نفاذِ قانون کے بعد کا سماجی منظر نامہ

سابقہ ابواب میں آپ نے ایک ایسا قانونی ضابطہ ملاحظہ فرمایا جس کا کوئی ہیولہ اِس سے پہلے آپ کے ذہنوں میں نہیں تھا لہٰذا اِس امر کا امکان موجود ہے کہ کچھ لوگوں کی نظر میں معاشرتی نظام کا یہ تصور اور اِس کے فوائد ابھی پوری طرح اجاگر نہ ہوئے ہوں، اِس لیے مناسب ہو گا کہ اِس قانون کی اجازت مل جانے کے بعد معاشرے کے کینوس پر اِس کے مابعد اثرات کا جو منظر ابھر سکتا ہے اُسے چشم تصور پر دیکھا جائے۔ اِس باب میں ہم ایسے ہی چند مناظر اجاگر کریں گے۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ قانون بالواسطہ یا بلاواسطہ، زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے لہٰذا اِس باب میں ہمیں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اِس کے اثرات کا باری باری جائزہ لینا ہو گا۔ سب سے پہلے معاشی پہلو پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

فرض کیجئے ایک صنعتکار یا زمیندار جو روز روز کی ہڑتالوں، لیبر ڈیمانڈ، تنخواہوں، بونس اور قانونی جکڑ بندیوں کے نت نئے بکھیڑوں سے پریشان ہے، اِس ایکٹ کے تحت اپنی تمام یا منتخب لیبر سے کفالتی خدمت گاری کا معاہدہ کر لیتا ہے تاکہ نہ صرف یہ کہ اُسے ان الجھنوں سے نجات ملے بلکہ اُس کے وہ ملازمین بھی جو اُس کے ہاں کام کا تجربہ حاصل کر کے قیمتی بن چکے ہیں، جب چاہے اُسے چھوڑ کر بھی نہ جا سکیں۔ اب اُس پر لازم ہے کہ جس طرح کا ماحول، جس طرح کی بود و باش خود اُس نے اِختیار کر رکھی ہے، وہی اپنے خادموں کو بھی فراہم کرے۔ جتنی بڑی کوٹھی میں وہ خود رہتا ہے، جس کار یا ائیر کنڈیشنر کو وہ خود اِستعمال کرتا ہے، جس سکول میں اُس کے اپنے بچے پڑھتے ہیں، جس طرح وہ اپنی تقریبات مناتا ہے ویسا ہی ماحول فرداً فرداً ہر خدمت گار کو فراہم کرے۔ ظاہر ہے کہ نمود و نمائش کی فضا میں یہ سب کچھ اُس کیلئے ممکن نہیں ہو گا چنانچہ اُس کے پاس اِس قانون سے فائدہ اٹھانے کا ایک ہی طریقہ ہو گا کہ وہ اپنا معیارِ زندگی سادہ کر لے اور ویسی ہی سہولتیں خود بھی اِختیار کر لے جیسی وہ اپنے خدام کو فراہم کرنے جا رہا ہے یعنی انہی کی طرح فلیٹ میں رہے، انہی جیسی یونیفارم یا دوسرا لباس پہنے، وہی خوراک اور وہی طبی سہولت خود بھی اِختیار کرے جو اُس نے اپنے ملازموں کو مہیا کرنی ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت، تفریحات اور تقریبات کے درجوں میں مکمل یکسانیت ہو اور وہ اپنے اور اپنے اجیروں کے درمیان کوئی طبقاتی اِمتیاز نہ رکھے تاکہ عدالت کی طرف سے اُسے قانونی تحفظ حاصل رہے اور وہ خاطر خواہ طور پر اپنے کاروبار سے اِستفادہ حاصل کرتا رہے۔

بطور مثال اِس نوع کی مثالیں صنعت و حرفت، زراعت، تجارت، غرض زندگی کے ہر اُس شعبہ سے دی جا سکتی ہیں جہاں کسی بھی معاہدہ روزگار کی ممکنات موجود ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر اِس قانون کی عملی اِجازت ہو جائے تو اِس کے سامنے اُجرت کا دوسرا نظام اِجازت ہونے کے باوجود ناکام ہو جائے گا اور کوئی ایسا آجر جو جاہ و حشم اور نمود و نمائش کی ترتیب اپنی زندگی میں رکھتا ہو، مارکیٹ میں Survive ہی کر نہیں پائے گا۔ بادی النظر میں یہ ایک ناقابل یقین سی بات لگتی ہے لیکن دیکھ لیجیے، یہ دو اور دو چار کی طرح ثابت ہو رہی ہے۔

فرض کیجیے ایک بڑا صنعتکار یا زمیندار اپنی تمام یا منتخب لیبر سے اِس کفالتی خدمت گاری کا معاہدہ کر لیتا ہے۔ اب اُس کیلئے تنخواہ، بونس، اِنشورنس، پنشن اور دیگر اِسی قسم کے اخراجات کا بکھیڑا ختم ہو چکا ہے۔ شرط یہی ہے کہ کفالت کا وہی معیار اپنے اجیروں کو فراہم کرے جو خود اُس کے اپنے تصرف میں ہے۔ اب اگر وہ اپنا طرزِ زندگی سادہ اور کم خرچ کر لے تو ویسی ہی سہولتیں اپنے اجیروں کو فراہم کرنے میں اُس کا خرچ بہت کم اٹھے گا لہٰذا اُس کی مصنوعات کے اِخراجاتِ پیداوار بھی بہت کم رہ جائیں گے چنانچہ اُس کے لیے غیر معمولی کم مارکیٹ ریٹ بھی اچھے خاصے منافع کا باعث ہونے لگیں گے۔ اب اگر اُس کے Competitors کو مارکیٹ میں Survive کرنا ہے تو ان کے پاس بھی اِس نظام کو با دلِ نخواستہ اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

اب میکرو اکنامکس کے تناظر میں اِس قانون کا جائزہ لیجیے۔

اس قانون کا ایک بہت بڑا مثبت پہلو یہ ہے کہ اِس سے پرائیویٹ سیکٹر میں زراعت اور صنعت کو یکلخت عروج نصیب ہو گا، چھوٹی صنعتیں تک نہایت تیزی سے تقویت حاصل کریں گی اور برآمدات کی منڈیوں میں کم نرخ بھی زیادہ منافع کا باعث بنیں گے کیونکہ اِخراجاتِ پیداوار کو جتنا چاہے کم کرنے کا فارمولا ہاتھ آ چکا ہو گا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو معاشرہ بھی اِس نظام کی اپنے شہریوں کو پہلے اجازت دے گا وہ برآمدات کے گراف کو دوسرے ممالک کی نسبت کہیں زیادہ تیزی سے بلند کرے گا اور دولت مندی میں اِس قدر آگے نکل جائے گا کہ پھر دوسرے معاشروں کیلئے اِس نظام کی اجازت کے بعد بھی اُس سے آگے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔

اِس قانون کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بالواسطہ طور پر صنعتی نیشنلائزیشن، حتیٰ کہ سوشلزم کے خلاف بھی تحفظ دیتا ہے، وہ اِس طرح کہ اگر حکومت کسی صنعت کو نیشنلائز کرتی ہے تو اُس کے پاس کفالت کیلئے شخصی معیار نہ ہونے کی وجہ سے صرف رقم کی صورت میں اُجرت کی ادائیگی کا نظام ہو گا کیونکہ وہ لفظ "آجر" کی تعریف میں نہیں آ سکتی چنانچہ اِس معاہدے کو اِختیار کرنے کی اہل نہیں ہے اور اُجرت کے رقم کی صورت میں ادا ہونے کا تصور اِس معاہدے کا سامنے چل ہی نہیں سکتا جیسا کہ قبل ازیں جائزہ لیا جا چکا ہے لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نیشنلائزیشن یا قومی تحویل میں لینے کا مطلب صنعت کا دیوالیہ ہونا اور سوشلزم کا مطلب پورے ملک کا دیوالیہ ہونا ہو گا اور کوئی بھی حکومت اِس قدر احمق نہیں ہو سکتی۔

اِس طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جو دنیا سے سوشلزم کا کہ جس کے کندھوں پر کمیونزم کا جبر سوار ہوتا ہے، خاتمہ کر دے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی کمیونسٹ ملک بھی جو کم قیمت مصنوعات بنانے کی شہرت ہی کیوں نہ رکھتا ہو، برآمدات کی منڈیوں میں اُس ملک کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا جہاں اِس کفالتی نظام روزگار کی قانونی اجازت ہو یعنی جہاں کے صنعتکاروں کو اخراجات پیداوار لامحدود حد تک کم کرنے کی آزادی ملی ہوئی ہو۔ تب اُس کمیونسٹ ملک کی پوری صنعت تباہ ہو جائے گی اور یہ وہی چیز ہے جسے ہم نے پورے ملک کا دیوالیہ ہونا قرار دیا ہے۔ اِسی بات کو مزید آگے بڑھائیں تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی اِس نظام کو قانونی حیثیت حاصل ہو گئی، سوشلزم اور کمیونزم جہاں کہیں بھی ہو گا، براہِ راست اِس کی زد میں آ جائے گا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قانون اِنسانیت کو سوشلزم سے بھی تحفظ دیتا ہے جبکہ خود اِنحصاری اور معاشرتی خوشحالی جیسے مسائل اِس نظام کے سامنے خس و خاشاک سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔

آئیے اب اِس نظام کو اجیر کی نظر سے دیکھیں۔

اجیر کے لیے ایک بڑی نعمت وہ رقم ہے جو اُسے اپنے حق اِستعفیٰ کی منتقلی پر اپنے آجر سے ملتی ہے۔ اِس رقم سے وہ اپنے قرض ادا کر سکتا ہے، کسی بے سہارا عزیز کا فوری علاج کرا سکتا ہے یا کوئی اور ایسی فوری ضرورت پوری کر سکتا ہے جو کفالتی تحفظ کے دائرے سے باہر ہو۔

دوسری نعمت اُس کی بے فکری ہے۔ اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی بے عیب کفالت کی ذمہ داری اب اُس پر نہیں رہی۔ اب یہ تمام ضروریات فراہم کرنا یعنی خوراک، رہائش، لباس، تفریحات، تعلیم، طبی تحفظ، غرض تمام ضروریات کا اپنے مساوی انتظام اور ان کی حفاظت کرنا اُس کے آجر کی ذمہ داری ہے جس میں عدم مساوات پر وہ بڑے مزے کے ساتھ عدالت سے رجوع کر کے واپسی قیمت ادا کیے بغیر معاہدہ منسوخ کرا سکتا ہے اور دوبارہ کسی دوسرے آجر سے معاہدہ کر کے مزید رقم حاصل کر سکتا ہے۔

تیسری نعمت اُس کیلئے ترقی کے مواقع ہیں۔ اُس پر لیبر ایکٹ کے مطابق مقررہ دورانیے کے بعد فرصت کے اوقات میسر ہوں گے۔ وہ روز مرہ کی فکروں سے آزاد ہے چنانچہ تفریح کر سکتا ہے، تعلیم حاصل کر سکتا ہے، زائد آمدنی حاصل کر سکتا ہے یا کوئی بھی علمی، ادبی، سائنسی، قومی، مذہبی یا سماجی خدمت کر کے خود کو معاشرے میں سربلند کر سکتا ہے جو کہ ظاہر ہے، ذمہ داریوں اور تشویش کے عالم میں اُس کیلئے ناممکن ہے۔

یہ قانون غریب سے غریب اور امیر سے امیر غرض ہر شخص کو بھر پور تحفظ دیتا ہے کیونکہ یہ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے، ہر طرح کے معاہدۂ روزگار میں موثر ہے۔

ہم اپےو اردگرد بہت سے ایسے افراد کو دیکھتے ہیں جو کسی نہ کسی ہنر میں مہارت کے حامل ہوتے ہیں مگر یہ لوگ اپنی قابلیت، اپنی ہنر مندی ایک راز بنا کر رکھتے ہیں اور اِس کی بنیاد پر اپنا ذریعہ آمدن تخلیق کیے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے علم میں کوئی خفیہ ترکیب یا فارمولا ہوتا ہے اور اِس کی بنیاد پر وہ کوئی ایسی چیز بناتے ہیں جو مارکیٹ میں اجارہ داری قائم کر لیتی ہے۔ یہی ترکیب،فارمولا یا نسخہ ان کا وہ راز ہوتا ہے جس کا تحفظ انہیں ہر قیمت پر رکھنا ہوتا ہے۔

اِس نوعیت کی بے شمار مثالیں ہمیں طب و حکمت، ہاؤس ہولڈ یا کاسمیٹکس مصنوعات، تیکنیکی میدان مثلاً ورکشاپس، کوکنگ مثلاً کسی ریسٹوران کی کوئی خصوصی ڈش، غرض زندگی کے تقریباً سبھی پہلوؤں میں بکھری نظر آتی ہیں جن میں تکنیک یا ترکیب کی راز داری پر اِسے جاننے والے کے بزنس کی بقاء اور امارت کا دارومدار ہوتا ہے۔

بڑی کمپنیوں کے مالکان کیلئے اپنی مصنوعات کی تکنیک پیدائش اور مارکیٹنگ کے داؤ پیچ کا تحفظ ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور ان کے پاس اِس کا راستہ یہی ہوتا ہے کہ وہ ان ملازموں کو جو ان کی کمپنی میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اپنے تجربہ کی وجہ سے ان میں سے کسی امر کے ماہر ہو چکے ہیں، بڑی بڑی تنخواہیں دے کر انہیں اپنی کمپنی میں روکے رکھیں۔۔۔ اور یہ بڑی بڑی تنخواہیں ان اداروں کے اخراجات پیداوار پر بہت بڑا بوجھ ہوتی ہیں۔

اِس تحفظ کی اہمیت ہم سب سمجھتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ جونہی ترکیب یا تکنیک کی حقیقت کسی دوسرے کو مل گئی، وہ اِس سے فائدہ اٹھا لے گا اور جس شخص کیلئے یہ فارمولا اب تک غیر معمولی آمدن کا باعث بنتا رہا ہے، اپنی آمدن کم یا شاید ختم ہی کر بیٹھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ کسی طرح کی بھی خفیہ تکنیک، نسخے، فارمولے یا مہارت سے واقف ہیں، اپنے فن کا راز کسی دوسرے کو نہں سکھاتے، حتیٰ کہ ایک روز مر جاتے ہیں اور اِنسانیت ایک فائدہ مند حقیقت سے محروم ہو جاتی ہے۔

اب کفالتی تحفظ کے معاہدے کے تناظر میں اِس مسئلے کو دیکھیے۔

جب حق اِستعفیٰ اپنے نام منتقل کرانے والے آجر کو یہ معلوم ہو گا کہ اُس کا ملازم اُس کے کاروبار کا راز جان لینے کے بعد یعنی اُس کے ہاتھوں ایک قیمتی شخص بن جانے کے بعد اُسے فائدہ پہنچائے بغیر محض اپنی مرضی سے اُسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا اور اُسے اُس وقت تک فائدہ پہنچاتا رہے گا جب تک وہ آجر خود چاہے گا، اور اگر اجیر اپنی مرضی سے اُسے چھوڑنا چاہے گا تو اُسے واپسی قیمت کی شکل میں اپنے قیمتی بننے کا معاوضہ ادا کرنا پڑے گا تو یقیناً اُس کا احساس تحفظ برقرار رہے گا اور وہ اپنی تمام تکنیک یا مہارت جس پر اُس کی دولت مندی کا دارومدار ہے، اپنے اجیر کو اِس قدر تیزی سے سکھا دے گا جس کا تنخواہ کے نظام میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اس کا مطلب ہے کہ اِس نظام کی بدولت معاشرہ کسی فائدہ مند راز سے یوں محروم ہونے سے بچ جائے گا جیسے وہ آجر کے مر جانے کی صورت میں ہوتا تھا۔

وسیع تر کینوس پر اِس فائدے کو Imagine کرنے سے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی بھی دریافت، کوئی نادر فارمولا ضائع نہ ہو گا تو طبی سائنسی علمی تحقیق و ترقی کی رفتار خود بخود تیز ہو جائے گی۔ بہت سے ایسے راز جو اِنفرادی طور پر مختلف افراد کو معلوم ہیں، اِس ترقی میں تبھی مددگار ہو سکتے ہیں جب وہ ماہرین کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں اور اِس کی امید تبھی ہو سکتی ہے جب معاشرے سے ان رازوں کے غائب ہونے کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے۔۔۔ اور اِس کی گارنٹی صرف کفالتی تحفظ کا یہی نظام دے سکتا ہے۔

اجیر کی نظر سے دیکھنے پر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اُس کیلئے ایک بڑی نعمت وہ فوری علم یا مہارت ہے جو اِس کفالتی معاہدے کے طے پا جانے کے بعد اُسے اپنے آجر سے برق رفتاری کے ساتھ حاصل ہو گی اور جس کے نتیجے میں وہ دیکھتے ہی دیکھتے عام آدمی سے ایک قیمتی اِنسان بنتا چلا جائے گا۔ تب آجر کی نظر میں اُس کی وقعت تقریباً ویسی ہی ہو جائے گی جیسی منہ بولے بیٹے کی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قیمتی بننے کی یہ رفتار اُسے تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب اُس کے پاس اِستعفیٰ کا غیر مشروط حق نہ ہو اور وہ قیمتی بننے کے بعد آجر کو اسی طرح جب چاہے چھوڑ کر نہ جا سکے جس طرح ایک فرمانبردار بیٹا باپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔

ماہرین طب اِس بات پر متفق ہیں کہ نوے فیصد بیماریاں بالواسطہ یا براہِ راست، فکر و پریشانی اور ذہنی تشویش سے یا تو جنم لیتی ہیں یا طوالت اِختیار کرتی ہیں۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے گرد و پیش کا ماحول تشویش کو جنم دینے والا نہ ہو تو بیماریوں کی شرح تقریباً معدوم ہو جائے گی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تشویش کی وجوہات کم مائیگی یا جنسی تشنگی کے احساسات ہیں۔ یہ بھی سمجھا جا چکا ہے کہ ان احساسات کی وجہ طبقاتی اِمتیاز، ہوسِ زر اور جنس کے ضمن میں ہمارا بنیادی اِنسانی حقوق کا غلط تعین ہے اور یہ کہ انہیں درست کرنے یا نکال باہر پھینکنے کیلئے ابتدائی لائحہ عمل یہی ہو سکتا ہے کہ ذہنوں میں افضلیت اور عظمت کی علامت بدل دی جائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر اِنسان کو اپنی جدوجہد کے عوض دولت کے درمیانی رابطے کے بغیر بھی فول پروف کفالتی تحفظ حاصل ہونے کا راستہ دستیاب ہو اور فطری جائداد یعنی حق اِستعفیٰ کی منتقلی کی اجازت ہو تاکہ اِخلاقیات اور خصائل "برتری اور عظمت" کی علامت بن جائیں اور شہرت اور ناموری، عہدہ و اِختیارات کی پر شکوہ عمارت اِسی علامت پر ایستادہ ہو۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہو گا جب معاشرے کے امیر اور غریب آدمی کا طرز زندگی ایک جیسا ہو جائے، اور امیر آدمی اپنے معیارِ زندگی کو سادہ بنانے پر اُس وقت تک آمادہ نہیں ہو سکتا جب تک اُسے اِس کام کا بہت بڑا فائدہ اپنے سامنے دکھائی نہ دے۔۔۔ اور یہ فائدہ صرف کفالتی خدمت گاری کا ایکٹ اُسے دے سکتا ہے۔

گزشتہ صفحات میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ اِس کفالتی معاہدے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ نظام معاشرے میں اِخلاق و اطوار، رویے، وطیرے، سلوک اور خصائل کو مالی اقدار Commercial Values بنا دیتا ہے۔ آیئے اِس منظر کو چشم تصور سے دیکھیں۔

یہ معاہدہ کرتے وقت جب کوئی اجیر اپنے آجر کو اپنے حق اِستعفیٰ کی اپنے آجر کو منتقلی کیلئے مالیت کا تعین کرنا چاہے گا تو وہ یقیناً آجر کے رویے، ہمدردی، انصاف پسندی،خوش مزاجی، حسن سلوک،عجز و انکسار، سخاوت اور فراخ دلی، غرض اعلیٰ اِنسانی اِخلاقی اقدار کو مد نظر رکھے گا۔ اِسی طرح آجر بھی اجیر کے حق اِستعفیٰ کی مالیت اور واپسی قیمت اُس کے نیک نیت، وفادار اور دیانت دار ہونے کے تاثر، صداقت، سادگی پسندی، خوش مزاجی، سلیقہ و عادات، تعاون پسندی اور دیگر اِخلاقی اقدار کی بنیاد پر ہی طے کرے گا۔ ہر دو فریق میں سے جس کی بھی یہ خصوصیات جتنی زیادہ ہوں گی اتنی ہی اُس کی مارکیٹ قدر و قیمت بھی زیادہ ہو گی۔ اگر آجر بہت اچھا، بااِخلاق اور محبتی ہے تو اجیر اپنے حق اِستعفیٰ کی کم مالیت بھی قبول کر لے گا۔ اِسی طرح اگر اجیر بہت سے اوصاف اور اچھی ساکھ کا حامل ہے تو آجر اُس کے حق کی زیادہ مالیت ادا کرنے پر بھی آمادہ ہو گا اور یوں ظاہر ہے کہ اِنسان کی ان ذاتی خوبیوں کو معاشرے مںت کمرشل حیثیت حاصل ہو جائے گی جنہیں خود میں لامحدود تعداد یا مقدار میں پیدا کرنے کیلئے نہ تو دولت درکار ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کسی سے خریدی یا چھینی جا سکتی ہیں۔ تب پھر کسی کوشش کے بغیر یہ خوبیاں معاشرے میں برتری کی علامت قرار پا جائیں گی اور افراد اِخلاقی اقدار، سادگی، ہمدردی، سچائی اور ایمانداری کی اپنی ساکھ بنانے کے لیے اسی طرح دیوانے ہوں گے جس طرح آج دولت کے ہو رہے ہیں۔ تب وہ معاشرہ دوبارہ وجود میں آ جائے گا جس کے بارے میں تاریخ میں لکھا ہے کہ لوگ خیرات کرنے کیلئے رقم لے کر نکلتے تھے اور لینے والا نہیں ملتا تھا، اور یہی اِسلامی کلچر کا جزو لازم ہے۔

نفسیات کے ماہرین اِس امر پر سو فیصد متفق ہیں کہ تشویش میں مبتلا کوئی بھی فرد اپنے فرائض خاطر خواہ طور پر انجام نہیں دے سکتا، اِس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ افراد کی بھر پور ذہنی و جسمانی کارکردگی جو مجموعی شرح ترقی میں اضافے کے حوالے سے کسی بھی معاشرے کی سب سے پہلی ضرورت ہے، صرف اِسی کفالتی نظام روزگار کی اجازت سے ممکن ہے۔

اب ہم جنسی ضرورت کے تناظر میں اِس نظام کی افادیت کو دیکھتے ہیں۔

قدرت نے اِنسان میں جنس کا جو نظام رکھا ہے اُس میں مرد کو باہ کا پابند کیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ عورت کے جسمانی نظام میں اِس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مرد کی اِس بناوٹ میں جب ناتوانی اور کمزوری پیدا ہوتی ہے تو اِس سے دیگر بہت سی طبی اور عائلی پیچیدگیوں کے علاوہ اُس کے ذہن میں احساس کمتری یا احساس محرومی کی مہلک سوچ بھی جنم لیتی ہے۔ تب وہ اِس صلاحیت کو سہارا دینے کیلئے برانگیختہ کرنے والی ادویات Stimulants شراب یا ضرر رساں کیمیائی مرکبات کشتے Aphrodisiacs وغیرہ اِستعمال کرتا ہے اور اِس کے نتیجے میں ابھرنے والے برے اثرات کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں منشیات کے اِستعمال کے امکانات بھی کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اِس تمام تر صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ اُس کو اپنی مردانہ پہچان میں نقاہت دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے کہ اِس نقاہت کا امکان ہی ختم کر دیا جائے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ معاشرے سے عطائیت تو درکنار، منشیات کا ہی خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ امکان کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ آئیے اِس سوال کا جواب تلاش کریں۔

اِس نقاہت کی سب سے بڑی وجہ تشویش ہے۔ یہ تشویش نفسیاتی بھی ہو سکتی ہے یعنی عورت کو رضامند کرنے کی شرط۔۔ یہ تشویش معاشی بھی ہو سکتی ہے یعنی دولت کی کمی کا احساس اور اِس کے نتیجے میں معاشرتی وقار میں کمی کی فرسٹریشن۔ یہ تشویش طبی بھی ہو سکتی ہے یعنی انفیکشن کا احتمال جو اِس ضرورت کی تکمیل میں رکاوٹ بنتا ہے۔

ماہرین طب جانتے ہیں کہ قوت مردمی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا عامل ذہنی تشویش ہے۔ جب کوئی شخص متفکر ہوتا ہے تو اُس کا یہی تفکر اپنی شدت کے تناسب کے مطابق اِس قوت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تشویش کے محرکات اور ان کے ازالے کا ہم پہلے ہی سیر حاصل احاطہ کر چکے ہیں لہٰذا انہیں یہاں خواہ مخواہ آموختہ بنانا بے سود ہے۔

اِس صلاحیت میں نقاہت کی دوسری بڑی وجہ اِس کی نشوونما میں کمی ہے۔ اِنسانی جسم کی کارکردگی کا فطری اصول عام مشینوں سے مختلف، بلکہ متضاد ہے۔ اِنسان کی جس صلاحیت کو جتنا جلدی اور جتنا زیادہ اِستعمال میں لایا جائے وہ اسی قدر افزائش حاصل کرتی ہے اور اتنی ہی زیادہ طویل العمر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ابتدا ہی سے محنت و مشقت کے عادی افراد کے قویٰ بڑھاپے تک متحرک اور فعال رہتے ہیں، کھلی فضا میں رہنے والوں پر موسم کی تبدیلی کا اثر کم ہوتا ہے، ذہنی صلاحیت تعلیم یافتہ لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے، اِسی طرح اگر ہر مرد کو اُس کی اِس ضرورت کی تکمیل کا آسان اور محفوظ راستہ ابتدائے بلوغت سے ہی میسر رہے تو اُسے نہ صرف اپنی قوت میں کبھی نقاہت محسوس نہیں ہو گی بلکہ یہ توانائی اُس میں کسی خارجی سہارے، کسی کیمیائی مرکب یا منشیات کے بغیر اُس کے آخری سانس تک موجود رہے گی خواہ وہ سو سال کا ہی کیوں نہ ہو جائے۔

آج ہمارے مہذب معاشروں میں دستور یہ ہے کہ لڑکا جب بالغ ہوتا ہے تو اُسے سب سے پہلے عورت کو رضامند کرنے کی شرط کا سامنا ہوتا ہے، تب وہ شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتا ہے اور اِس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر اُس سے بیوی کے انتخاب میں کوئی غلطی ہو گئی تو ساری عمر کا پچھتاوا مقدر ٹھہرے گا چنانچہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں وہ شادی کا فیصلہ موخر کرتا جاتا ہے۔ اِس تاخیر کے نتیجے میں اُس کی جنسی طلب عدم تکمیل کی وجہ سے فرسٹریشن میں بدلنے لگتی ہے۔ تب وہ شادی کے بغیر بھی عورت کو رضامند کرنے کیلئے بہت سی دولت حاصل کرنے کے بارے میں سوچتا ہے اور چکلے کی طرف بھاگتا ہے۔ وہ عورت کی نظریں خود پر مرکوز کرانے کیلئے سپورٹس، ایڈونچر، شو بزنس یا کسی منفی میدان مثلاً غنڈہ گردی کے ذریعے جسمانی قوت اور دلیری کا مظاہرہ کر کے خود کو ہیرو پوز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ عورت سے نقلی وفا و محبت اور سوچ کی ہم آہنگی کا ناٹک رچاتا ہے تاکہ قسموں وعدوں کے راستے سے اُس کے جسم تک پہنچے۔ کوئی مثبت ذریعہ نہ بننے پر یا کسی ناکامی پر وہ شدید فرسٹریشن میں مبتلا ہو کر Rape کا اِرتکاب کر سکتا ہے یا اِس فرسٹریشن سے جان چھڑانے کیلئے کوئی راہِ فرار اِختیار کر سکتا ہے۔ یہ وہی راہِ فرار ہے جس کی آخری منزل منشیات ہیں۔ مختصر یہ کہ ہمارے معاشروں میں اُسے جہاں نشوونما کا ماحول نصیب نہیں ہوتا وہاں ساتھ ہی تشویش کے عوامل بھی بڑھتے جاتے ہیں جو بذاتِ خود اِس کمزوری کے پیدا ہونے کا بہت بڑا باعث ہیں۔

اِس تمام خرابی کی وجہ یہی ہے کہ ہر مرد کیلئے ابتدائے بلوغت سے ہی عورت تک شائستہ، محفوظ اور حسب ضرورت رسائی تقریباً ناممکن ہے۔ کفالتی تحفظ کے نظام میں شادی کے معاہدے کے مطابق عورت چونکہ اجیر ہے اور اُس کی خدمات کا صرف نسل اِنسانی کی پیدائش اور پرورش تک محدود ہونا لازم نہیں ہے لہٰذا ایسا معاہدہ ممکن ہے جس میں یہ اُس کے آجر شوہر کو حق ہو کہ وہ نسل اِنسانی کی پیدائش کی جگہ کوئی دوسری خدمات اپنی اجیر بیوی کی ذمہ داری قرار دے سکتا ہے۔ (پابندی صرف یہ ہے کہ بیک وقت دو جگہ خدمات نہیں لی جا سکتیں ) ظاہر ہے کہ اِس صورت میں مرد کو خوب سے خوب تر کی تلاش میں اِس کفالتی شادی کو مو خر کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی، اِس لیے کہ کسی مجبوری یا ناپسندیدگی کی صورت میں اُس کیلئے اپنی اجیر بیوی کی خدمات کو نسل اِنسانی کی پیدائش کی بجائے کسی ذریعہ آمدن مثلاً تدریسی یا تربیتی ادارے وغیرہ کی شکل میں بدل دینا یا کسی تیسرے شخص کو منتقل کر دینا اور کسی دوسری عورت سے یہی معاہدہ کرنا عین ممکن ہو گا۔

یہاں ممکن ہے کہ بعض قارئین کو اِس نظام کی افادیت پر شک ہو اور انہیں یہ گمان گزرے کہ یہ قانون صرف امیر آدمی کو ہی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور غریب آدمی چونکہ حقوق خریدنے کی اِستطاعت نہیں رکھتا ہو گا لہٰذا اُس کیلئے یہ قانون بے معنی ہے۔۔۔ اِس غلط فہمی کی اصلاح ضروری ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اِس ایکٹ میں اجیر کیلئے اپنے حقوق کی قیمت کیلئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ اگر کوئی عورت چاہے تو اپنا حق اِستعفیٰ ایک گلاس پانی کے عوض بھی فروخت کر سکتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس معاہدۂ روزگار کا اصل مقصد تو اجیر کو بے عیب یعنی مساویانہ کفالتی تحفظ کی فراہمی ہے جبکہ حقوق کی منتقلی سے رقم کا حصول اجیر کیلئے ایک اضافی فائدہ کا درجہ رکھتا ہے جس کا اصل مقصد یہ ہے کہ آجر کیلئے احساس اپنائیت کی ایک بہت بڑی ترغیب پیدا ہو سکے اور اُسے ہر وقت یہ معلوم رہے کہ وہ جس سے اپنے فیملی ممبر کی طرح سلوک کر رہا ہے وہ جب چاہے اُسے دھتکار کر، اُس کی نوکری کو لات مار کر نہیں جائے گا۔

اِسی طرح کفالت بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، مثال ملاحظہ فرمائیے۔

فرض کیا آپ ایک غریب لیکن نہایت نیک نام مرد ہیں اور آپ کے بارے میں لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ آپ اعلیٰ اِخلاق و عادات، دیانت اور ہمدردی جیسی خوبیوں سے متصف ایک سچے اور بردبار شخص ہیں۔ غربت کی وجہ سے آپ نے شادی نہیں کی یا اگر کی ہے تو آپ کی زندگی محرومیوں کی شکار ہے۔ آپ کو اپنی بیوی سے جو شکایتیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ جسمانی تعلق کیلئے بڑی مشکل سے رضامند ہوتی ہے یا اُس کو آپ کے بچے کی پیدائش سے دلچسپی نہیں ہے یا آپ کی غربت یا نظریات یا مذہبی مسلک اُس کو پسند نہیں اور آپ کو اُس کے رویے سے نفرت کا شائبہ ہوتا ہے یا وہ کسی طبی مجبوری کے باعث آپ کی شریک حیات ہونے کا حق ادا نہیں کر سکتی جس کی وجہ سے آپ کی گھر گرہستی متاثر ہو رہی ہے۔۔ غرض ایسی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بنا پر آپ خود کو دوسری شادی کرنے میں حق بجانب سمجھتے ہیں لیکن غربت، یا بعض معاشروں میں مروج بار بار رضامندی حاصل کرنے کا قانون مزاحم ہے چنانچہ جنسی تشنگی کی فرسٹریشن اپنی قوتِ ارادی کے بل پر اذیت کے ساتھ برداشت کر رہے ہیں اور اِس کے اثرات آپ کے مزاج میں رونما ہو رہے ہیں مثلاً آپ کو طیش زیادہ آنے لگا ہے، قدرے چڑچڑے بھی ہوتے جا رہے ہیں، یکسوئی کم اور اکتاہٹ جلد ہونے لگی ہے جس سے بلڈ پریشر ذیابیطس جیسے عارضوں کی علامات نمودار ہونے لگی ہیں۔۔۔ وغیرہ، اب اگر معاہدۂ روزگار کے اصول پر مبنی شادی کی اجازت آپ کو مل جائے تو آپ کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ آپ سب سے پہلے اُس عورت کو ڈھونڈیں گے جو آپ کی نیک نامی سے متاثر ہو کر اپنے حق اِستعفیٰ کی قیمت بہت کم وصول کرنے پر تیار ہو۔ وہ کوئی بھی ایسی عورت ہو سکتی ہے جو محبت اور سکون کی متلاشی ہو، جو بدصورت ہو، بھدی ہو، معذور ہو یا آپ کی طرح غریب ہو، بے سہارا ہو، بیوہ ہو یا طلاق شدہ ہو۔۔۔ غرض معاشرے میں کئی ایسی عورتیں ہو سکتی ہیں جو آپ کے اعلیٰ اِخلاق و اطوار کو دیکھتے ہوئے آپ کی غربت کے باوجود خوشی خوشی آپ کے ساتھ یہ شادی کا معاہدہ کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہیں۔

اب کفالتی تحفظ کی فراہمی اِس لیے آسان ہے کہ شرط صرف مساویانہ معیارِ زندگی کی ہے۔ اگر آپ جھونپڑی میں بھی رہتے ہیں تو بھی وہ آپ کے ساتھ رہے گی۔ معاشرے میں طبقاتی اِمتیاز نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے اور آپ کے بچوں کیلئے فرسٹریشن کا کوئی احتمال نہیں ہو گا لہٰذا آپ کی غربت آپ کیلئے احساسِ محرومی کا باعث نہیں بنے گی۔ اِس کے علاوہ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ آپ اگر کسی وقت مناسب سمجھیں تو اپنی اُس اجیر بیوی کی ذمہ داریاں بدل بھی سکتے ہیں یعنی اُس کی نسل اِنسانی کے فروغ کی ذمہ داریاں موقوف کر کے کسی نوع کی معاشی ذمہ داریاں مثلاً کسی طرح کی مینجمنٹ، فارمنگ، کوکنگ، تدریس یا کاریگری پر مبنی ذمہ داریاں اُس کے سپرد کر سکتے ہیں اور نسل اِنسانی کی پیدائش کی ذمہ داری کسی دوسری اجیر کے سپرد کرنے کا اِستحقاق رکھتے ہیں۔ اگر آپ کسی وقت محسوس کریں کہ اُس اجیر بیوی سے آپ کی ذہنی ہم آہنگی گہری ہو چکی ہے تو آپ پر اُس کو اجیر کے رتبے سے بلند کر کے اپنے ہم پلہ(زوج) بنانے یعنی اُس سے نکاحِ زوجیت کا معاہدہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

اِسلامی کلچر کے اِس منظر نامے سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ یہ قانون معاشرے کے ہر فرد کو خواہ وہ امیر ہو یا غریب، فرسٹریشن یا جرم پر مجبور نہ ہونے کی گارنٹی دیتا ہے۔ اِس قانون کی اجازت مل جانے سے ہر ایک کو ضروریات زندگی کی تکمیل کے سنہری مواقع دستیاب ہوں گے کہ کسی دل میں جرم اور سماجی برائیوں کی خواہش ہی نہ ابھرے گی۔ تب پھر اُس وقت جرم کیلئے کم سزا بھی کافی ہو گی کیونکہ معاشرے کی فضا ایسی بن جائے گی کہ جرم تو کیا، محض قبیح حرکت مثلاً جہیز اور نمود و نمائش کے ارتکاب پر ہی جس معاشرتی تحقیر آمیز رد عمل کا سامنا ہو گا وہی اُس کیلئے ناقابل برداشت ہو گا۔

آج ہمارے معاشروں میں گھر سنبھالنا بھی عورت کی ذمہ داری کا حصہ سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نسل اِنسانی کے فروغ کی ڈیوٹی کے دوران یہ کام اُس کی ذمہ داریوں کا حصہ نہیں بنتا بلکہ یہ اپنے آپ میں ایک علیحدہ اور مکمل ذمہ داری ہے، اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک مرد اُس کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کیے ہوئے ہے، وہ عورت قانون کی نظر میں فروغ اِنسانیت کی ڈیوٹی دیتی ہوئی ہی سمجھی جائے گی، خواہ وہ کسی طبی وجہ سے ماں نہ بن پا رہی ہو یا اُس کا شوہر اولاد پیدا نہ کرنا چاہتا ہو۔۔ چنانچہ اپنے شوہر کے گھر کو سنبھالنا، صفائی دھلائی، گوندھنا پکانا، قانون کی نظر میں اُس کے شوہر کا اُس پر حق نہیں بلکہ اُس کا اپنے شوہر کیلئے ایثار ٹھہرے گا۔ جب شوہر کو اِس ایثار کا احساس رہے گا تو وہ گھر گرہستی کے ہر کام پر اپنی بیوی کا ممنون ہو گا خواہ بیوی پھوہڑ ہی کیوں نہ ہو۔ تب وہ اُس کی کسی غلطی پر چراغپا ہونے کی بجائے الٹا اُسے اُس کے ایثار کے بدلے میں تواضع دے گا، اُسے سیر و تفریح کرائے گا، تحائف دے گا اور وہ سب کچھ کرے گا جو تواضع کا تقاضا پورا کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ یہ تبھی ممکن ہو گا جب اُسے یہ باور کرا دیا جائے گا کہ وہ اُس عورت کو کفالتی تحفظ اُس کے ساتھ صرف جسمانی تعلق کے حق کے عوض دے رہا ہے، گھر سنبھال کے عوض نہیں۔۔۔ اب اِنسان کی ضرورت یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے چنانچہ شوہر اور بیوی ایثار اور تواضع میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی لا شعوری کوشش کریں گے۔ یقیناً اِس فضا میں پروان چڑھنے والی اولاد ایسے خصائل کی حامل ہو گی جن کے نتیجے میں دنیا کا اعلیٰ ترین معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

اِس قانون کے مجموعی فوائد کی اگر فہرست بنائی جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بہت سے ایسے معاشرتی معاملات بھی جو بظاہر اِس سے علیحدہ محسوس ہوتے ہیں، دراصل اِسی سے متعلق ہیں، مثال کے طور پر ہپی ازم کا کوئی تصور باقی نہیں رہے گا کیونکہ یہ فلسفہ زندگی کے تفکرات سے فرار کی کوشش کا مظہر ہے۔ اگر زندگی میں تشویش کا ہی گزر نہ رہے تو اِس کا تو درکنار، منشیات، حتیٰ کہ شراب اور تمباکو نوشی کا چلن بھی کم ہوتا چلا جائے گا۔

معذوروں اور ضعیف العمر افراد کے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ ان لوگوں کے مسائل کا سبب یہی ہے کہ انںیک اتنی اُجرت نہیں ملتی جس سے ضروریات پوری ہو سکیں۔ کفالتی معاہدے میں یہ مسئلہ بھی پیدا نہیں ہو گا کہ اِس کے مطابق اُجرت یعنی کفالتی معیار میں کمی بیشی کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں ہے۔ معذور افراد کیلئے صرف اتنی محرومی ہو سکتی ہے کہ انہیں اپنے حق اِستعفیٰ کی وہ قیمت نہ مل سکے جو دوسرے صحت مند فرد کو مل رہی ہے، مگر یہ امر اِس لئے تشویش یا فرسٹریشن کا باعث نہیں ہے کہ اِس کا ضروریات زندگی کی فراہمی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

ویسے حق اِستعفیٰ کی قیمت میں یہ کمی بھی یقینی نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ معذور افراد کی وہ حس جو بالکل درست حالت میں ہوتی ہے، عام آدمی سے کہیں زیادہ بہتر اور تیز ہوتی ہے مثلاً نابینا افراد کی سننے اور سونگھنے کی حس۔ اگر اِس کے اِستعمال پر مبنی کوئی خدمات وہ انجام دے تو یقیناً وہ عام آدمی سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا، اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اُس کے حق اِستعفیٰ کی مالیت میں اضافہ کرے گی۔ اِسی طرح ضعیف العمر افراد کے پاس حق اِستعفیٰ کی مالیت میں اضافہ کرنے کیلئے ان کا تجربہ ہے جسے اپنے زیر نگیں کرنے کیلئے ہر سمجھدار آجر زیادہ قیمت ادا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔

بے روزگاری الاؤنس، ریٹائرمنٹ اور پنشن کا تصور باقی نہیں رہے گا کیونکہ نظریہ ضرورت کی رو سے ہر غیر ضروری شے اپنی ڈیمانڈ کھو دیتی ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی بے معنی بات ہو جائے گی۔ زیادہ آبادی کو اِسی لیے مسئلہ کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں وجہ تشویش یعنی دولت، اکلوتے درمیانی رابطے اور برتری کی پہچان کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر اِخلاقیات اور ساکھ برتری کی علامت بن جائیں تو ظاہر ہے کہ اولاد کا زیادہ ہونا مفید تر ہو جائے گا۔

زیادہ گہرائی میں جائیں تو ہماری Imagination یہ بھی بتاتی ہے کہ وسیع تر ارضیاتی مسائل مثلاً وائلڈ لائف، آلودگی، کرۂ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت، اوزون گیس کی حفاظتی تہہ اور ایسے دیگر پیچیدہ لاینحل مسائل کا حل بھی اِسی نظام سے برآمد ہو گا۔ ٹریفک کا دھواں، جنگلات کی تیزی سے کٹائی اور دیگر عوامل جو اِس ساری صورت حال کی وجہ بنے ہیں، زیادہ سے زیادہ دولت کی ہوس کا رد عمل ہںa اور اِس کی وجہ ہم سمجھ چکے ہیں۔ اگر معاشرے میں دولت کی بجائے اِخلاقیات کمرشل ویلیو اِختیار کر جائیں تو ہوس ختم ہو جائے گی، چنانچہ کرہ ارض کی سر سبزی و شادابی، سائنسی تحقیق اور مادی ترقی، غرض ہر فائدہ مند چیز میں خود بخود اضافہ شروع ہو جائے گا، اور یہی ان مسائل کا آسان ترین حل ہے۔

ماحولیاتی آلودگی اِنسانی امراض کا تیسرا بڑا سبب ہے اور اِسی کی وجہ سے ناقص غذا اور فضا اِنسان کا مقدر بنی ہوئی ہے جو بیماریوں کی شرح پیدائش میں اضافے یا ان کی طوالت کا باعث بننے میں جنسی تشنگی اور ذہنی تشویش کے شانہ بشانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس ساری صورت حال کی بنیاد بھی زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کر لینے کی ہوس ہے چنانچہ اگر اوپر بیان کردہ تجزیہ درست ہے تو یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اِس قانون کے نتیجے میں جب معاشرے میں دولت مندی کی بجائے اِخلاق و احسان ذریعہ عزت بن جائے گا تو کرۂ ارض پر اِنسانی اور غیر اِنسانی، تمام زندگی محفوظ ہونے لگے گی یعنی زمین کا درجہ حرارت، اوزون گیس کی حفاظتی تہہ، جنگلات اور وائلڈ لائف کے مسائل سدھر جائیں گے اور اِس سے پیدا ہونے والی اِنسانی اور حیوانی بیماریوں کی شرح بھی معدوم ہو جائے گی۔ دوسری طرف اِنسان کی فطری خوبیوں کو مارکیٹ میں کمرشل قدر و قیمت حاصل ہونے کے بعد سماجی برائیوں منافقت، جھوٹ، اقربا پروری، جہیز اور جرائم یعنی رشوت، کالا بازار، جسم فروشی، فراڈ، سرقہ، جبری آبرو ریزی وغیرہ کا وجود خود بخود ختم ہوتا ہوا دکھائی دے جاتا ہے لہٰذا اِس کی لمبی چوڑی تفصیل یہاں زیر بحث لانا غیر مناسب ہے۔ زندگی کے ہر موضوع مثلاً قدرتی آفات، جنریشن گیپ، انتخابی عمل وغیرہ کو فرداً فرداً زیر نظر لانا اور اِس نظام میں ان کا ایک ہی طریقے سے حل پیش کرنا تضیع اوقات کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا صرف اتنا عرض کرنا کافی محسوس ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے کسی بھی مسئلہ کا تجزیہ کریں اِس مکمل نظام کے کینوس پر ہر الجھن کا وجود غائب ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔