ہم بخوبی جانتے ہیں کہ قدرت نے اِنسان میں جنسی خصوصیت اِس لیے رکھی ہے کہ نسل اِنسانی کی پیدائش و پرداخت کا عمل وقوع پذیر ہوتا رہے۔ اِس ضمن میں قدرت نے جو ترتیب وضع کی ہے اس کا جائزہ لینے پر ہم دیکھتے ہیں کہ عورت اِس عمل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ بچے کو ایک مدت تک نہایت احتیاط سے اپنے پیٹ میں رکھتی ہے، پھر درد کا سامنا کرتے ہوئے اُسے جنم دیتی ہے، اُس کی نشوونما کی نگرانی اور حفاظت کرتی ہے اور اُس کی خاطر اپنے جسمانی آرام و سکون کی پروا نہیں کرتی۔ وہ بچے کو مامتا، محبت اور شعور دیتی ہے تاکہ اُس کی شخصیت کی تعمیر شروع ہو سکے۔ اِس سارے عمل میں اُس بچے کے باپ کا اس کے ساتھ کوئی نمایاں اشتراک نہیں ہوتا۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ مرد کے وجود کا مقصد عائلت کیا ہے؟ کیا عورت کے اندر اولاد کا بیج رکھ دینے کے بعد اُس کی ذمہ داری ختم ہو گئی؟؟ کیا یہ ایک احمقانہ تصور نہیں ہو گا؟؟؟

اِس سوال کا درست جواب یہی ہو سکتا ہے کہ جہاں عورت کی ذمہ داری بچے کو ایک طویل اور تکلیف دہ عمل کے بعد جنم دینا یا اُس کی نشوونما کی نگرانی کرنا، اُسے مامتا، محبت اور شعور دینا ہے وہاں مرد کی ذمہ داری اُس عورت اور بچے کو کفالتی تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ عورت کی مکمل اور غیر متفکر توجہ نسل اِنسانی کی تعمیر اور نگہداشت پر مرکوز ہو سکے۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں مرد کی فطری ضرورت جنسی تعلق ہے وہاں عورت کی فطری ضرورت کفالتی تحفظ کا حصول ہے جس کی تکمیل نہ ہونے پر وہ فرسٹریشن کی شکار ہو سکتی ہے،جرم پر آمادہ ہو سکتی ہے۔

اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ مرد کیلئے عورت کو کفالتی تحفظ فراہم کرنے کی پابندی نہیں ہے تو مرد کی تخلیق کا مقصد ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ یہی وہ احمقانہ غلط تصور ہے جس کی بنیاد پر آج بہت سے نام نہاد مہذب معاشروں میں وومن لبریشن یعنی آزادیِ نسواں کے نام سے تحریکیں وجود میں آتی اور زور پکڑتی ہیں۔

فطرت کا قانون ہے کہ عورت بچے کو جنم دے یا اُس کی ابتدائی نشوونما یعنی رضاعت کی ذمہ داری سنبھالے جبکہ مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ عورت کو کفالتی تحفظ فراہم کرے۔ اگر عورت پر بیک وقت دونوں ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جائے یعنی نسل اِنسانی کی پیدائش یا ابتدائی پرورش اور خود اپنی کفالت اور معاش، تو یہ عمل اِس لیے غیر فطری ہو گا کہ اِنسان کے پاس بیک وقت دو مختلف جگہوں پر ڈیوٹی دینے کی اِستطاعت نہیں ہے۔ یہ مطالبہ ہی فوق البشریت کے دائرے میں آئے گا۔ عقل اِس فلسفے کو تسلیم کر ہی نہیں سکتی کہ مرد کو جس پر نسل اِنسانی کی پیدائش اور لمحہ لمحہ ابتدائی نشوونما کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، اُس عورت کی کفالتی ذمہ داری سے ہی مبرا قرار دے دیا جائے جو اِس کی نسل کو بڑھانے کیلئے بہت سی جسمانی تکلیف اور آرام و سکون کی قربانی برداشت کر رہی ہے۔

شادی کا تصور بھی اسی بنیاد پر اُستوار ہے۔ مہذب معاشروں وہی ہو سکتا ہے جس میں شوہر کی ذمہ داری یہ ہو کہ بیوی سمیت اپنے تمام اہل خانہ یعنی اولاد کیلئے کفالتی تحفظ فراہم کرے جبکہ عورت کی ذمہ داری یہ ہو کہ وہ نسل اِنسانی کے فروغ کے عمل کو کماحقہٗ سر انجام دے۔

اِس نقطہ نظر کو مان لینے کے بعد ایک وضاحت مزید رہ جاتی ہے، اور وہ یہ کہ معاشرے میں کچھ عورتیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو بوڑھی ہو چکی ہوں یا بانجھ ہوں تو کیا اِس صورت میں بھی اُس عورت کی کفالتی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے؟

اِس سوال کا جواب بھی بہت آسان ہے اور اِس کا فلسفہ وہی ہے جو ہر معاشرہ بے روزگاری الاؤنس یا پنشن کیلئے رکھتا ہے کیونکہ یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ اُس فرد نے اپنی ڈیوٹی خاطر خواہ طور پر انجام دی ہے یا دینے کی کوشش کی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی فرد چاہے اپنی ڈیوٹی دے چکے یا دینے سے معذور ہو تو ہر صورت وہ اُس نعم البدل کا مستحق ہے جو اُسے ڈیوٹی کی صورت میں ملنا تھا۔ یہی فلسفہ ہم ایک عورت کی فطری ڈیوٹی کیلئے بھی متعین کریں گے۔ اگر وہ بوڑھی یا بانجھ ہو یا کسی دیگر جسمانی یا ذہنی مجبوری کی بناء پر عارضی یا مستقل طور پر اپنی فطری ڈیوٹی سے دور ہو گئی ہو تو بھی اُس سے کفالتی تحفظ وصولنے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔ عورت کو اپنے لیے کفالتی تحفظ خود پیدا کرنے پر صرف اسی صورت میں مجبور کیا جا سکتا ہے جب وہ اپنی فطری ڈیوٹی یعنی نسل اِنسانی کی پیدائش یا پرداخت کے عمل سے انکار کر دے۔

تاریخ کا جائزہ لینے پر ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب میں ایسا ہی ایک قانون جس کے مطابق عورت کا معاشی اِنحصار مرد پر تھا، تقریباً تمام معاشروں میں مروج تھا مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ شخصی آزادی اور بنیادی اِنسانی حقوق کے شعوری اِرتقاء کے ساتھ ساتھ یہ قانون ناکام ثابت ہونے لگا اور وومن لبریشن کی تحریک وجود میں آئی۔

اِس قانون کی جو بادی النظر میں فطرت کے قریب محسوس ہوتا ہے، ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ اِسے سمجھنے کیلئے پہلے اُن اعدادوشمار اور نتائج پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہو گا جو رد عمل کی اِس تحریک آزادیِ نسواں کے مختلف مراحل اور ثمرات کی صورت میں ہمارے سامنے آئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اس قانون کا تجزیہ بھی کرتے رہیں گے۔

فرداً فرداً ہر معاشرے کا جائزہ لینا ممکن نہیں لہٰذا یہاں صرف امریکی معاشرے کو زیر نظر لایا گیا ہے جہاں اِس تحریک کی اِبتدا اور اِنتہا ہوئی۔

امریکہ میں امن و امان قائم رکھنے اور اِنسدادِ جرائم کیلئے دنیا کا جدید ترین اور منظم ترین نظام موجود ہے لیکن پھر بھی نیویارک میں اوسطاً ہر تین منٹ بعد ایک قتل اور ڈیڑھ منٹ بعد چوری یا ڈکیتی کی واردات ہو جاتی ہے۔ صرف واشنگٹن ڈی سی میں جرائم کا گراف اِس قدر تیزی سے بلند ہو رہا ہے کہ اوسطاً ہر گھنٹے کے دوران عورتوں پر ہونے والے مجرمانہ حملوں کی تعداد پچیس سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اِن حملوں کا شکار ہونے والیوں کی عمریں پانچ سے پچھتر سال تک ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ بہت سی وارداتیں جو رپورٹ نہیں ہوتیں، اِن کے علاوہ ہیں۔

یہ وہ معاشرہ ہے جہاں آج سے تقریباً تیس برس قبل وومن لبریشن کا تصور ایک تحریک کی شکل میں پروان چڑھا۔ ممکن ہے کہ اِس اِنقلاب کے بانی قابل احترام سمجھے جائیں، اِس لیے کہ عورت کی حالت بہتر بنانے کیلئے اٹھ کھڑے ہونا بہرحال ایک قابل قدر جذبہ ہے، لیکن ان سے حماقت یہ سرزد ہوئی کہ وہ اِس کوشش میں فطری تقاضوں سے صرفِ نظر کر بیٹھے۔ ان کی رائے میں عورت کے اِستحصال کا سبب یہ تھا کہ اُس کا معاشی انحصار مرد پر تھا۔۔۔ اور یہی وہ اکتسابی غلطی تھی جس نے اِس تحریک کو ٹریجڈی بنا دیا۔

اُس دَور میں عورت اور مرد کے باہمی سماجی تعلقات کا عمومی منظر کچھ اِس قسم کا تھا کہ باپ یا شوہر خود تو اپنے لیے ہر قسم کی خرافات، فحاشی، بدکرداری، عیاشی روا رکھتا مگر گھر پہنچ کر بیوی یا بیٹی پر نت نئی پابندیاں عائد کرتا، غیر مردوں سے بات کرنے پر بھی ڈانٹ ڈپٹ کرتا، مختلف بہانوں سے ان کا خرچ بند کر کے معاشی آمریت کا مظاہرہ کرتا اور انہیں اپنے سامنے گڑگڑانے پر مجبور کرتا، غصے کا اظہار کرنے اور جھڑکنے یا زد و کوب کرنے کے بہانے ڈھونڈتا اور ہر لمحہ عورت کو بے بسی اور بیچارگی کا احساس دلاتا۔

اِس کے نتیجے میں وومن لِبریشن یعنی تحریک آزادیِ نسواں کی ابتدا ہوئی۔ امریکی حکومت فلاحی معاشرے کے اصول پر افراد کو بے روزگاری الاؤنس کا تحفظ دے ہی چکی تھی چنانچہ قانونی طور پر بالغ ہوتے ہی عورت کیلئے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ اپنے ڈکٹیٹر باپ کو آنکھیں دکھا سکے۔ اِسی طرح شوہر کو بھی آنکھیں دکھانا گویا طے ہو گیا۔ اِس کا منطقی نتیجہ یہی نکلا کہ ڈکٹیٹر مرد اور اس پر معاشی انحصار رکھنے والی عورت کا ایک ہی چھت کے نیچے رہنا ممکن نہ رہا چنانچہ اِس سے پہلے کہ وہ مرد جس پر اُس عورت کی کفالت کا انحصار تھا، اُسے گھر سے نکالتا، وہ خود ہی گھر چھوڑنے پر تیار ہو جاتی۔ اِس تحریک نے گھر سے بھاگنا جرم کے دائرے سے باہر کر دیا چنانچہ اِس عمل میں احساسِ جرم اور ضمیر بھی رکاوٹ نہ رہا۔ بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنا ایک عام سی بات ہو گئی کیونکہ بنیادی حقوق اور شخصی آزادی کے نام پر بننے والے قوانین نے شادی کے بغیر ہی ازدواجی زندگی کو جائز ٹھہرا دیا تھا۔اس طرح عورت کے ایک IntraMenstrual Period کے دوران ایک سے زیادہ مردوں سے جسمانی تعلق کو قانونی تحفظ مل گیا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب مغرب کی عورت نے اِس حقیقت سے آنکھیں موند لیں کہ وہ مرد کے چنگل سے نکلنے کیلئے فطرت سے بغاوت کا مہلک فیصلہ کر بیٹھی ہے۔

مختصر یہ کہ اُس دور میں جنسی اِنقلاب نے سر اٹھایا جس کا لب لباب یہ تھا کہ اِنسانوں میں جنس کے نام پر کوئی تفریق نہیں ہے، یعنی یہ فرض کر لیا گیا کہ عورت اور مرد میں جنسی طلب کی حیثیت یکساں ہے اور عورت کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے جس طرح کی روش مناسب سمجھے، اِختیار کرے۔ اُس نے سوچا کہ ہر عیاشی اور ہر آزادی جسے وہ بچپن سے مرد کے تصرف میں دیکھتی آئی ہے، اب وہ خود اِس سے لطف اندوز ہو گی۔

قدرتی طور پر یہ تحریک مردوں کے نوجوان طبقے میں مقبول ہو گئی۔ مرد جانتا تھا کہ عورت حصولِ حقوق کے جوش میں اِس پر کفالتی انحصار کی ڈور توڑ کر بے سہارا اور غیر محفوظ ہو چکی ہے اور اب اپنے مستقبل سمیت مرد کے رحم و کرم پر ہے۔ اُس نے اقدار بدل ڈالیں اور عورت کو سہل الحصول بنانے کیلئے نئی سماجی لغت ترتیب دی جس میں بری باتوں کو عین جائز اور درست قرار دے کر ان کا پرچار شروع کر دیا۔

کچھ ہی دیر میں اِن غیر فطری اقدار کے نتائج مرتب ہونا شروع ہو گئے اور بیوقوف عورت آزادیَ نسواں کی خوش فہمی میں مرد کا کھلونا بن گئی چنانچہ مرد نے فراوانی کی وجہ سے کیلنڈر کے اوراق کی طرح عورتیں بدلنا شروع کر دیں۔ وہ تو اپنی قدرتی بناوٹ کی وجہ سے بہرحال نیا رہتا لیکن عورت پے در پے تبادلوں کی تاب نہ لا کر بد شکل ہونے لگی۔ حصولِ حقوق کی سر خوشی نے اُسے باقاعدہ گھر بسانے کے خیال سے غافل رکھا اور جب ہوش آیا تو وہ مرد کیلئے بطور بیوی قابل قبول نہیں رہی تھی۔

اُس آزاد عورت کی اگلی نسل نے اِس سے سبق سیکھنے کی کوشش کی لیکن فطرت کا قانون وہ بھی نہیں سمجھ سکی۔ اُس نے رائے قائم کی کہ اپنے آئیڈیل مرد سے ایسی شادی کرنے کیلئے جس میں اُس کی آزادی کے حقوق قائم رہیں اور اُس کا شوہر اُس کو کوئی حکم نہ دے سکے، ایسی شادی کیلئے مرد کی سماجی برابری لازم ہے تاکہ اُس پر کفالتی انحصار نہ کرنا پڑے اور ایسی برابری کیلئے اُس جیسا معاشی مقام حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ مقام اعلیٰ ذریعہ معاش ہے اور اُس کیلئے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہے جس کیلئے وقت اور سرمایہ دونوں درکار ہیں۔ یوں اُس نے یہ حکمت عملی اِختیار کی کہ والدین جہاں تک برداشت کریں، تعلیم کیلئے ان سے سرمایہ اینٹھا جائے اور کوئی پارٹ ٹائم جاب کے ذریعے سرمائے کی ممکنہ کمی پوری کی جائے یعنی بھر پور توجہ کریئر Career بنانے پر صرف کی جائے اور جب تک یہ منزل سر نہ ہو، اُس وقت تک گھر بسانے کا پروگرام موخر رکھا جائے۔ ظاہر ہے اِس صورت میں اُس کے پاس اپنی فطری ڈیوٹیوں یعنی نسل اِنسانی کی پیدائش اور پرورش کو وقت پر ادا کرنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔

آج بھی یہی صورت حال ہے، جو عورت اپنا سوشل سٹیٹس بلند کرنے کی کوشش میں دولت کمانے کیلئے ہاتھ پیر مارتی ہے اُسے صحیح وقت پر اپنا گھر اپنی جنت نہیں ملتی اور اُسے مامتا کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ جو سٹیٹس کی پروا نہیں کرتی وہ احساسِ کمتری کی شکار رہتی ہے اور جو دونوں باتیں ایک ساتھ نبھانا چاہتی ہے اُس کیلئے مسائل کی بھرمار ہو جاتی ہے اور وہ ایک ذمہ داری بھی کماحقہ ادا نہیں کر پاتی جس سے مزید الجھنیں نمودار ہو جاتی ہیں۔

چند برس قبل پرنسٹن یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات نے ایک تفصیلی جائزہ شائع کیا جس میں چند سنسنی خیز حقائق کی نشاندہی کی گئی۔

اِس جائزے کے مطابق امریکہ میں عورتوں کی آبادی بڑھ کر کل آبادی کے ساٹھ فیصد سے زائد ہو گئی ہے۔ اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو اعلیٰ تعلیم کیلئے کوشش کرتی ہیں۔ گریجوایشن کے بعد اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے میں تین چار برس لگ جاتے ہیں۔ اگر یہ ڈگری کسی تحقیق سے متعلق ہو تو اِس سے بھی زیادہ مدت درکار ہوتی ہے چنانچہ اعلیٰ تعلیم کے مکمل ہوتے ہوتے عورت کی عمر اٹھائیس انتیس برس ہو جاتی ہے اور خاطر خواہ ملازمت کی تگ و دو میں سر میں چاندی جھلملانے لگتی ہے یعنی وہ تیس کی عمر پھلانگ کر زندگی کے چوتھے عشرے میں قدم رکھ چکی ہوتی ہے۔

ملازمت حاصل ہونے پر اُس کی با عزت معاشرتی مقام حاصل کرنے کی ضرورت تو کسی حد تک پوری ہو جاتی ہے لیکن اُس وقت تک ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو چکا ہوتا ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے اِس جائزے کے مطابق امریکی عورت اٹھائیس اور اکتیس برس کے درمیان اپنی قدرتی زرخیزی عدم اِستعمال کی وجہ سے اِس حد تک کھو دیتی ہے کہ اُس کے ماں بننے کے امکانات نصف رہ جاتے ہیں اور اگر عمر چونتیس سے زیادہ ہو جائے تو یہ امکانات صرف پانچ فیصد رہ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ جائزہ ٹھوس میڈیکل بنیادوں پر قائم ہے۔

ایک معروف ماہنامے "دی فیملی" نے انکشاف کیا ہے کہ ان بیس برسوں کے دوران جب جنسی اِنقلاب نے معاشرے میں پذیرائی حاصل کی تھی، طلاق کی شرح میں ایک سو ترانوے فیصد اضافہ ہوا۔

اِس جائزے سے نسوانی ذہنی اور جسمانی بناوٹ کے تناظر میں جو نتیجہ نکھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ عورت پر ضروریاتِ زندگی بشمول معاشرتی اعلیٰ مقام یعنی برتری کی ضرورت کی اپنے لیے فراہمی کا بوجھ ڈالا ہی نہیں جا سکتا۔ دوسری طرف اگر مرد کو عورت کی کفالت سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو اُس کا وجود ہی بے مقصد ٹھہرتا ہے لہٰذا اِس فطری حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ عورت کو اِنسان کی پیدائش اور نشوونما کی ذمہ داری سنبھالنا ہے اور مرد کو اِس عمل کو بیرونی تحفظ دینا یعنی عورت اور بچے کو ضروریات زندگی فراہم کرنا ہے۔ اِسی تصور کو مہذب معاشرے شادی کا نام دیتے ہیں۔

اب ہم اُن وجوہات کی طرف آتے ہیں جن کی وجہ سے وومن لبریشن کی تحریک ابھری۔ ہمیں اُس عائلی قانون میں موجود نقائص کا تجزیہ کرنا ہے جو بظاہر مرد اور عورت میں ذمہ داریوں کی تقسیم فطری انداز میں کرتا ہوا محسوس ہوتا تھا مگر معاشرے میں بری طرح ناکام ہوا۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ اُس قانون کے تحت وضع ہونے والی سماجی ترتیب یہ ہے کہ عورت کے پاس کفالتی تحفظ حاصل کرنے کا راستہ صرف ایک ہوتا ہے، شادی کے بعد وہ باپ یا سرپرست کے زیر کفالت رہتی اور شادی کے بعد شوہر کے دیئے ہوئے کفالتی تحفظ پر زندگی گزار دیتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے اُس کا سرپرست یا شوہر اُس کی ضروریات زندگی کو تسلی بخش طریقے سے پورا نہ کرے تو اُس کے پاس کوئی ایسا متبادل راستہ نہیں ہے جس کے ذریعے اُسے معاشرے میں کوئی دوسرا مساویانہ کفالتی تحفظ فوراً مہیا ہو سکے۔

یہی وہ نکتہ تھا جسے ہم نے سمجھنے میں غلطی کی اور اِس غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ قانون میں عورت کو متبادل راستہ تو کیا فراہم ہوتا، الٹا مرد کو عورت کی کفالت سے بچنے کا جواز مل گیا۔ کئی معاشروں میں یہ قانون بنا دیا گیا کہ عورت اپنے کفالتی تحفظ کی خود ذمہ دار ہے جبکہ بچے کو پیدا کرنا اُس کی اپنی صوابدید پر ہے۔ اب فطرت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تسخیر نہیں ہو سکتی، آپ کے خود ساختہ بنیادی حقوق اور ان پر مبنی قوانین کچھ بھی کہتے رہیں، اگر وہ غیر فطری ہیں تو منفی نتائج ضرور سامنے آئیں گے جیسا کہ قبل ازیں جائزہ لیا جا چکا ہے۔

یہاں اِس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اِس بحث کا مقصد عورت کو روزگار حاصل کرنے سے روکنا نہیں ہے۔ اُسے پورا حق ہے کہ وہ معاشرے میں جس حیثیت کو اِختیار کرنا چاہے، اُسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اگر کوئی عورت نسل اِنسانی کے فروغ کی ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتی اور نہ ہی کفالتی تحفظ کی طلب گار ہے تو ظاہر ہے کہ اُسے اِس کا پورا حق حاصل ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی عورت اِنسانی نسل کو فروغ دینے کی فطری ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے یا حتی المقدور حد تک دے چکنے کے بعد معاشی میدان میں بھی کوئی ایسی کارکردگی دکھانا چاہتی ہے جس سے اُس کی فطری ڈیوٹی (اگر وہ دے رہی ہے تو) متاثر نہ ہو، تو بھی اُسے اِس سے روکا نہیں جا سکتا۔ اِس بحث سے تو صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عورت کو اِس امر یعنی معاشی ذمہ داریوں پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ فطری ڈیوٹی کو ڈسٹرب کیے بغیر اپنی خوشی سے انہیں اٹھانا چاہتی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ اُس کی قابلیت اور عظمت ہی تصور کی جا سکتی ہے، مجبوری نہیں۔ اسے اپنے لیے ذریعہ معاش پیدا کرنے کیلئے صرف اسی صورت میں مجبور کیا جا سکتا ہے جب وہ نسل انسانی کی پیدائش یا پرورش کی ذمہ داریاں اٹھانے سے انکار کر دے۔

اب ہم سمجھ چکے ہیں کہ دنیا میں عورت اور مرد کی ذمہ داریاں اگرچہ مختلف ہیں مگر عظمت اور اہمیت کے اعتبار سے کسی کو دوسری پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ فطرت کا اصول ہے کہ عورت جب نسل اِنسانی کے فروغ کی ذمہ داری نبھاتی ہے تو مرد اِس عمل کو بیرونی تحفظ دیتا ہے اور اِسے قلعہ بند کرتا ہے تاکہ مسائل اِس عمل تک نہ پہنچ سکیں۔ یہ دونوں ذمہ داریاں زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور دونوں کی حیثیت برابر ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے رد عمل میں مرد خود کو عورت سے برتر سمجھنے لگتا تھا اور ڈکٹیٹر بن بیٹھتا تھا اور کئی معاشروں میں اب بھی یہی کیفیت ہے جو کہ بلاشبہ ناقابل برداشت بھی ہے اور غیر فطری بھی، چنانچہ آزادی نسواں یا اِس سے ملتی جلتی تحریکوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔

آیئے مرد کی اِس منفی سوچ کی وجوہات کو سمجھیں۔

1۔ اِس کی پہلی وجہ تو وہی ہے جو برتری کی ضرورت کے ضمن میں بیان ہو چکی ہے یعنی مرد یہ سمجھتا ہے کہ اُسے کفالتی ذمہ داریوں کو نبھانے میں جس قدر دشواریوں کا سامنا ہے وہ عورت کی ذمہ داریوں کی مشقت سے زیادہ ہیں لہٰذا وہ عورت کی نسبت عظیم تر ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر معاشرے میں برتری اور افضلیت کا معیار دولت مندی کی نمائش نہ ہو بلکہ اِخلاقی اقدار بن جائیں تو مرد کیلئے کفالتی ضروریات کی فراہمی معمولی بات ہو جائے اور یوں اُس کی لاشعوری سوچ جو اُسے عورت سے زیادہ مشکل ذمہ داریاں سنبھالے ہونے کا احساس دلاتی ہے، ختم ہو جائے۔

2۔ میڈیکل سائنس کے نظریات میں یہ غلط مفروضہ شامل کر دیا گیا کہ جنسی تعلق کی صورت میں مرد اور عورت ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ یہ مفروضہ قدرتی طور پر مرد کے ذہن میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر اِس تعلق سے دونوں نے ایک دوسرے کی ضرورت پوری کی تو حساب برابر ہو گیا، اب وہ عورت کو کفالتی تحفظ کیوں فراہم کرے؟ اِس سوچ کے ردِعمل میں وہ کفالت کے عوض عورت کا آقا بن جاتا ہے۔

دوسری طرف حقوقِ نسواں کے نام پر اِس طرح کے قوانین نافذ کر دیئے جاتے ہیں جن کے مطابق شوہر کیلئے اپنی بیوی سے بھی جسمانی تعلق قائم کرنے کے لیے ہر مرتبہ اُس کی اجازت اور رضامندی حاصل کرنا لازم ٹھہرتا ہے ورنہ اُس کا یہ فعل قانون کی نظر میں جبری آبرو ریزی Rape کا جرم شمار ہوتا ہے۔ اِس طرح کے قوانین کے باعث جھلائے ہوئے مرد کی طرف سے معاشرے میں شادی کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہونے لگتی ہے جس سے عورت کے فرسٹریٹڈ ہونے کے امکانات اور بڑھ جاتے ہیں۔ اگر فساد کی جڑ یعنی میڈیکل سائنس کا غلط مفروضہ نکال باہر پھینکا جائے اور یہ تصور کر لیا جائے کہ جسمانی تعلق مرد کے لیے تو بنیادی ضرورت ہے لیکن عورت کی طرف سے مرد کے لیے ایک "عطا" کا درجہ رکھتا ہے تو شادی کی صورت میں مرد کی طرف سے عورت کو فراہم ہونے والا نعم البدل، اپنے ساتھ فطری جسمانی تعلق کا کلی اِختیار مرد کو عطا کرنے کے عوض عورت کا حق ٹھہرے گا تب نہ تو احسان مند مرد کی آمریت یا آقائیت کی ممکنات رہیں گی اور نہ ہی اپنا حق وصول کرنے والی عورت کو وومن لبریشن کے نام پر مفاد پرست عناصر اِستعمال کر سکیں گے۔

3۔ ہم سمجھ چکے ہیں کہ قدرت نے عورت اور مرد کی سماجی ذمہ داریاں ایک دوسرے سے مختلف رکھی ہیں اور اِسی مقصد کیلئے دونوں کے جسموں کو ان کی ضرورتوں کے مطابق بنایا ہے۔ مرد کو معاش کا اہل رکھنے کیلئے اس کی جسمانی ساخت اور ذہنی طرزِ فکر کو سخت اور ٹھوس بنایا اور عورت کو نسل اِنسانی کے فروغ کی اہلیت دینے کیلئے اس کے جسم اور ذہن میں لچک اور نرمی رکھی۔ مرد کے ڈِکٹیٹر شپ کی طرف مائل ہونے کی ایک وجہ یہی ہے کہ وہ خود کو جسمانی قوت میں عورت سے برتر پاتا ہے۔ چند صفحات پہلے ہم اِس امر پر غور کر رہے تھے کہ مرد میں جنس کو ضرورت کیوں بنا دیا گیا جبکہ عورت میں اِس کی حیثیت بنیادی ضرورت کی نہیں ہے؟ اب اِس اِمتیاز کی وجہ آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔ قدرت نے عورت کو مرد کی جسمانی قوت سے محفوظ رہنے کیلئے ایک پلس پوائنٹ دیا ہے مگر یہ پوائنٹ اِس قدر بڑا اور شدید ہے کہ اگر بات یہاں ختم کر دی جاتی تو فطرت کے توازن کا پلڑا عورت کے حق میں بھاری پڑ جاتا۔ اگر جنس کو مرد کیلئے بنیادی ضرورت لیکن عورت کیلئے بے معنی بنا دیا جاتا تو عورت اپنی تمام تر جسمانی کمزوری کے باوجود نہ صرف مرد پر ڈِکٹیٹر بن بیٹھتی بلکہ نسل اِنسانی کی پروڈکشن سے ہی انکار کر دیتی لہٰذا اِس سے عورت کو باز رکھنے کیلئے اُس کی جنسی لذت میں مرد کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ اِس طرح یہ امر عورت کیلئے زندگی کی اہم اور قابل ذکر خواہش کا درجہ تو حاصل کر گیا لیکن فرسٹریشن کا سبب بننے والی بنیادی ضرورت نہ بنا۔ اگر مرد کے سامنے اِس پلس پوائنٹ کی حقیقی تصویر آ جائے تو اُس کا اپنی جسمانی قوت کے بالاتر ہونے کا احساس معدوم ہو جائے۔

اِس ساری ترتیب کا مقصد صرف یہ تھا کہ نسل اِنسانی کی پیدائش بھی ہوتی رہے اور عورت اور مرد کی معاشرتی برابری بھی قائم رہے۔ اگر ہم اِس بنیادی اصول پر کہ جنسی تعلق مرد کیلئے عورت کی طرف سے ایک "عطا" ہے، قوانین وضع کرتے تو بھی مرد کو ڈِکٹیٹر شپ کا راستہ فراہم نہ ہوتا جو عورت کے اِستحصال کا سبب بنا۔

اب ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک فطری قانونِ عائلت وہی ہو سکتا ہے جو مرد کو عورت سے یہ تعلق قائم کرنے کا غیر مشروط حق دے اور اِس کے عوض عورت کو مرد سے اِس کا نعم البدل وصول کرنے کا حق دے۔

بعض معاشروں میں شادی کا تصور بھی یہی ہے مگر ہماری کم عقلی یا ہمارے قانون ساز اِداروں کی مفاد پرستی یہ رہی کہ شادی کے اِس تصور کو نہایت محدود کر دیا گیا۔ اب شادی کا مفہوم نہ صرف یہ کہ ہر معاشرے میں مختلف ہے بلکہ کہیں بھی نقائص سے مبرا، وسیع اور ہمہ گیر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی شدہ مرد بھی اپنی اِس ضرورت کی تکمیل کے لیے مثبت راستہ دستیاب نہ ہونے پر چور دروازہ ڈھونڈتا رہتا ہے خواہ اُسے یہ دروازہ کسی جرم کے ذریعے ہی کیوں نہ ملے۔

شادی کا ایک دوسرا فطری تصور معاہدۂ روزگار سے مشابہ بھی ہے جس میں شوہر آجر کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بیوی سے جسمانی تعلق کی خدمت "وصول" کرتا ہے یا اولاد کی ابتدائی پرورش کی خدمات لیتا ہے اور اِن میں سے کسی ایک خدمت کے عوض نعم البدل ادا کرتا ہے۔

اب غور طلب پہلو ہمارے سامنے یہ ہے کہ اگر یہ دوسرا معاہدہ جو ایک روزگار کی مانند ہے اور جس میں شوہر کی حیثیت ایک آجر کی سی ہے تو اِس میں شوہر کو اِس امر پر کس طرح راغب کیا جائے کہ وہ اپنی بیوی کو اُس کی خدمات یعنی جسمانی تعلق یا اولاد کی پرورش کا یہ نعم البدل کسی داشتہ کی طرح رقم کی صورت میں نہیں بلکہ مکمل مساویانہ کفالتی تحفظ کی صورت میں ہی ادا کرے تاکہ عورت کی اصل ضرورت کی تکمیل ہو سکے؟ ہم اِس معاہدے میں مرد کیلئے کیا کیا تراغیب متعین کر سکتے ہیں؟۔۔۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم مسلمہ بنیادی اِنسانی حقوق کے تقاضے کے مطابق مرد کو اِس امر پر یعنی عورت کو صرف کفالتی تحفظ ہی دینے پر مجبور نہیں کر سکتے کیونکہ اِس مجبوری کے نتیجے میں اُس کیلئے اِس معاہدے کی دلکشی ختم ہو جائے گی اور وہ بدستور چور دروازے تلاش کرتا رہے گا جس سے معاشرے میں جنسی جرائم ختم نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اُس کیلئے اُسی طرح کی غیر معمولی ترغیب ڈھونڈنا ہو گی جیسی ہم نے برتری کی ضرورت کے ضمن میں آجر کیلئے ڈھونڈی تھی۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ اِس ترغیب کا ماخذ عورت کی ذات ہی ہو سکتی ہے۔ یہ تمام جستجو ہمارے موضوع کا حصہ ہے جو انہی صفحات میں بتدریج آپ کے زیر نظر آئے گی۔

4۔ مرد کی ڈکٹیٹر شپ کو اِختیار کرنے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ مروجہ تصورِ عائلت میں عورت اُس کی نام نہاد کفالتی سہولت کو قبول کرنے پر مجبور ہے۔ اگر وہ اِس سہولت سے غیر مطمئن ہو کر اُسے چھوڑ کر چلی جائے تو معاشرتی قانونی نظام میں فوری متبادل راستہ موجود نہ ہونے پر اپنے لیے ضروریاتِ زندگی یعنی خاطر خواہ کفالت کی تلاش میں اُس کا حشر ہو جائے گا۔ یہ بات عورت بھی جانتی ہے لہٰذا وہ مجبور اور پھر فرسٹریشن کی شکار ہوتی رہتی ہے، کم عقلی کی وجہ سے وومن لبریشن جیسی تحریکیں چلاتی اور پھر ٹھوکریں کھاتی رہتی ہے۔

اِس کی وجہ بھی وہی ہے کہ ہم نے شادی کے تصور کو محدود کر دیا ہے۔ اگر ہم ایک ایسی شادی کی بھی قانونی آزادی حاصل کر سکیں جو معاہدۂ روزگار کی مانند تصور ہو اور اِس کے تحت آجر شوہر بیک وقت ایک سے زیادہ اجیر بیویوں کو مساویانہ کفالتی تحفظ فراہم کرنے کا مختار ہو تو عورت کی اِس مجبوری کی کوئی ممکنات نہیں رہیں گی۔ وہ جانتی ہو گی کہ اگر اُس کے شوہر کا رویہ حاکمانہ اور ظالمانہ ہو گیا یا کفالتی معیار میں مساوات کا توازن بگڑا تو اُسے کفالتی تحفظ حاصل کرنے کے لیے دوسرا شوہر یعنی کفیل آجر تلاش کرنے میں کسی دِقت یا تاخیر کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اِس لیے کہ اُس عورت کے ساتھ یہ عائلی معاہدہ کرنے کیلئے بہت سے نیک سیرت شادی شدہ مرد بھی تیار ہوں گے کیونکہ معاشرے میں کسی شادی شدہ مرد پر یہ پابندی نہیں ہو گی کہ وہ چونکہ پہلے ہی اپنی ایک بیوی کو یہ کفالت فراہم کر رہا ہے لہٰذا اہل اور طلبگار ہونے کے باوجود کسی اور عورت کے ساتھ یہ معاہدہ نہیں کر سکتا۔۔۔ یہ بات چونکہ اُس کا ظالم شوہر بھی جانتا ہو گا لہٰذا اُس کی حیوانی جبلت کو بھی جو اُسے ڈکٹیٹر بننے پر اکساتی ہے، نکیل پڑی رہے گی اور یہی اِس عورت کا اصل ہدف ہے۔ اِس سے یہ وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ اِس دوسرے انداز کی شادی کی مرد کو غیر مشروط اجازت دے دینے سے معاشرے میں سوکنیں نہیں بڑھ جائیں گی بلکہ اِس کے نتیجے میں صرف یہ ہو گا کہ بیوی پر ظلم کرنے والے کمینہ خصلت شوہروں کا رویہ درست ہو جائے گا کیونکہ دوسری صورت میں ایسے مرد کو دھتکارنا عورت کیلئے آسان ہو چکا ہو گا اور پھر گھر گرہستی جیسی نعمت سے وہی محرومی ان مردوں کا مقدر ٹھہرے گی جس کے وہ ایک فطری اور جنت نظیر معاشرے میں سزاوار ہونے چاہئیں چنانچہ اِس محرومی سے بچنے کا طریقہ ان کے پاس یہی ہو گا کہ وہ اپنا وطیرہ درست کر لیں اور بیوی کو اپنے رویے کے بارے میں کوئی شکایت نہ ہونے دیں۔ اِس تصور کا وضاحتی منظر نامہ آئندہ ابواب میں زیر نظر آئے گا۔

5۔ فطرت نے اولاد کی پیدائش اور اُس کی ابتدائی نشوونما، عورت کی دو الگ الگ ڈیوٹیاں بنائی ہیں جس کا ثبوت یہ طبی حقیقت ہے کہ جب تک نومولود بچہ ماں کا دودھ پی رہا ہوتا ہے، اُس ماں کے حاملہ ہونے کے امکانات ایک فیصد بھی نہیں ہوتے۔ اگر کسی وقت ایسا ہو جائے کہ ماں بچے کو دودھ نہ پلا سکے یا جب بچے کی غذا میں ماں کے دودھ کے علاوہ کچھ اور نباتاتی غذائیں بھی شامل کی جانے لگیں تو بچے کی نشوونما کا سو فیصد انحصار ماں کے دودھ پر نہیں رہتا چنانچہ اُس عورت کے دوبارہ ماں بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی عورت کسی وقت ایک بچے کو پیٹ میں اور دوسرے کو گود میں نشوونما دے رہی ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ ڈبل ڈیوٹی انجام دے رہی ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی عورت اپنے شوہر کیلئے اُس کے ایک بچے کے حمل اور پیدائش اور دوسرے بچے کی پرورش کے ساتھ ساتھ اُس کا گھر بھی سنبھالتی ہے یعنی اُس کیلئے گوندھنا پکانا، دھونا ستھرانا بھی کر رہی ہے تو وہ ٹرپل ڈیوٹی انجام دے رہی ہے اور یہ ڈیوٹیاں مرد کا اُس پر حق نہیں ہے بلکہ اُس کا اپنے مرد کیلئے ایثار ہے، لیکن یہ فطری اصول خود عورت نے قانون کا حصہ بننے نںیپ دیا کیونکہ اِس کے نتیجے میں اُس مرد کیلئے جو عورت سے ایکسٹرا ڈیوٹی نہ کروانا چاہے، دوسری شادی کی قانونی اجازت کا جواز پیدا ہو سکتا تھا۔ اب چونکہ بیک وقت دو تین ڈیوٹیاں کسی نقص اور کمی کے بغیر خاطر خواہ طور پر ادا کرنا اِنسانی اِستطاعت سے باہر ہے لہٰذا ان ذمہ داریوں کی انجام دہی میں عورت کی طرف سے سقم اور کوتاہی ہو جانا تقریباً یقینی ہے اور اِس پر مرد کا اشتعال میں آنا اور ڈکٹیٹر بننا بھی قدرتی امر ہے۔ عورت کے لیے درست طریقہ تو یہ تھا کہ اگر وہ زائد ڈیوٹیاں ادا کرنا چاہتی ہے تو قانونی طور پر مرد کو اِس ایثار کا احساس دلاتی لیکن اُس نے مرد کو اِس طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دیا اور جب منفی نتائج مرتب ہوئے تو پناہ حاصل کرنے کیلئے وومن لبریشن کی کانٹوں بھری آغوش ڈھونڈی۔

آج صورت حال یہ ہے کہ مرد کو اپنی جنسی ضرورت پوری کرنے کیلئے عورت کو رضامند کرنے کی شرط کا سامنا ہے۔ وہ عورت کو مختلف طریقوں سے آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اپنی غرض پوری کر سکے۔ وہ منافقت کا نقاب اوڑھ کر محبت، وارفتگی اور ذہنی ہم آہنگی کا ڈرامہ کرتا ہے تاکہ آخری حد تک رسائی حاصل کر سکے۔ وہ شراب، منشیات اور Aphrodisiacs کا سہارا لیتا ہے تاکہ ایک بہتر مرد کی صورت میں اُسے متاثر کر سکے۔ وہ جسمانی زبردستی اور Rape کے ذریعے عورت کو مجبور کرتا ہے تاکہ اُس کی رضامندی کی غیر فطری شرط کے خلاف لاشعوری طور پر احتجاج کر سکے۔ اِس ساری تگ و دو کے پیچھے محرک وہی ہے کہ اُس کو اپنی ضرورت پوری کرنے کی راہ میں عورت کی بار بار آمادگی کی کٹھن رکاوٹ کا سامنا ہے۔ اگر کبھی وہ کوشش کر کے یعنی دولت، منافقت، مردانگی یا زبردستی کے زور پر یہ رکاوٹ پھلانگ جائے تو وہ حاصل ہونے والی تسکین کو اِسی پھلانگنے کا عوضانہ سمجھتا ہے اور اِس تسکین کے بدلے میں عورت کو اُس کفالتی تحفظ کی فراہمی ضروری ہی نہیں سمجھتا جو اُس عورت کی اصل ضرورت ہے۔۔۔ اور یہ عین عقلی بات ہے کہ کسی بھی چیز کی قیمت دو مرتبہ ادا نہیں کی جاتی۔ جب ایک مرد کسی طرح عورت کو آمادہ یا مجبور کر کے یہ قیمت ادا کر چکا ہے تو وہ یہ قیمت دوبارہ کیوں ادا کرے گا؟

یہی وجہ ہے کہ وہ وومن لبریشن کے بنیادی فلسفہ یعنی معاشی اور کفالتی انحصار کی اپنی اپنی ذمہ داری پر بخوشی مان گیا کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ کفالتی تحفظ کی فراہمی اور جسمانی تعلق کیلئے عورت کی بار بار رضامندی کی شرائط ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ وہ عورت کو مساویانہ کفالتی تحفظ صرف اسی صورت میں فراہم کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے جب عورت کے ساتھ جسمانی تعلق کا اِسے ہر وقت حق حاصل ہو اور اِس میں اُس عورت کا "موڈ" موافق ہونے کی قانونی اہمیت نہ ہو۔۔۔ اور یہ تصور صرف اُسی شادی کے نظریئے میں موجود ہو سکتا ہے جس کے مطابق مرد کو اِس تعلق اور اولاد کی پیدائش کے بدلے میں اُسے مساویانہ کفالتی تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اگر عورت اِن دونوں اُمور یعنی شوہر کے ساتھ جسمانی تعلق یا اولاد کی پیدائش اور ابتدائی پرورش میں سے کسی امر کا اِختیار اپنی مرضی اور صوابدید پر رکھنا چاہے گی اور یہ کہے گی کہ بچہ پیدا کرنے یا نہ کرنے کا اِختیار میرا ہے، تو فطری طور پر مرد سے کفالتی تحفظ وصولنے کا اِستحقاق کھو دے گی۔ یہ تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ کسی ایک طویل مدت کیلئے بھی دنیا کے "ہر" مرد کا ایک ہی عورت تک محدود رہنا اور اِس کے باوجود پرسکون رہنا ممکن نہیں اور یہ بھی کہ ہمارے معاشروں میں مروجہ شادی کا تصور اِس مقصد کیلئے کافی نہیں ہے۔

اگر ہم ایک ایسا قانون بنانے میں کامیاب ہو جائیں جس کی رو سے مرد کو شادی کے مروجہ تصور کے ساتھ ساتھ ایسی شادی کی آزادی بھی مل جائے جو معاہدۂ روزگار کے اصول پر اُستوار ہو اور جس سے اُس کو عورت سے جنسی تعلق کا حق اور اِختیار حاصل ہو سکے تو چونکہ عورت کی آمادگی کی اُسے مجبوری نہیں رہے گی لہٰذا اِس شرط کو پورا کرنے کیلئے وہ جو منفی قدم اٹھاتا ہے ان کا بھی کوئی وجود نہیں رہے گا۔

اب یہاں تین نکات سامنے آتے ہیں۔

1۔ شادی کا مروجہ تصور مبہم اور محدود نامکمل یا غیر فطری ہے اور شائستہ معاشروں میں بھی مرد اِسے مجبور ہو کر اِس لئے اِختیار کرتا ہے کہ اُسے شادی کے عین فطری راستے دستیاب ہی نہیں ہیں۔ اِس کی مثال صاف اور آلودہ پانی کی سی ہے۔ آج دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی آلودہ پانی اِس لے پی رہی ہے کہ اُسے صاف پانی میسر ہی نہیں ہے۔ بالکل اِسی طرح آج اِنسانیت شادی کا غیر فطری تصور اِس لئے اِختیار کرتی اور اِس کے نتیجے میں جنسی جرائم کا سامنا کرتی ہے کہ اُسے صاف پانی یعنی فطری قانونی تصورات دستیاب ہی نہیں ہیں۔ شادی کا فطری تصور مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ ہے جو کنسلٹنسی یا ایمپلائمنٹ دونوں طرح سے اُستوار کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد کیلئے وہ کونسی ترغیب ہو سکتی ہے جس کے لالچ میں وہ عورت کیلئے اُس کی ازدواجی خدمت کے نعم البدل میں کوئی رقم متعین کرنے سے ایک قدم اور آگے بڑھنے پر بے اِختیار آمادہ ہو اور اُس عورت کو اُس کی اصل ضرورت یعنی اپنے مساوی مکمل کفالتی تحفظ دے؟

اِس سوال کا جواب وہی ہے جس کا جائزہ ہم گزشتہ صفحات میں برتری کی طلب پر گفتگو کے دوران لے چکے ہیں یعنی عورت کا حق اِستعفیٰ۔

2۔ عورت کی اصل ضرورت مساویانہ کفالتی تحفظ ہے۔ شائستہ معاشروں میں وہ شادی کر کے جنسی تعلق کا مشروط حق شوہر کو دیتی ہے اور اِس کے عوض کفالتی تحفظ حاصل کرتی ہے مگر یہ راستہ چونکہ محدود اور نامکمل ہے اور شادی کے بعد بھی بہت سے ایسے حقوق جن پر فطری اصول کے مطابق کفیل شوہر کا اِستحقاق و اِختیار ہونا چاہیے، چونکہ اُسے قانوناً حاصل نہیں ہوتے مثلاً جسمانی تعلق کیلئے عورت کی ہر بار رضامندی کی شرط، اولاد پیدا کرنے اور اُس کی پرورش کرنے کا صوابدیدی اِختیار اور ایک سے زائد بیویوں کا اِستحقاق وغیرہ، لہٰذا شادی مرد کی آخری ترجیح بن کر رہ جاتی ہے۔ مشرقی معاشروں میں جہیز کے چلن کی سب سے بڑی وجہ مرد کی یہی بے بسی ہے۔ اِسی کے نتیجے میں شادی کے بعد بھی فرسٹریشن سے جھنجھلائے ہوئے مرد کی عورت پر ڈکٹیٹرشپ وجود میں آتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو شادی کا ایسا مکمل راستہ دستیاب ہونا چاہیے جس میں اُس کا شوہر جو اُس کو مساویانہ کفالتی تحفظ فراہم کرے، اُس کا ایسا کلائنٹ یا آجر ہو جس کے نام وہ اپنا حق اِستعفیٰ منتقل کر چکی ہو اور فطری تصور کے مطابق مذکورہ سارے اِختیارات اُس کے شوہر کو حاصل ہوں۔

شادی کا ایک تصور وہ ہے جو آج کے بعض مسلم ممالک کے عائلی قوانین میں "نکاحِ زوجیت" کہلاتا ہے۔ اِس معاہدے میں عورت مرد کیلئے نسل اِنسانی کی پیدائش کی خدمات انجام دیتی اور اُس سے مساویانہ کفالتی تحفظ وصول کرتی ہے اور وہ حق مہر کی صورت میں اپنا حق اِستعفیٰ اپنے شوہر کو منتقل کرتے ہوئے درحقیقت یہ ضمانت دیتی ہے کہ وہ اِس معاہدے کی موجودگی میں یہ خدمات صرف اپنے شوہر تک محدود رکھے گی اور یہ معاہدہ جب چاہے توڑ نہیں سکے گی یعنی اُس وقت جب شوہر کو اِس کی ضرورت ہو گی، وہ اِس خود سپردگی سے دست بردار نہیں ہو گی۔ یہ معاہدہ دو ہم پلہ افراد کے درمیان ہوتا ہے جس میں ایک فریق نے نسل اِنسانی کی پیدائش کیلئے اپنی سروسز Services فراہم کرنا ہوتی ہیں جبکہ دوسرے نے ان سروسز کے عوض اُس کی فیس کے طور پر کفالتی تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ نوعیت کے اعتبار سے یہ ویسا ہی معاہدہ ہے جیسا آپ کوئی عمارت تعمیر کروانے کیلئے آرکی ٹیکٹ انجنیئر سے، اپنے علاج معالجے کا مستقل بندوبست کرنے کیلئے اپنے فیملی ڈاکٹر سے یا قانونی معاملات سے مستقل طور پر نبٹتے رہنے کیلئے کسی وکیل سے ایک کلائنٹ کے طور پر کرتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ اِس میں سروسز فراہم کرنے والے فریق یعنی بیوی کی سروسز صرف اپنے کلائنٹ یعنی شوہر تک محدود ہوتی ہیں اور وہ ایک کلائنٹ کی موجودگی میں کسی دوسرے کلائنٹ سے یہ معاہدہ نہیں کر سکتی، اِسی لیے فیس کے طور پر مکمل اور مساویانہ کفالتی تحفظ کی شرط رکھی گئی ہے تاکہ اُسے کسی دوسرے کلائنٹ کی احتیاج نہ رہے۔

یہ تصور اگرچہ فطرت سے ہم آہنگ ہے لیکن ہر دَور اور ہر علاقے کی سماجی خاندانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ دَور میں اِس کی صورت اِس قدر مسخ کر دی گئی ہے کہ مذکورہ حقوق اِس میں بھی شوہر کو خاطر خواہ انداز میں منتقل نہیں ہوتے چنانچہ یہ تصور بھی نامکمل رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان معاشرے بھی جنسی جرائم سے پاک نہیں ہیں۔ اِس کمی کے علاوہ ان معاشروں میں مروج اِس تصور میں دو ایسے غیر معمولی خلا بھی ہیں جو نکاحِ زوجیت کے اِس تصور کو معاشرے میں ہر مرد کی فرسٹریشن کے خاتمے کی ضمانت بننے سے معذور کر دیتے ہیں اور یوں اُس مرد کو عورت پر ڈکٹیٹر بننے پر اکساتے ہیں۔

پہلا خلا یہ ہے کہ کئی معاشروں میں مرد کو ایک ہی عورت تک محدود رکھنے کیلئے اُس کی دوسری شادی کو انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ "زندگی بھر کیلئے ایک مرد اور ایک عورت" کے فلسفے نے جس کی بنیاد پر دوسری شادی کو مشکل بنا دینے کا قانون وضع کیا گیا ہے، خود عورت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور اُس کیلئے معاشرے میں کسی شادی شدہ مرد کی دوسری بیوی بننے کا راستہ مسدود کر کے اُس کیلئے متبادل کفالتی تحفظ حاصل کرنا دشوار کر دیا ہے لہٰذا وہ بیچاری بھی اگر کسی خبیث ظالم شوہر کے پلے بندھی ہوتی ہے تو اُس کی ڈکٹیٹرشپ کو برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

اِسی طرح باہمی رضامندی کے بغیر علیحدگی یا طلاق حاصل کرنے کے قوانین اِس طرح کے بنا دیئے گئے ہیں کہ اِس طلاق کے نتیجے میں اکثر و بیشتر مرد کو غیر معمولی مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے چنانچہ وہ اِس سے گریز کرتا ہے لیکن بیوی کی کسی طبی مجبوری یا نفسیاتی عدم تعاون یا کسی اور وجہ سے اگر اُس کیلئے اپنی ضرورت کی تکمیل کا مثبت راستہ مسدود ہو تو پھر جب شادی شدہ ہونے کے باوجود اُس کی ضرورت پوری نہیں ہوتی تو چور دروازے اور ڈکٹیٹر شپ اُس کا قدرتی رد عمل بن جاتا ہے۔

دوسرا خلا یہ ہے کہ عورت کیلئے اولاد کی پیدائش اور پرورش کی الگ الگ ذمہ داریاں ہونے کا تعین بھی ان معاشروں کے مروجہ عائلی قوانین میں نہیں ہے۔ اِس عدم تعین کے نقصان پر ہم گزشتہ سطور میں نظر ڈال چکے ہیں۔

زوجیت کا یہ معاہدہ چونکہ آجر اور اجیر کا معاہدہ نہیں لہٰذا اِس کی رُو سے حق اِستعفیٰ یعنی حق مہر کی واپسی قیمت کا علیحدہ سے تعین کرنے کا عائلی تصور بھی اِس نکاح کے قانون میں نہیں ہوتا۔ اِس میں صرف یہ سیدھی سادی اجازت ہی ہوتی ہے کہ عورت اپنا وہی حق مہر واپس کر کے علیحدگی کا حق حاصل کر سکتی ہے جو اُس نے نکاحِ زوجیت کے وقت وصول کیا تھا۔ اِسے خلع کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں واپسی قیمت کے علیحدہ سے تعین کا تصور اِس لیے نہیں ہے کہ اِس قانونِ نکاح کی رو سے شوہر چونکہ آجر نہیں ہوتا بلکہ کلائنٹ ہوتا ہے لہٰذا اگر کسی وقت اُسے اپنا معاہدۂ نکاح مزید برقرار نہ رکھنا ہو تو اُس کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ اپنے دیے ہوئے حق مہر کو بھول جائے اور نکاح ختم کرنے کا اعلان کر دے۔ تکنیکی اصطلاح میں اِسے طلاق کہتے ہیں۔

واپسی قیمت متعین نہ کر سکنے کی پابندی والا یہ قانون بے شک فطرت کے مطابق ہے لیکن قانون کی کتاب میں اِس کی یہ اجارہ داری بنیادی حقوق کی کسوٹی پر کھری نہیں اترتی۔ بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ نکاح کے دونوں قوانین دستیاب رکھے جائیں اور دوسرے قانون کی حیثیت معاہدۂ روزگار کی سی ہو جس میں معاہدے کا دوسرا فریق یعنی عورت اجیر کی حیثیت رکھتی ہو اور وہ کفالتی تحفظ اپنی فیس کے طور پر نہیں بلکہ اُجرت کے طور پر حاصل کرے۔ اُس کیلئے اپنے حالات اور اپنی ذات کی ویلیو کے مطابق خلع یعنی علیحدگی کی واپسی مالیت زیادہ متعین کرنا بھی قانوناً ممکن رہے تاکہ اُسے یہ معاہدہ کرتے وقت اپنے حق اِستعفیٰ کی اُس سے زیادہ قیمت مل سکے جو اُسے نکاحِ زوجیت کے معاہدے کی صورت میں حق مہر کے طور پر مل سکتی ہے، جبکہ دوسری طرف شوہر کو یہ اِختیار حاصل ہو کہ اگر وہ کسی وجہ سے یہ معاہدۂ نکاح برقرار نہ رکھنا چاہے اور بیوی اُسے خلع یعنی اپنے حق اِستعفیٰ کی واپسی قیمت ادا کرنے پر تیار نہ ہو تو وہ اِس بیوی کی خدمات کی نوعیت تبدیل کر سکے یعنی نکاح کا معاہدہ ختم کر کے اِس معاہدے کو عمومی معاہدۂ روزگار کی حیثیت دیتے ہوئے کفالتی تحفظ کے عوض جسمانی تعلق اور نسل اِنسانی کی پیدائش کی بجائے کوئی دوسری خدمت اُس کے سپرد کر دے اور پھر اگر چاہے تو اُس غیر عائلی حیثیت سے اِس معاہدۂ روزگار کے حقوق کسی دوسرے فرد کو بھی منتقل کر سکے، تاکہ اُسے بھی مالی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اگر ان معاشروں کو نکاحِ زوجیت کے علاوہ نکاح کا ایک ایسا متبادل راستہ بھی فراہم ہو جس کے اندر شوہر کی حیثیت آجر کی ہو اور وہ اپنی اجیر بیوی کے حق اِستعفیٰ کا اُس کی واپسی قیمت کی الگ سے متعین مالیت کی موجودگی میں اِس طرح مالک ہو کہ اُس پر ایک سے زیادہ اجیر بیویاں رکھنے کی پابندی نہ ہو اور ان کیلئے علیحدگی اِسی طرح سیدھی سادھی ہو جس طرح لیبر ایکٹ کی رو سے آجر اور اجیر کے درمیان ہوتی ہے تو دونوں میں سے کسی کیلئے بھی فرسٹریشن کی ممکنات پیدا نہیں ہوں گی۔

یہاں ایک امر کی وضاحت ضروری ہے۔ شوہر اور بیوی کی علیحدگی یعنی طلاق کو قانوناً مشکل بنا دینے کیلئے جواز اولاد کی پرورش کو بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ بچوں کو بلوغت تک ماں کے پاس رہنا چاہیے۔ یہ جواز دراصل ویسی ہی لغزش ہے جیسی "ایک مرد اور ایک عورت" کے فلسفے میں ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک فطری اور حقیقی فلاحی معاشرے میں بچوں کی پرورش کا عمل ان بچوں کے پاس ان کی اصلی ماں کی ہمہ وقت موجودگی کا محتاج نہیں ہوتا۔ اِس جواز، اِس غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ ہماری قوتِ متخیلہ کی کمی ہے۔ ہم اپنے مہلک معاشرتی ڈھانچے کے اِس حد تک خوگر ہو چکے ہیں کہ ہمارے ذہن میں اُس جنت نظیر معاشرے کا نقشہ یکدم اجاگر نہیں ہوتا جو فطری قانون کے نتیجے میں تشکیل پائے گا۔ اِس کی تفصیلی وضاحت تو آئندہ ابواب میں ہو گی، یہاں اولاد کی پرورش کے حوالے سے اِس غلط فہمی کا ازالہ لازم ہے۔

اولاد کی بہتر تربیت کیلئے ہر وقت اولاد کے پاس حقیقی ماں کی موجودگی قطعاً لازم نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بچوں کے بورڈنگ ہاؤسز میں پرورش پانے والے بچے کبھی بھی معاشرے کے مفید رکن ثابت نہ ہو پاتے۔ اِنسانی تاریخ بھی اِسی موقف کی آئینہ دار ہے اور مہذب معاشروں کے سنہرے ادوار میں ہم دیکھتے ہیں کہ علیحدگی اور دوسری شادی آسان ہونے کے باوجود کسی باپ کیلئے اپنے بچوں کی پرورش مسئلہ نہیں بنتی تھی۔ مسلمانوں کی تاریخ تو اِس سے بھی زیادہ ٹھوس شہادت رکھتی ہے۔ پیغمبر اِسلام صلعم کے دَور میں تو یہ باقاعدہ معاشرتی دستور تھا کہ بچہ پیدائش کے چند روز بعد ماں سے دُور مضافات میں بھیج دیا جاتا تھا جہاں وہ رضاعی ماں کی نگرانی میں پرورش پاتا تھا، خود رسول اللہ صلعم ابتدائی چھ برس تک اپنی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ کے ہاں رہے۔ گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اولاد کی پرورش حقیقی ماں کے ہاتھوں میں ہونا فطری مجبوری نہیں بلکہ موجودہ معاشرے کی مجبوری ہے۔ اگر معاشرہ درست ہو جائے تو اِس مجبوری کی ممکنات بھی ختم ہو جائیں گی چنانچہ ماں اور باپ میں علیحدگی کو مشکل بنانے کا جواز بھی ختم ہو جائے گا۔ رہی یہ بات کہ معاشرہ کیسے درست ہو؟۔۔۔ تو یہ وہی ہدف ہے جس کیلئے یہ تحریر زیر قلم آئی ہے۔

3۔ مرد کیلئے چونکہ جسمانی تعلق ایک ایسی بنیادی لازمی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے جس کی نوعیت اِس طرح کی ہے کہ شادی کا محدود مروجہ تصور اُس کی تکمیل کیلئے ناکافی ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا اُسے مروجہ تصور کے علاوہ شادی کا ایک اور ایسا متبادل راستہ بھی مطلوب ہے جس میں ایک وقت میں ایک سے زیادہ شادیوں پر قدغن نہ ہو۔

اب چونکہ ہمیں ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کے ممکنہ فساد کا احتمال ختم کرنا ہے اِس لئے آجر شوہر کو اِس امر کا پابند ہونا پڑے گا کہ وہ بیویوں میں کوئی اِمتیاز نہ رکھ سکے اور کسی بیوی کو کوئی ایسی سہولت نہ دے جو دوسری بیوی کو فراہم نہ ہو، خواہ وہ سہولت مساویانہ کفالتی معیار کے دائرے سے باہر ہی کیوں نہ ہو یعنی خود شوہر کے زیر اِستعمال بھی نہ ہو۔

ہمیں معاشرے میں اِخلاقی اقدار کو کمرشل اقدار کی حیثیت بھی دینی ہے۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ روزگار کا یہ راستہ جو اقدار کو یہ حیثیت دینے کا ضامن ہے، آجر شوہر کیلئے پرکشش ہو اور اُسے معاشرے میں غیر معمولی پذیرائی ملے۔ اب یہ نظام مرد کیلئے تبھی پرکشش ہو سکتا ہے جب اِس میں اُس کی وہ سرمایہ کاری "محفوظ" ہو جو وہ اپنی اجیر بیوی کے حق اِستعفیٰ کی خرید پر کرے گا۔ بالفاظِ دیگر شادی کا یہ معاہدہ اُسی طرح کے معاہدۂ روزگار کا عکس ہو جس کو ہم گزشتہ صفحات میں زیر نظر لا چکے ہیں یعنی اِس میں عورت کے حق اِستعفیٰ کو کسی دوسرے مرد کو منتقل کیا جا سکے اور آجر شوہر کو یہ اِختیار حاصل ہو کہ اگر وہ اپنی اجیر بیوی کو چھوڑنا چاہے جبکہ وہ بیوی اُسے اپنے حق کی واپسی قیمت جو معاہدہ کرتے وقت طے ہوئی تھی، ادا کرنے پر تیار نہ ہو تو وہ اِس معاہدۂ نکاح کو ختم کر کے ایک معروف معاہدۂ روزگار کی حیثیت سے اِس معاہدے کو کسی دوسرے آجر کی طرف واپسی قیمت کی اُسی شرط پر منتقل کر دینے کا اِستحقاق رکھتا ہو جو اُس کے اپنے معاہدے میں درج ہے۔ اِس اِختیار کا مقصد آجر کو اُس کی سرمایہ کاری کا وہی تحفظ فراہم کرنا ہے جس کو ہم برتری کی ضرورت کے حوالے سے زیر نظر لا چکے ہیں، تاکہ اجیر بیوی کے حق اِستعفیٰ کے اپنے نام اِنتقال کے وقت آجر شوہر کیلئے اِس معاہدے میں نہ صرف غیر معمولی ترغیب پیدا ہو بلکہ وہ اِس حق کو حاصل کرنے کیلئے اپنی بیوی کو اِس کے حق کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے پر بھی آمادہ ہو سکے۔

یہاں بر سبیل تذکرہ یہ امر ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اِن تمام نکات کی کسی آسمانی مذہب میں کوئی مناہی نہیں ہے بلکہ اِسلام میں تو ان باتوں کی تائید بھی موجود ہے اور دونوں طرح کے معاہدۂ نکاح کا تصور قرآن میں موجود ہے۔ بگاڑ صرف یہ ہے کہ آج کے مسلمان کہلائے جانے والے معاشروں کے عائلی قوانین میں ان نعمتوں کی گنجائش نہیں رہنے دی گئی۔

اِس قانون کا فوری نتیجہ یہ ہو گا کہ مرد اِخلاقیات، نیک نامی اور حسن سلوک میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ حق اِستعفیٰ کی قیمت کے تعین کے وقت یہی عوامل کرنسی کی طرح کمرشل ویلیوز کا درجہ رکھتے ہوں گے (اس کی مزید اور تفصیلی وضاحت اگلے باب "منظرنامہ" میں ہو جائے گی۔)

یہ قانون مرد کی ڈکٹیٹر شپ کا حتمی خاتمہ کر دے گا اور پھر مرد کے رویے میں عورت کیلئے مجبوراً وہی احترام امڈ آئے گا جو برابری کے تصور کے ساتھ ایک دوسرے کیلئے ہونا چاہیے کیونکہ مرد کو بخوبی معلوم ہو گا کہ جونہی اُس کے رویے یا کفالتی تحفظ کے مساویانہ ہونے کے معیار میں فرق آیا، عورت خواہ وہ اُس کی بیوی ہے یا بیٹی، اُسے اسی وقت چھوڑ کر چلی جائے گی کیونکہ اُس کیلئے کہیں سے بھی جب چاہے، حق اِستعفیٰ منتقل کرتے ہوئے یہ تحفظ حاصل کر لینا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

چونکہ اِس معاہدے کا مقصد عورت اور مرد کی فطری بنیادی ضرورتوں کو بیک وقت پورا کرنا ہے لہٰذا ایسی شادی کی اجازت صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب مرد آجر اور عورت اجیر ہو، کیونکہ ہم سمجھ چکے ہیں کہ مرد کی ضرورت اسی صورت میں پوری ہو سکتی ہے جب اُسے عورت کو آمادہ کرنے کی شرط کا سامنا نہ ہو، اور یہ حق اُسے تبھی مل سکتا ہے جب وہ آجر اور عورت اجیر ہو۔ عورت کے آجر اور مرد کے اجیر ہونے کی صورت میں چونکہ مرد کو آمادگی کی شرط کا سامنا ہو گا لہٰذا اِس کو شادی کی صورت نںیت دی جا سکتی۔

ایڈز کی تھیوری کے ضمن میں جن احتیاطوں یعنی وقفہ ایام اور عورت کے Impregnate ہونے کا جو تجزیہ کیا گیا ہے اور جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں انہیں قانون کا درجہ حاصل ہو۔

یہ وہ بنیادی خاکہ ہے جس کی مدد سے ہم ایک ایسا قانونی نظام مرتب کریں گے جو مرد اور عورت کی ضروریات کی بیک وقت تکمیل کا راستہ فراہم کرے گا۔

اِس خاکے پر غور کرنے سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ اُس خاکے سے بہت مشابہ ہے جو ہم نے برتری کی ضرورت کے ضمن میں مرتب کیا تھا۔ اِس کا مطلب ہے کہ دونوں خاکوں کو ملا کر ایک مجموعی قانونی باب کی شکل دی جا سکتی ہے۔

لیجیے، اب ایک ایسے جامع قانون کا راستہ ہموار ہو گیا جس میں زندگی کے تمام ناقابل حل مسائل کا فوری اور حتمی حل پوشیدہ ہے اور یہ قانون کسی دوسرے قانون یا نظام کو منسوخ یا تبدیل نہیں کر رہا بلکہ اپنے آپ میں معاہدۂ روزگار کا ایک مکمل باب ہے اور ہر شہری کو یہ اِختیار دے رہا ہے کہ وہ جب چاہے، جتنا چاہے، اپنی زندگی میں اِس قانون سے اپنی ضرورت کے مطابق اِستفادہ کرے۔

آیئے اب اِس قانون کی جزئیات متعین کریں۔