چونکہ اِس بیماری کی پوری تفصیل اور مخففات Abbreviationsکی تشریح محض وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا بات وہاں سے شروع کی جا رہی ہے جو ہمارا اصل موضوع ہے۔

اِس ضمن میں میڈیکل سائنس نے جو شواہد مرتب کیے ہیں ان میں ایک نکتہ ایسا ہے جو میڈیکل سائنس کی ایک سنگین لغزش کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ عارضہ ایک وائرس کا مرہون منت ہے۔ اِس وائرس کو ایچ آئی وی HIV کا نام دیا گیا ہے جبکہ اِس کی درجہ بندی کی قسم کو آر این اے کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اِس وائرس کے اِنسانی جسم میں ملٹی پلائی کرنے سے پیدا ہونے والا انفیکشن اِنسانی جسم میں موجود قدرتی مدافعتی نظام کو "چند" سال میں بے اثر کر دیتا ہے لیکن اِس میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ اِس وائرس کی اثر پذیری کی مدت کا کوئی پیمانہ آج تک میڈیکل سائنس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ HIVکا کوئی مریض تو محض سات سال میں ہی ایڈز سے مر گیا اور کسی مریض کا بارہ سال تک یہ وائرس خون میں رہنے کے باوجود کچھ نہ بگاڑ سکا یعنی اُس میں ایڈز کی کوئی علامت نمودار نہ ہوئی۔

یہاں دو اہم سوالات اور HIV کے دیگر کسی بھی وائرس سے مختلف ہونے کے بارے میں ذکر ضروری ہے جس سے میڈیکل سائنس کی اِس بیماری کے بارے میں ناقص تھیوری کو سمجھنے میں آسانی ہو گی، اِس لیے کہ اِن دونوں سوالات کا تسلی بخش جواب میڈیکل سائنس میں نہیں ملتا۔

1۔ اِنسانی جسم کے لیے ضرر رساں وائرس کی فہرست میں یہ واحد وائرس ہے جو اگر ایک دفعہ بدن میں داخل ہو جائے تو مرتے دم تک پیچھا نہیں چھوڑتا جبکہ عارضہ پیدا کرنے والے دیگر وائرس اِنسانی جسم میں طویل عرصہ تک رہ نہیں پاتے،۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ اِس کی کوئی توجیہ میڈیکل سائنس میں مسلمہ نہیں ہے۔

2۔ یہ واحد وائرس ہے جس کے خلاف اِنسانی بدن میں اِس کے ملٹی پلائی ہوتے وقت بھی کوئی مزاحمت نہیں ہوتی جبکہ دیگر وائرس میں سے جب بھی کوئی وائرس اپنی نشوونما اور انفیکشن کا عمل شروع کرتا ہے، اِنسانی جسم اِس پر فوراً خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے اور آبلے، بخار، سوزش، درد، پھپھولے، بلغم وغیرہ، از قسم مختلف علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اِس فرق کی توجیہ Justification کیا ہے؟۔۔۔۔ کوئی نہیں۔

اِس ضمن میں ہمارے رفقائے کار نے جس تجزیئے کی طرف راہنمائی دی ہے اُس کی تفاصیل و جزئیات کا احاطہ تو یہاں ممکن نہیں، البتہ اُس کا ماحصل آسان زبان میں پیش خدمت ہے۔

یہ دونوں حقائق اگر غور کیا جائے تو ایک ہی سمت نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی ایسی وجہ ضرور ہے جس کی بنیاد پر اِنسانی جسم اِس وائرس کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا اور یوں وائرس کو Multiply کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔۔۔ اور وہ وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اِنسانی جسم میڈیکل سائنس کے پراپیگنڈے سے دھوکا نہیں کھاتا اور اِس بیرونی اور اجنبی قرار دیئے جانے والے وائرس کو اپنے لیے اجنبی ہی نہیں سمجھتا جبکہ میڈیکل سائنس کی تھیوری کے مطابق یہ اِنسانی جسم کیلئے ایک اجنبی آر این اے ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ یہ وائرس چمپینزی یعنی بندر سے اِنسان میں منتقل ہوا ہے۔

چونکہ اِنسانی جسم کا اپنے دشمن کو پہچان نہ سکنا قانون فطرت کے خلاف ہے لہٰذا وائرس کو اجنبی قرار دینے کی یہ میڈیکل سائنس کی تھیوری ایک قابل یقین تھیوری نہیں ہو سکتی چنانچہ یہ کہنا کہ یہ وائرس کسی دوسری مخلوق سے بنی نوع اِنسان میں آیا، غیر منطقی بات ہے اور ٹامک ٹوئیاں قرار دی جا سکتی ہے۔ اِس صورت میں صرف ایک گوشہ ایسا ملتا ہے جس کے ممکن العمل ہونے کے بارے میں ابھی تک میڈیکل سائنس میں غور ہی نہیں کیا گیا اور وہ گوشہ ہے وائرس کا بیرونی یا اجنبی نہ ہونا بلکہ خود اِنسان کے اندر ہی وجود حاصل کرنا۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایچ آئی وی کوئی ایسا خارجی وائرس نہیں ہے جو اِنسانی جسم کیلئے اجنبی ہو اور دیگر وائرس کی طرح باہر سے اِنسانیت پر حملہ آور ہوا ہو بلکہ یہ اِنسان کے اندر ہی وجود حاصل کرتا ہے اور اسی پروٹین کا جزو ہے جس سے اِنسان کے دیگر خلیات نمود حاصل کرتے ہیں۔

اِس نقطہ نظر کو ان شواہد سے مزید تقویت ملتی ہے کہ کئی مریضوں میں میڈیکل ٹسٹ کے دوران HIV پازیٹو نکلا لیکن وہ بارہ چودہ برسوں کے بعد بھی ایڈز کے شکار نہیں ہوئے حالانکہ اِس دوران وائرس ان کے خون میں موجود بھی رہا۔ اِس کا سیدھا سادہ مطلب یہ تھا کہ وہ HIV جو ان مریضوں کے خون میں ہے، ان کیلئے مہلک نہیں ہے۔ گویا ہر HIV ہر اِنسان کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ اسی شخص کیلئے مہلک ہوتا ہے جس سے اُس کی پروٹین مماثل ہوتی ہے۔۔۔ لیکن میڈیکل سائنس نے اس وائرس کے غیر مہلک ہونے کے جواز میں یہ غیر منطقی اور بے بنیاد مفروضے قائم کر لیے کہ یہ وائرس جو مہلک نہیں نکلا، یہ وائرس ہی کوئی دوسرا ہے اور یہ ایڈز پیدا ہی نہیں کرتا۔۔۔ یا یہ کہ ہر شخص میں اِس وائرس کی اثر پذیری کی شدت مختلف ہوتی ہے چنانچہ کچھ مریض دس بارہ سال تک بھی اِس کے انفیکشن کے شکار نہیں ہوئے اور کبھی نہ کبھی وہ ضرور ہوں گے، وغیرہ۔

بچپن میں ایک چٹکلہ سنا کرتے تھے کہ کوئی سائنسدان مینڈک پر تحقیق کر رہا تھا۔ اُس نے مینڈک کو میز پر بٹھا کر اُس کے عقب میں پٹاخا چھوڑا۔ مینڈک زور سے اچھلا۔ سائنسدان نے اُس کی ایک ٹانگ کاٹ دی اور پھر پٹاخا پھوڑا۔ اِس دفعہ مینڈک کم اچھلا۔ سائنسدان نے اُس کی دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی۔ اِس دفعہ پٹاخا پھوڑا تو وہ بالکل نہ اچھلا۔ اِس سے سائنسدان نے یہ محققانہ نتیجہ اخذ کیا کہ مینڈک کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو وہ بہرا ہو جاتا ہے۔

کچھ اِسی قسم کی واردات میڈیکل سائنس کے ساتھ بھی ہوئی چنانچہ اب وہ مینڈک کو بہرا تصور کرنے پر مصر ہے اور اِن ممکنات پر غور کرنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ ہر H.I.Vہر شخص کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ صرف اُنہی کیلئے مہلک ہوتا ہے جن سے مماثل Compatibleہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر دو افراد کے ڈی این اے باہم فیوز ہو جائیں تو اِن میں سے ایک کی مثبت دھاری Strand دوسرے کی منفی دھاری کے ساتھ اِس طرح مخلوط ہو سکتی ہے کہRNA بنا سکے۔ اب چونکہ یہ دونوں Strands مختلف افراد کے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہیں اِس لیے اِن کی پیوستگی عدم توازن کی شکار رہے گی چنانچہ ایسا RNA جو پروٹین جمع کرے گا وہ ان دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے انہی دو افراد کے Tخلیات پر چپک کر ایڈز کا باعث بنے گی جن کے ڈی این اے باہم فیوز ہوئے تھے۔ اِسی غیر متوازنRNA کا نام HIV ہے۔ یہ HIV چونکہ صرف انہی دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہے لہٰذا صرف ان کے اور ان کی اولاد کیلئے مہلک ہے، باقی اِنسانوں کیلئے نہیں۔

یہ ایک ایسی تھیوری ہے جو میڈیکل سائنس میں زیر غور ہی نہیں لائی گئی اور وہاں مینڈک کے بہرا ہونے کی رٹ لگائی جاتی رہی یعنی جان چھڑانے کیلئے یہی کہا جاتا رہا کہ جو وائرس مہلک نہیں نکلا وہ HIV تھا ہی نہیں بلکہ وہ اسی قبیل کا کوئی دوسرا وائرس تھا، یا یہ بے سروپا مفروضہ قائم کر لیا گیا کہ ہر HIV کے ہر اِنسان کیلئے مہلک بن جانے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے جس کا کوئی پیمانہ بھی ممکن نہیں ہے، وغیرہ۔

ہماری تھیوری میں یہ سوال ابھی تشنہ ہے کہ دو مختلف افراد کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے کا موقع کہاں اور کیسے مل سکتا ہے .؟

میڈیکل سائنس HIV کے عمل اِنتقال کے جن ذرائع کا ذکر کرتی ہے ان میں ایک Multiple Sexual Partners یعنی ایک وقت میں ایک سے زیادہ، مختلف اصناف کے افراد کا باہمی فطری جنسی تعلق ہے۔

یہ انتہائی مبہم بات ہے جو ایک جسم فروش عورت کی زندگی اور دو بیویاں رکھنے والے شوہر کی عائلت کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رہی ہے۔ مزید یہ کہ اِس میں لفظ "وقت" کی کوئی حد بندی نہیں ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی پیشہ ور عورت خود کو ہر شب ایک نئے مرد کے سامنے پیش کرتی ہے تو بھی یہ Multiple ہو گا اور اگر کوئی عورت بیوہ ہو جائے اور پھر دوسری شادی کرے تو بھی یہ Multiple ہو گیا۔ گویا میڈیکل سائنس کی اِس Definition کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمر بھر میں جب بھی کبھی کسی اِنسان کا Sexual Partner تبدیل ہوا، یہ عمل ملٹی پل کی تعریف میں آ گیا یعنی اُس کے لیے اِس انفیکشن کا امکان پیدا ہو گیا، خواہ یہ امکان بہت موہوم سا ہی ہو۔

یہ تصور اگر درست مان لیا جائے تو پوری اِنسانیت کے لیے اِس بیماری سے بچاؤ تقریباً ناممکن بن جاتا ہے کیونکہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ دنیا کے "ہر ایک" مرد کے لیے غیر فطری ضبط کیے بغیر زندگی بھر ایک ہی عورت تک محدود رہنا ممکن نہیں ہے۔ گویا جب تک ہم مرد اور عورت میں فطری تولیدی عمل کے تناظر میں Multiple کے مفہوم کی درستگی اور اِس کے ضمن میں لفظ "وقت" کا تعین نہ کر لیں، نہ تو ہم وائرس کے فیوژن کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اِنسانیت کو اِس مہلک مرض سے حتمی طور پر محفوظ رہنے کا یقینی راستہ فراہم کر سکتے ہیں چنانچہ لازم ہے کہ اِس ضمن میں "وقت" کے تصور کی تعریف مرتب کر لی جائے۔

ہر عورت کو قدرت نے ایام یعنی Menstrual Cycles کی صورت میں خود کار صفائی کے بے مثل نظام کا عطیہ دیا ہے۔ جب کسی عورت کا ایک مرد کے ساتھ عمل مجامعت وقوع پذیر ہوتا ہے تو اُس مرد کے اثرات عورت کے تولیدی اعضاء میں سرایت کر جاتے ہیں۔ اگر اِس عمل کے نتیجے میں عورت کا پاؤں بھاری نہ بھی ہو تو بھی وہ اُس مرد سے تب تک Impregnated رہتی ہے جب تک اُس کا اگلا دورۂ ایام خاطر خواہ طریقے سے مکمل نہ ہو جائے۔

ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین Cycles کے مکمل ہو جانے کے بعد وہ آئینے کی طرح شفاف ہو جاتی ہے اور اِس میں اُس مرد کے کوئی اثرات باقی نہیں رہتے جس سے اِس کی سابقہ Intramenstrual Clean Period کے دوران مجامعت واقع ہوئی تھی یا ہوتی رہی تھی۔ ایام کا یہی نظام عورت کے لیے قدرت کی طرف سے خود کار صفائی کا عطیہ ہے اور اِسی تصور پر Multiple کا درست مفہوم اُستوار ہوتا ہے کہ اگر کسی عورت کی ایک طہر Intramenstrual Clean Period کے دوران ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ مجامعت وقوع پذیر ہو تو یہ Multiple کے مفہوم پر پورا اترے گا اور اِس وائرس کے لیے Culture Media فراہم کرنے کا باعث بنے گا کیونکہ اِس صورت میں کہ جب اُس عورت کے اندر پہلے سے ہی ایک مرد کے اثرات موجود ہںف یعنی وہ پہلے ہی ایک مرد سے Impregnated ہے، اگر کسی دوسرے مرد کے اثرات بھی اُس میں سرایت کرتے ہیں تو وائرس کے لیے سازگار ماحول جسے میڈیکل کی اصطلاح میں کلچر میڈیا کہا جاتا ہے، دستیاب ہو جاتا ہے۔ چونکہ اُس وقت دو مختلف مردوں کے ڈی این اے اُس کے رحم میں بیک وقت موجود ہوں گے لہٰذا یہ امر "قرین قیاس" ہے کہ وہ باہم فیوز ہو جائیں اور ان کے Strands کے اختلاط کے ذریعے ایک ایسا آر این اے تشکیل پا جائے جو ان تینوں افراد یعنی دونوں مرد اور کلچر میڈیا فراہم کرنے والی اُس عورت کے لیے مہلک HIV کی شکل میں نشوونما حاصل کرنے لگے۔ تب یہ HIV اگرچہ ان کی اولادوں کے لیے بھی مہلک ہو گا تاہم اگر یہ کسی چوتھے فرد کو خون کی Transfusion کے ذریعے منتقل ہو گا تو اُس کے لیے غیر مہلک ہو گا، باوجودیکہ اُس کے خون میں موجود رہے گا۔

اب اِس لفظ "قرین قیاس" کی تفصیل کا جائزہ بھی لینا مناسب ہو گا یعنی ایسے دو افراد کونسے ہو سکتے ہیں جن کے ڈی این اے اِس قدر مماثل ہوں کہ ان کے باہم فیوز ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہوں۔ اِس سوال کا جواب ہے "خون کا رشتہ"۔ جب جنسی تعلق قائم کرنے والے افراد کے مابین کوئی ایسا جینیاتی مشابہت کا تعلق ہو جیسا ایک ہی خاندان کے افراد میں ہوتا ہے، تو ان کے ڈی این اے کے باہم فیوز ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی معاشرے میں جنسی تعلق کی اُستواری پر نگاہ احتساب نہ رہے یعنی زنا عام ہو تو چونکہ افراد کی ولدیت مشکوک ہوتی ہے لہٰذا ایسے معاشرے میں اِس امر کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں کہ جو افراد جسمانی تعلق قائم کریں وہ ایک ہی جینیاتی فریم کے مالک ہوں، بالفاظ دیگر ان کے درمیان خون کا رشتہ موجود ہو خواہ انہیں اِس حقیقت کا علم ہی نہ ہو۔ اِس صورت میں ان کے ڈی این اے کے فیوز ہونے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔

اِس نظریے کی صداقت کے لیے یہ مشاہدہ کافی ہے کہ ایڈز سے مرنے والوں کی زیادہ تعداد انہی معاشروں میں ہے جہاں ایک عورت کے ایک وقفہ طہر یعنی Intramenstrual Period کے دوران دو یا زیادہ مردوں سے جسمانی تعلق یعنی زنا کی آزادی ہے۔

Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والے HIV کے غیر مہلک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایڈز کی تاریخ میں ایسے بچوں کی کوئی تعداد مرقوم نہیں ہے جو سات برس کی عمر میں ایڈز سے مر گئے ہوں اور ان کی ماؤں کو ایڈز نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں ان بچوں کو ایچ آئی وی موروثی طور پر نہیں بلکہ خون کے ذریعے منتقل ہوا ہو۔ اگر Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والا ایچ آئی وی مہلک ہوتا تو ایسے بچوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہوتی۔

اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی عورت اِس امر کو ملحوظ رکھے کہ وہ ایک طہر کے دوران خود کو ایک ہی مرد تک محدود کرے گی تو خواہ اُس کی زندگی میں بیسیوں Sexual Partners بھی کیوں نہ تبدیل ہوں، یہ عمل کسی صورت بھی Multiple کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ اِسی طرح اگر ہر مرد یہ امر ملحوظ رکھے کہ وہ کسی ایسی عورت کے ساتھ مجامعت نہ کرے جو اِس وقفہ طہر کے دوران پہلے ہی کسی دوسرے مرد سے Impregnated ہو چکی ہو تو خواہ اُس مرد کا بیک وقت ایک سے زیادہ عورتوں سے بھی جسمانی تعلق کا سلسلہ اُستوار ہو، یہ عمل نہ تو آر این اے کو مہلک ایچ آئی وی کی ہیئت اِختیار کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی Multiple کی تعریف میں آ سکتا ہے

اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرد اگر صرف انہی عورتوں سے تعلق رکھے جو ایک طہر کے دوران صرف اسی تک محدود رہنے والی ہوں اور ان عورتوں کے درمیان کوئی جینیاتی مشابہت، کوئی خون کا رشتہ نہ ہو تو اُس کا یہ عمل نہ تو Multiple کی تعریف میں آ سکتا ہے اور نہ ہی اِس سے کوئی Culture Media ڈیویلپ ہو سکتا ہے چنانچہ کوئی ایچ آئی وی، کوئی انفیکشن وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔

مردوں کی ہم جنس پرستی (لواطت) بھی اِسی ذیل میں آتی ہے کیونکہ اِس سے دو مردوں کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے یعنی ایچ آئی وی بننے کیلئے ایسا کلچر میڈیا دستیاب ہو جاتا ہے جس میں عورت کی کوئی شراکت یا ضرورت نہیں ہوتی۔

اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمیں اُس اِنسانیت کو جو اِس انفیکشن کی ابھی شکار نںیا ہوئی، ایک محفوظ اور یقینی راستہ فراہم کرنا ہے تو ہمیں اِس تجزیئے کو قانون کی شکل میں ڈھالنا ہو گا یعنی ایک عورت کے دو مختلف مردوں کے ساتھ اِس تعلق کیلئے تین طہر کے درمیانی وقفے کی شرط کو جس کا نام عدت ہے، پوری دنیا میں قانون کا درجہ دیا جائے تاکہ نسل اِنسانی کی پیدائش کا محفوظ عمل معاشرے کی نگرانی اور ضمانت کے ساتھ جاری رہ سکے۔