاتی اِمتیاز Status Syndrome برقرار رہتا ہے۔

دوسرا بڑا عیب یہ ہے کہ عام طور پر آجر کی سرمایہ کاری کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اگر آجر کسی وجہ سے اجیر سے خدمات لینے کے قابل نہ رہے، قانون یا حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اُسے اپنا پروگرام ملتوی یا منسوخ کرنا پڑے یا اجیر کی کار کردگی اُس کی توقع کے مطابق نہ ہو اور وہ اجیر کو برخاست کرنا چاہے تو اُس کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی سرمایہ کاری کو بھول جائے اور معاہدے سے دستبردار ہو جائے۔ اکثر اوقات اِس معاہدے کی حیثیت قابل اِنتقال نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو اُس آجر کو ایسا گاہک میسر نہیں آتا جو اِس معاہدے کی خاطر خواہ قیمت ادا کرے۔ گاہک کو اجیر کے مقام ملازمت، مقدارِ اُجرت، مدتِ معاہدہ وغیرہ پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ یہی اعتراض معاہدے کی مارکیٹ ویلیو کو ختم کر دیتا ہے اور آجر کو زیادہ سرمایہ کاری سے روکے رکھتا ہے۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ سرمایہ کاری میں یہ کمی اجیر کیلئے پرکشش نہیں ہے۔

اِس تجزیئے سے Bonded Labor کے معاہدے میں یہ بنیادی خامیاں سامنے آتی ہیں۔

اُجرت کی رقم کی شکل میں ادائیگی، ملازمت کے مقام اور نوعیت کا متعین ہونا، معاہدے کی مدت کا پہلے سے طے ہونا اور معاہدے میں قابل اِنتقال صلاحیت کا نہ ہونا۔

اگر آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ جس قانون کا خاکہ اِن صفحات میں کھینچا گیا ہے اِس میں اِن میں سے کوئی بھی خامی موجود نہیں ہے۔

اِس خاکے کی مدد سے ہم ایک ایسا قانونی نظام مرتب کرنے والے ہیں جو معاشرے میں Status Complex کا خاتمہ کرتا ہے۔ یہ نظام مساویانہ کفالتی تحفظ کی بنیاد پر نوعیت اور مقامِ ملازمت کی اُلجھن کو ناقابل توجہ اور بے معنی کر دیتا ہے، اجیر کے حق اِستعفیٰ کے آجر کے نام اِنتقال کی اجازت دے کر آجر کیلئے بہت بڑی ترغیب پیدا کرتا ہے اور حق اِستعفیٰ کی واپسی قیمت کے پیشگی تعین کی شرط کی وجہ سے اجیر کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ قانون معاہدے کو قابل اِنتقال قرار دے کر آجر کیلئے سرمایہ کاری کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ نہ صرف ریٹائرمنٹ اور ضعیف العمری کے مسائل کو بے معنی کر دیتا ہے بلکہ مدتِ ملازمت کی تخصیص بھی ختم کر دیتا ہے۔۔۔ لیکن اِن سب سے زیادہ اہم اِنقلابی تبدیلی جو یہ لاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ قانون معاشرے میں اِخلاقی اقدار، رویّے اور سلوک یعنی اِنسان کی ذاتی خوبیوں کو کمرشلائز کرتا ہے اور یوں انہیں ذریعہ عزت بنا دیتا ہے (اس کی تفصیلی وضاحت آگے چل کر "منظر نامہ" کے باب میں ہو جائے گی۔) مختصر یہ کہ بحیثیت مجموعی، دولت کی نمائش سے پیدا ہونے والی اُس فرسٹریشن کی ممکنات کو ختم کر دیتا ہے جو جرائم کا باعث بنتی ہے۔

اب ہم فرسٹریشن کی دوسری وجہ یعنی زندگی کے جنسی پہلو پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔