معاشرے میں جرم کا دوسرا بڑا محرک جنس ہے اور یہ بھی کہ ہمارے تمام تر شخصی آزادی کے بنیادی تصورات پر مبنی قوانین کے باوجود جنسی جرائم مثلاً آبرو ریزی، یا جنس سے بالواسطہ تعلق رکھنے والے جرائم مثلاً منشیات، ورغلاہٹ اور اغوا یا غیرت وغیرہ کے نام پر قتل جیسے جرائم کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہو رہی بلکہ قدرے اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اِس سے صرف اور صرف ایک ہی مطلب نکل سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے شخصی آزادی اور بنیادی اِنسانی حقوق کی بنیاد یعنی اِنسانی جنسی ضرورت کا تعین ہی غلط ہے۔ ہم اِس غلطی کو سمجھنے کا فارمولا پہلے ہی ترتیب دے چکے ہیں کہ جرم کے پیچھے چھپی ہوئی فرسٹریشن کا محرک دریافت کریں یعنی جنسی ضرورت کی نوعیت اور پوٹنسی کو سمجھیں۔

ہر قسم کے جنسی جرائم کا جائزہ لینے کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایسے تمام جرائم میں عورت کی طرف سے پذیرائی تو ہو سکتی ہے، اِختیار نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں ہونے والے جنسی جرائم کا اگر عمیق نگہی سے مشاہدہ کیا جائے تو مرد ہی ذمہ دار دکھائی دیتا ہے۔ جہاں کہیں کوئی صحیح الدماغ تندرست عورت کسی ایسے جرم کی مرتکب پائی گئی ہے (یاد رہے کہ Nymphomania ایک نسوانی عارضہ ہے اور اِس کے تحت مرتکب ہونے والے جنسی جرائم کا اِس ضمن میں اطلاق نہیں ہوتا) اگر آپ غور کریں تو دیکھیں گے کہ اُس جرم کا محرک جنس نہیں ہو گا بلکہ دولت کا لالچ، افضلیت کی طلب یا کوئی نفسیاتی وجہ مثلاً انتقام، محبت یا تنہائی وغیرہ ہو گا جبکہ مرد کی طرف سے ایسے جرم کا ارتکاب محض جنسی تشنگی کی وجہ سے ہو گا۔ گویا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر مرد ضرورت مند نہ ہو تو کوئی جرم، کوئی سکینڈل وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد جنس کے حوالے سے اِس قدر آگے کیوں بڑھ جاتا ہے؟

ہم دیکھ رہے ہیں کہ عورت دنیا کے تقریباً ہر میدان میں مرد کے برابر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ روزگار، تعلیم، تحقیق اور سائنسی ترقی، غرض تمام تر ذہنی و جسمانی اِستعمال میں عورت خود کو مردوں سے کم تر رہنے نہیں دے رہی، پھر کیا وجہ ہے کہ جنس کے میدان میں اس کا رویہ مرد سے مختلف ہے؟ وہ مرد کی طرح جنونی کیوں نہیں ہوتی؟ کیوں مردوں کی طرح تعیش گاہیں، عریاں کلب اور کیبرے قائم نہیں کرتی؟ وہ عورتوں کیلئے مردوں کی جسم فروشی کی پذیرائی کیوں نہیں کرتی؟ حتیٰ کہ عورت کا کسی مرد کی جبری آبروریزی کا تو تصور ہی نہایت مضحکہ خیز اور مزاحیہ محسوس ہوتا ہے، آخر اِس تمام فرق کی وجہ کیا ہے؟

دراصل اِس کی وجہ ہماری ایک بنیادی غلط فہمی ہے۔ ہم نے خود ہی یہ فرض کر رکھا ہے کہ عورت اور مرد میں جنسی ضرورت کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس کی بنیاد پر ہم جو بھی قانون مرتب کرتے ہیں وہ غیر فطری ہونے کی وجہ سے خاطرخواہ نتائج نہیں حاصل کر پاتا اور فرسٹریشن کا باعث بنتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد میں جنسی طلب کی کیفیت مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں عورت اور مرد کا اِس میدان میں رویہ بھی مختلف ہے۔ اِس تصور کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہمیں اِنسان میں جنسی طلب کا مقصد سمجھنا ہو گا۔

ہم جانتے ہیں کہ اِنسان میں جنسی عمل کا وجود نسل اِنسانی کی پیدائش کا ذریعہ ہے۔ اب اِس عمل پیدائش میں چونکہ عورت اور مرد کا جسمانی اِستعمال مختلف ہے لہٰذا دونوں کی جسمانی ساخت کو اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے مختلف رکھا گیا ہے۔

جسمانی ساخت میں اختلاف کی وجہ نسل اِنسانی کی پیدائش اور نشوونما کی ذمہ داریاں ہیں۔ کوئی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی فراہمی قدرت نے اُس کی ماں اور باپ کے درمیان تقسیم کر رکھی ہے اور دونوں کی ذمہ داریوں کا اِس طرح تعین کیا ہے کہ ان کے جسموں کو ان کی اِس ڈیوٹی کے مطابق تعمیر کیا ہے (نسل اِنسانی کی پرورش و پرداخت کے بارے میں تفصیلی گفتگو چند صفحات کے بعد اپنی باری پر ہو گی، ہمیں اِس سے پہلے اِنسان کی جنسی خواہش کی حقیقت سمجھنی ہے۔)

جنسی تعلق کی طلب پیدا ہونے پر مرد کے جسم میں خون کا ایک خاص دباؤ امڈتا ہے جس سے ہر مرد بخوبی واقف ہے اور اِس کی تکنیکی تفصیل ہمارے لیے غیر متعلق ہے لہٰذا ہم اِس سے قطع نظر کرتے ہیں۔

یہ دباؤ یا باہ مرد کو فرسٹریٹڈ Frustrated کر دیتا ہے۔ جب تک وہ اپنی ضرورت پوری نہ کر لے، اُس کا ہیجان بڑھتا چلا جاتا ہے جبکہ عورت میں اِس معاملہ کی نوعیت یکسر مختلف ہے۔ ہر چند کہ ایک طبی اندازے کے مطابق عورت میں لطف کی مقدار مرد کے مقابلے میں نو سو فیصد زیادہ ہوتی ہے لیکن اِس کے باوجود اسے مرد کی طرح بے چینی پیدا کرنے والے کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہوتا جبکہ مرد کے لیے جنسی لذت کی مقدار اگرچہ عورت کے مقابلے میں بہت کم ہے مگر اِس کے لیے تشنگی اور بے چینی کا نشانہ صرف مرد ہی ہوتا ہے۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرد کے لیے جنسی تعلق کی حیثیت لازمی ضرورت کی ہے جبکہ عورت میں یہ تعلق ایک خواہش کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس حیثیت کو بھی ہم پانی اور کولا کی ہی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ مرد کے لیے جنسی تعلق کی حیثیت وہی ہے جو زندگی کے لیے پانی کی ہے یعنی اِس کے بغیر کوئی رہ نہیں سکتا جبکہ عورت کے لیے اِس کی حیثیت کولا کی سی ہے جو کہ ہر چند لذت میں پانی سے بڑھ کر ہے مگر فطری بنیادی لازمی ضرورت نہیں کہلایا جا سکتا اور لذت حاصل کرنے کے لیے ہی اِستعمال کیا جاتا ہے۔

اِس تجزیئے سے یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں۔

1۔ نارمل عورت میں جنسی لذت سے محرومی زیادہ سے زیادہ صرف حسرت کا باعث ہو سکتی ہے لیکن اُسے جرم پر آمادہ نہیں کر سکتی جبکہ مرد کی یہ ضرورت تشنہ رہ جائے تو وہ فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے، جرم پر آمادہ ہو سکتا ہے۔

2۔ مرد اور عورت کے لیے جسمانی تعلق کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ دونوں افراد ایک دوسرے کی ضرورت پوری نہیں کرتے بلکہ یہ عمل عورت کی طرف سے مرد کے لیے ایک "عطا" کا درجہ رکھتا ہے اور چونکہ اِس سے مرد کی ضرورت کی تسکین ہوتی ہے لہٰذا یہ عورت کا حق ہے کہ اِس کے بدلے میں وہ مرد سے اِس تسکین کا نعم البدل حاصل کرے۔ یوں اِس تصور کو ہم کلائنٹ اور کنسلٹنٹ consultant کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مانند بھی سمجھ سکتے ہیں اور ایک دوسری صورت یعنی آجر اور اجیر کے درمیان ایک معاہدہ روزگار کی مانند بھی تصور کر سکتے ہیں جس میں مرد آجر ہے اور عورت یعنی بیوی اُس کی اجیر جو اِس تعلق کی خدمات کے بدلے اُجرت میں مساویانہ کفالتی تحفظ حاصل کرتی ہے۔

3۔ اگر مرد کی اِس ضرورت کو بہ آسانی سیراب ہونے کا مثبت اور محفوظ راستہ عائلی قوانین میں دستیاب ہو اور مرد کے لیے عورت سے یہ تعلق قائم کرنا ایک مسئلہ نہ رہے بلکہ معمولی اور آسان بات ہو جائے یعنی اُس کا اِستحقاق قرار پا جائے تو نہ صرف جنسی جرائم کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ عورت کی خواہش بھی خودبخود سیراب ہوتی رہے گی اور اُس کے لیے بھی محرومی کا کوئی احتمال نہ رہے گا۔ (آئندہ صفحات میں یہاں تک جائزہ لیا گیا ہے کہ اِس کے بعد منشیات، شراب، حتیٰ کہ تمباکو نوشی تک کا اِستعمال ختم ہوتا چلا جائے گا۔)

اب رہا یہ سوال کہ قدرت نے عورت اور مرد کے درمیان اِس معاملے میں اِمتیاز کیوں برتا ہے اور مرد کے لیے اِس تعلق کو لازمی ضرورت بنا دینے کی قدرت کی سخت پالیسی کی وجہ کیا ہے؟ تو اِس بارے میں حقوق نسواں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم اصل حقیقت تک پہنچیں گے مگر اِس سے پہلے ضروری ہے کہ مرد کی اِس ضرورت کی وسعت کو سمجھ لیں۔

ہم میں سے اکثر لوگ اِس غلط فہمی پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کے "ہر" مرد کے لیے پوری زندگی میں ایک عورت کافی ہے۔ یہ فلسفہ ایک ایسی احمقانہ غلط فہمی پر مبنی ہے جو الجھنوں سے بھرے ہوئے کئی قوانین بنانے کا باعث بنی ہے۔ ہر مرد کے زندگی بھر کے لیے ایک عورت تک محدود ہونے کا فلسفہ محبت، ذہنی ہم آہنگی اور گھر گر ہستی کے ضمن میں تو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن اُس کی جنسی ضرورت کی آسودگی کے ضمن میں اِس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اِسی بات کو مزید گہرائی تک سمجھنے کے لیے جنسیات سے متعلق میڈیکل سائنس کی تینوں شاخوں کے علوم ہمیں جو تفصیل بتاتے ہیں اِس کا ماحصل یہ ہے۔

عورت کی جنسی عمر مرد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وہ بڑھاپا شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی لذت خواہش اور دلچسپی تقریباً ختم کر چکی ہوتی ہے جبکہ مرد کو پچاس ساٹھ برس کی عمر میں بھی اِس تعلق کی ضرورت محسوس ہو سکتی ہے۔

عورت کے جسمانی نظام میں ایامMenstrual Cycles کی صورت میں بہت سے ناغے رکھے گئے ہیں۔

حاملہ ہونے کے بعد اکثر اوقات ڈاکٹرز اِس تعلق پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔ زچگی کے بعد بھی عورت کئی ہفتوں تک اِس تعلق کی اہل نہیں ہو پاتی۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی مانع مباشرت نسوانی بیماریاں اُسے اکثر اوقات اِس تعلق سے دور کر دیتی ہیں اور اگر عورت غریب ہے یا کسی وجہ سے علاج کی خاطر خواہ سہولت حاصل نہیں کر پاتی تو یہ بیماریاں پیچیدہ اور طویل بھی ہو سکتی ہیں۔

دوسری طرف مرد کے لیے یہ تعلق ایک ایسی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے جو پوری نہ ہو تو اِس کے دباؤ سے اُس پر فرسٹریشن بلکہ ہیجان بھی طاری ہو سکتا ہے اور اُسے جرم پر آمادہ کر سکتا ہے۔

مرد کے جسمانی نظام میں حمل، زچگی، ایام یا پیچیدہ بیماریوں جیسے کوئی وقفے بھی نہیں ہوتے۔

ایسی مثالوں سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا دشوار نہیں کہ دنیا کے ہر مرد کے لیے پوری زندگی تک بلکہ کسی ایک مدت کے دوران بھی ایک ہی عورت سے اُس کی اِس ضرورت کا پورا ہوتے رہنا ممکن نہیں ہے، یقیناً بہت سے ایسے مرد ہوتے ہیں جن کو بیوی کی صحت مندی، ذہنی ہم آہنگی اور دیگر بہت سے عوامل کسی مزید راستے کی ضرورت سے بے نیاز کر دیتے ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں متعدد مرد ایسے ہو سکتے ہیں جن کے ازدواجی حالات ان کی اِس ضرورت کی تسکین کیلئے خاطر خواہ آسودگی فراہم نہ کر سکتے ہوں اور یوں انہیں فرسٹریشن میں مبتلا کر سکتے ہوں، جرم پر آمادہ کر سکتے ہوں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے ہر ایک مرد کا ایک وقت میں ایک ہی عورت تک محدود رہنا ممکن نہیں تو وہ جس کی ضرورت پوری نہ ہو رہی ہو، وہ ایک عورت کی موجودگی میں دوسری عورتوں سے تعلق کیسے قائم کرے یعنی عورت کے مانع وقفوں کے دوران یا اُس کے جنسی عمر پوری کر لینے Sexually Expired ہو جانے کے بعد وہ خود کو فرسٹریشن سے بچانے کے لیے کس قانون کا سہارا لے؟

دنیا کے مختلف معاشروں میں اِس سوال کے جوابات مختلف ہیں۔

بعض معاشروں میں مرد کو بیک وقت ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت ہے اور بعض میں ایک سے زیادہ شادیوں کی تو اجازت نہیں ہے البتہ شخصی آزادی کے تصور کی بنیاد پر کسی بھی عورت سے اُس کی رضامندی کے ساتھ یہ تعلق قائم کرنے کی آزادی ہے۔ آئیے ان دونوں جوابات کا اپنڈکس نکالیں۔

دراصل یہ دونوں جوابات غلط ہیں۔ شادی کا جو تصور ہمارے معاشروں میں مروج ہے اِس کا بنیادی مقصد جنسی ضرورت کی سیرابی ہے ہی نہیں۔ یہ شادی تو ہر مرد دُکھ سکھ میں رفاقت، اولاد، محبت یا ذہنی سکون کے لیے کرتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اُس کا ایک گھر، اپنی بیوی، اپنی اولاد یعنی ایسے افراد جو اُس کے دُکھ سکھ میں، احساسات میں، محبت و رفاقت میں شرکت دار ہوں، وہ جو اُس کے نام سے پہچانے جائیں اور جن کی ترقی پر خود وہ سربلند ہو۔ وہ افراد جن کے سامنے اُس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو، جو اُس کے درد پر چشم پر آب ہوں اور اُس کی خوشی پر کھل اٹھیں۔ وہ افراد جن کے لیے وہ جدوجہد کرے تو اُس کے لیے اطمینان قلب کا باعث ہو۔ گویا شادی کا وہ تصور جو ہمارے ذہنوں میں ہے اُس کا مقصد جنسی ضرورت کی تکمیل نہیں بلکہ اس کا تعلق ذہنی، جمالیاتی اور فکری احساسات سے ہے۔

ہر سمجھدار شخص جانتا ہے کہ محض جنسی تعلق کی خاطر دوسری شادی کرنے والے سے وہ سب نعمتیں چھن جائیں گی جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔

ایک سے زیادہ ایسی شادیوں کی جن کی مہذب معاشروں میں اجازت ہے، ان معاشروں میں بھی ان شادیوں کا مقصد جنسی ضرورت کی تسکین قرار نہیں دیا جاتا بلکہ ان نعمتوں میں سے کسی کا حصول قرار دیا جاتا ہے جو اوپر بیان کی گئی ہیں یا پھر کوئی سماجی، اِخلاقی، اصلاحی یا فلاحی ضرورت ہوتی ہے۔

اِس تجزیہ سے ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شادی کا وہ تصور جو ہمارے معاشروں میں مروج ہے، ہر مرد کی جنسی ضرورت کا حتمی حل ہرگز نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ اسے اِس ضرورت کی تسکین کا راستہ قرار دینا ہی غیر فطری اور معاشرے کے لیے مہلک ہے اور اِس ضرورت کی تسکین کا کوئی مثبت راستہ یعنی شادی کا کوئی اور وسیع تر تصور ان معاشروں میں دستیاب نہیں ہے۔

اب نام نہاد آزاد معاشروں میں مروج شخصی آزادی کے تصور پر مبنی اُس قانون کا جائزہ لیجئے جس کے مطابق مرد کو عورت کی رضامندی سے، شادی کے بغیر بھی یہ تعلق قائم کرنے کی اجازت ہے۔ خطرناک طبی پہلو جس میں ایڈز اور وی ڈی انفیکشن کا پہلو شامل ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اُس کا تفصیلی جائزہ تھوڑی دیر بعد لیا جائے گا۔ نفسیاتی پہلو سے بھی یہ اصل مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے کیونکہ رضامندی کا لفظ اپنے اندر دشواریوں کا وسیع مفہوم لیے ہوئے ہے۔ مرد کے لیے کسی عورت کو رضامند کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ اِس مقصد کے لیے دولت اِستعمال کرتا ہے تو ایک طرف ہوسِ زر وجود میں آتی ہے تو دوسری طرف جسم فروشی جنم لیتی ہے۔ وہ عورت کو رضامند کرنے کے لیے اُسے محبت کا فریب دیتا ہے تو ضمیر اور اِخلاقیات کو دفن کر دیتا ہے۔ یوں معاشرے میں منافقت اور دھوکا بازی فروغ پانے لگتی ہیں۔ وہ عورت کو متاثر کر کے اُس تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے تو شہرت اور اِختیارات کے لیے جنونی ہو جاتا ہے یا جسمانی طور پر اُسے متاثر کرنے کے لیے Aphrodisiacs اِستعمال کرتا ہے تو ان کے مضر اثرات کا شکار ہوتا ہے۔ عورت کی رضامندی حاصل نہ کر سکنے کی صورت میں جبر اور Rape کا ارتکاب کرتا ہے یا خاطر خواہ دولت میں کمی محسوس کرتے ہوئے ایسے جرائم کرتا ہے جن سے دولت حاصل ہو سکتی ہے، یا پھر ناکامی کے نتیجے میں نفسیاتی، منشیاتی یا طبی مریض بن جاتا ہے۔ چونکہ اُسے اپنی ضرورت کو ایک ہی دفعہ پورا کر کے مطمئن نہیں ہو جانا ہوتا بلکہ زندگی بھر اُسے بار بار پورا کرتے رہنا ہوتا ہے لہٰذا اُسے بہت زیادہ دولت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ اُس کی مدد سے وہ عورت کو اُس کی رضامندی کے لیے اُس کی پسندیدہ قیمت ادا کرتے رہنے کے قابل ہو سکے۔

درحقیقت مرد کے لیے مسئلہ عورت کی آمادگی کی شرط پوری کرنا ہے اور اِس کے بعد بیماریاں یعنی انفیکشن یا ایڈز کا خوف ایک الگ مسئلہ ہے۔

اب ہمارے لیے معاشرتی نظام کا ایک پوائنٹ بن گیا کہ اگر ہمیں مرد کی ضرورت پوری کرنے والا ایسا آسان راستہ دریافت کرنا ہے جس میں مرد کے لیے طبی حفاظت کے ساتھ آسودگی حاصل کر لینا ممکن ہو تو ہمیں شادی کا ایک ایسا متبادل نظام بھی تشکیل دینا ہو گا جو آجر اور اجیر کے درمیان معاہدۂ روزگار کی مانند طے ہو رہا ہو اور اجیر بیویوں کی تعداد ایک سے زیادہ بھی ممکن ہو۔ ان کے ساتھ جسمانی تعلق میں ان کی بار بار رضامندی کی شرط نہ ہو بلکہ شوہر کو اِس تعلق کا حق اِسی طرح حاصل ہو جس طرح کسی آجر کو اپنے ملازم سے متعینہ خدمات لینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اِس تعلق کے نتیجے میں انفیکشن کا احتمال پیدا نہ ہو سکے اور اِس میں بدنامی اور سکینڈل کی ممکنات بھی پیدا نہ ہو سکیں بلکہ معاشرے میں یہ تعلق قانونی طور پر تسلیم شدہ ہو۔

اِس سے پہلے کہ ہم اِس قانون کے لیے عورت کی حیثیت سے متعلق دیگر امور پر غور کریں، اِس تعلق کے طبی پہلوؤں پر نظر ڈالنا لازم ہے کیونکہ ہم جو نظام ترتیب دینے جا رہے ہیں اُس میں ایڈز اور انفیکشن کا کوئی احتمال نہیں ہونا چاہیے۔