قرآنی آئین "اُمّ الکتاب"اور ٹیکس فری یونائیٹڈ سٹیٹس

گزشتہ صفحات میں ہم نے ایک ایسے قانونی نظام معاش و عائلت کا مشاہدہ کیا جو قرآن سے اخذ کیا گیا ہے (حوالے آئندہ ابواب میں ملاحظہ فرمایئے ) اور جو معاشرے میں Moral Values کو Commercial Values کی حیثیت دے دیتا ہے اور افضلیت یا برتری حاصل کرنے کی ضرورت کے تناظر میں دولت مندی کی نمائش کو بے وقعت کر دیتا ہے چنانچہ اِس سے معاشرے میں طبقاتی اِمتیاز اور ہوسِ زر کا خاتمہ ہو جانا یقینی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ قانون اگر معاشرے کو دستیاب ہو جائے تو عالمی قارون اور مفاد پرست حکمرانوں (فرعونوں ) کے مفادات کو اکھاڑ پھینکے گا کیونکہ ان کی تمام مفاد پرستی کا محور یہ ہے کہ معاشرے میں ہوسِ زر روز افزوں رہے تاکہ ان کا طبقہ جو محکوم افراد کی محنت کا ثمر ان سے چھین چھین کر اپنے پاس دولت کے انبار لگا چکا ہے اور اِسی بنیاد پر اقتدار پر قابض ہے، بالاتر رہے، چنانچہ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ اِس نظام کو جس کے نتیجے میں دولت مندی معاشرے میں بے حیثیت ہو جائے، نافذ نہ ہونے دینے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے۔

اِس مقصد کیلئے وہ منفی پراپیگنڈے کے ساتھ ساتھ باہمی منافرت، فرقہ واریت، دہشت گردی، کرنسی کی ڈی ویلیویشن اور افراطِ زر یا مہنگائی، سیاسی ہنگامہ آرائی اور اکھاڑ پچھاڑ، انارکی اور طوائف الملوکی، مختلف ممالک کے مابین جنگ و جدل اور دیگر ایسے گوناگوں مسائل کھڑے کر کے عوام کی توجہ منتشر کرنا چاہیں گے۔۔۔ لیکن سب سے مہلک ہتھیار جو وہ اِس تصور کو کچل ڈالنے کیلئے اِستعمال کریں گے اُس کا نام ٹیکس ہے۔

اِس حوالے سے اگر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ تیسری دنیا میں بھی کفالتی تحفظ کے اصول پر مبنی یہ نظام روزگار اول تو نافذ ہی نہیں ہونے دیا جائے گا اور اگر عوامی دباؤ کے زیر اثر کہیں ہو بھی گیا تو ظالمانہ ٹیکس کا نشانہ خاص طور پر ان افراد اور فرموں کو بنایا جائے گا جو اِس نظام کو اِختیار کریں گی تاکہ ان کے پیداواری اخراجات منڈی کی قیمت خرید سے بڑھ جائیں۔ اِس کا سیدھے سبھاؤ مطلب یہ ہے کہ جب تک حکومت کے پاس مادرِ وطن کے نام پر جمہوریت بادشاہت اور آمریت وغیرہ کے جواز سے "حسب منشاء "Law of the land نافذ کرنے اور لامحدود ٹیکس اور پابندیاں لگانے کا صوابدیدی اِختیار Sovereignty موجود ہے، یہ سنہری نظام اپنی افادیت ثابت نہیں کر سکتا اور دستیاب ہونے کے باوجود بے سود رہے گا، عام آدمی کی بیزاری کا باعث بنے گا۔

یہ عرض کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ ظالمانہ ٹیکس مادرِ وطن اور قومی مفاد کے نام پر عائد کیے جاتے ہیں اور گزشتہ ابواب میں برتری کی ضرورت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی ہم سمجھ چکے ہیں کہ ایک اِجتماعی قومی تشخص ہر اِنسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اِسی اِجتماعی شناخت کو اگر ناقابل تغیر (یعنی ایسا تشخص جو تبدیل نہ ہو سکے مثلاً، نسلی یا وطنی شہریت وغیرہ) رکھا جائے تو یہ بنیادی اِنسانی ضرورت ہونے کی وجہ سے فرد کی ایسی مجبوری بن جاتا ہے جس کے ذریعے اُسے نفسیاتی طور پر بلیک میل کر کے اُس سے کوئی بھی مفاد پرستانہ حکم منوایا جا سکتا ہے۔

آج ساری دنیا میں صرف ایک تشخص ایسا ہے جس کو قانون سازی کیلئے بنیاد کی حیثیت دی گئی ہے۔۔۔ اور وہ ہے جغرافیائی بنیادوں پر مبنی قومی شہریت... یعنی پاکستانی قوم، امریکی قوم، فرانسیسی قوم، چینی قوم ....وعلی ہٰذالقیاس۔ اب اِس قومی تشخص کی اساس اگر درست کر دی جائے یعنی تشخص کی اساس نظریہ وطنیت کی بجائے اللہ کی حاکمیت کا نظریہ قرار دے دی جائے اور یوں قانون سازی کیلئے خالق کائنات کی ہدایات کو معیار مقرر کر دیا جائے، تو یقیناً وطنیت پر مبنی تشخص کا ڈنک نکل جائے گا اور اِس کی وجہ سے صرف ٹیکس ہی نہیں بلکہ ہر صوابدیدی قدغن، ہر جبر و استبداد کا راستہ مسدود ہو جائے گا۔

بظاہر یہ بات نہایت سیدھی سادی دکھائی دیتی ہے اور یہ بات ہر دور میں کہی بھی جاتی رہی ہے لیکن اصل سوال تو اس کے بعد نمودار ہوتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت کیا ہوتی ہے اور نبی کی غیر موجودگی میں خالق کائنات کی ہدایات کی تشریح اور ان کو قانون کی زبان میں متعین اور مدون کرنے کا اختیار کس کو حاصل ہے؟ ظاہر ہے کہ خطا سے مبرا بات تو صرف نبی کی ہو سکتی ہے اور اللہ کے حکم کے بارے میں قیامت کے روز یا تو انبیاء جوابدہ ہوں گے یا خود وہ شخص جس نے کسی بات کو اللہ کا حکم مان کر اس پر عمل کیا۔ کوئی بڑا سے بڑا مجتہد اور مفتی بھی خطا سے مبرا نہیں اور نہ ہی کسی دوسرے امتی کا بوجھ اٹھائے گا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت کسی مفتی کے کہنے میں آ کر کوئی ایسا قانون نافذ کر دے جو اس مفتی صاحب کی نظر میں تو اللہ کا حکم ہو لیکن آپ کی نظر میں نہ ہو اور آپ کی رائے میں اس حکم کی قانونی صورت کچھ اور ہو تو ظاہر ہے کہ آپ کو اس قانون کا نفاذ قبول نہ ہو گا۔ یہی کیفیت ان ہزاروں افراد کی ہو سکتی ہے جو اس حکم کی تشریح و تاویل کے بارے میں اپنی کوئی الگ رائے رکھتے ہوں گے، مثال کے طور پر اگر کوئی مفتی صاحب چور کا ہاتھ کاٹنے کیلئے اسے قصائی کے ٹوکے سے کاٹنے کی سزا درست سمجھیں جبکہ آپ اس سے مختلف رائے رکھتے ہوں یا یہ کہ کوئی اور شخص ہاتھ کاٹنے کے الفاظ کو استعارہ قرار دے اور اس کی تشریح و تاویل میں اس چور کو معاشرے میں محض بلیک لسٹ قرار دیا جانا کافی سمجھے تو یقیناً ایسا اختلاف ناقابل عبور ہو گا۔ ماضی میں بھی اس قسم کے اختلاف کی مثالیں قانون سازی کے وقت قدم قدم پر سامنے آتی رہی ہیں۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کے باعث آج تک اللہ کی حاکمیت کا تصور آئینی طور پر مدون نہیں کیا جا سکا کیونکہ ہر شخص یہ بخوبی سمجھتا ہے کہ اس نے بروز قیامت اللہ کے ہاں خود جواب دہ ہونا ہے، وہ کس طرح ایسی بات کو اللہ کا حکم تسلیم کر لے جس کے بارے میں اس کا اپنا ضمیر مطمئن نہیں ہے؟

قرآن نے اس مسئلے کا ایک انتہائی سیدھا سادہ اور منطقی حل دیا ہے لیکن اس حل کی طرف نہ جانے کیوں ہمارے مخلص دینی سکالرز بھی متوجہ نہیں ہونا چاہتے۔ یہ حل ہے قرآن کا تصورِ شاکلت یعنی ہر فرد کو اپنی چار دیواری میں اپنی مرضی کے پرسنل لاز نافذ کرنے کا اختیار اور آزادی دینا تاکہ عملی طور پر سامنے آ جائے کہ کس کی بات درست تھی۔ذیل میں ہم اسی آزادی کو قانون کی زبان میں متشکل کریں گے۔

اس تصور کا لب لباب یہ ہے کہ اگر ہر فرد کو یہ آزادی مل جائے کہ اگر وہ ایک نظریاتی تشخص کو چھوڑ کر کوئی دوسرا نظریاتی تشخص اپنانا چاہے یعنی صرف انہی ہدایات پر مبنی قوانین اپنی زندگی میں اختیار کر سکے جن کو وہ خود خالق کی ہدایات سمجھتا ہے خواہ سربراہ مملکت کا اجتہاد اس کی رائے سے مختلف ہی کیوں نہ ہو، تو اپنی چاردیواری میں اِس قسم کی قانون سازی کا حق اور سیدھا آسان طریقہ نفاذ اُسے دستیاب ہو تاکہ وہ اپنی ہر محرومی یا حماقت کا خود ذمہ دار ہو اور خراب نتائج مرتب ہونے پر نہ تو قانونی بے بسی کو مورد الزام ٹھہرا سکے اور نہ بروز قیامت یہ عذر پیش کر سکے کہ میں ایماندارانہ اور پاکباز زندگی بسر ہی نہیں کر سکتا تھا، اس لیے کہ مجھے ملکی قانون کے تحت اس طرح کی زندگی بسر کرنے کی آزادی ہی نہیں تھی اور میں گناہ پر مجبور تھا۔

اس تصور کا اقتصادی پہلو یہ ہے کہ اسلامی مملکت میں دو طرح کے باشندے ہوں گے۔ ایک وہ جن پر کوئی ٹیکس نہیں ہو گا اور جو عفو کے قانون کے مطابق اپنا زائد از ضرورت ہر اثاثہ انفاق کریں گے یعنی معاشرے کو بطور عطیہ یا بطور قرض پیش کر دیں گے، جبکہ دوسرے وہ باشندے ہوں گے جو اپنے زائد از ضرورت اثاثے کو اپنی تحویل میں رکھنا چاہیں گے اور جان و مال کے تحفظ کے عوض جزیہ ٹیکس ادا کریں گے۔دوسری طرف تمام پرسنل لاز کے نفاذ کی ہر باشندے کو اپنی چاردیواری کی حد تک آزادی ہو گی۔ آئیے اس تصور کا گہرائی میں جائزہ لیں۔

وطنی یعنی جغرافیائی یا علاقائی قومیت کا وجود پرسنل لاز کے حوالے سے عوام کی قانونی بے بسی کی بنیاد ہے۔ اس قومیت کا محافظ ملکی آئین ہوتا ہے اور یہ وطنیت ایک ایسا تشخص ہے جو ہر شہری پر پیدائشی طور پر ہی چسپاں ہوتا ہے اور کسی ناپسندیدگی کی صورت میں وہ اِس لیبل کو اتار پھینک بھی نہیں سکتا۔ اِس کا سب سے اندوہناک پہلو یہ ہے کہ شہری اِس لیبل کو اپنانے پر اِس قدر مجبور ہوتا ہے کہ اِس لیبل، اس تشخص کے نام پر ظالمانہ ٹیکس اور پابندیاں مسلط کیے جانے کو اپنی مرضی سے روک بھی نہیں سکتا۔

اِس کا دوسرا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ یہ قومی تشخص اگر کسی اعتبار سے کمتر ہے تو وہ شہری اُسے بالاتر کرنے کی فطری مجبوری کے باعث اِجتماعی جرم یعنی جنگ یا دہشت گردی سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شریعت کی اصطلاح میں اسی تشخص کو بت اور اس کی حفاظت کو بت پرستی کہتے ہیں۔

اگر کسی معاشرے کا آئینی تشخص علاقے کی بجائے نظریئے کی بنیاد پر متشکل ہو تو اِس فساد کی ممکنات ہی نہیں رہیں گی۔ عام آدمی جو نفسیات کی باریکیاں نہیں سمجھتا، اتنا تو ضرور جانتا ہو گا کہ اگر وہ اپنے اِجتماعی تشخص سے غیر مطمئن ہو تو اُس کے لیے اپنا نظریاتی تشخص بدل لینا یعنی اپنی قوم سے نکل کر دوسرے نظریہ کی علمبردار قوم میں شامل ہو جانا ایسی بات نہیں جس کیلئے اسے کسی کی اجازت درکار ہو۔ مثال کے طور پر وہ شخص جو ٹیکس، درآمد و برآمد، صنعتی و تجارتی و زرعی پالیسی، عائلی قوانین، لیبر ایکٹ، تعزیرات کے تعین یا ایسے کسی اور معاملے میں حکومت کے صوابدیدی اِختیار اور پابندیوں میں کوئی حرج نہیں سمجھتا اور اُس قوم کو اپنی شناخت سمجھتا ہے جو ہر اچھے برے ملکی قانون کی اِطاعت اپنا فرض قرار دیتی ہے، وہ شخص اگر کسی وقت حکمرانوں کے رویے سے دکھی ہو کر اِس صوابدیدی اِختیار کو نامناسب قرار دے اور اُس قوم میں شامل ہونا چاہے جو اِس اِختیار سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو خود کو اِن قوانین کا مطیع مانتی ہے اور نہ ہی اِس آئین کے عقب میں موجود قومی تشخص کو اپناتی ہے بلکہ یہ اِستحقاق رکھتی ہے کہ اپنے ملکیتی قطعہ اراضی میں ایک الگ آزاد قوم کی طرح اپنا آئین اور اپنا اقتصادی، انتخابی، عائلی، انتظامی، تعزیری اور بہبودی ڈھانچہ یعنی اپنے لیے پرسنل لاز قرآن کی روشنی میں خود متعین کرے۔۔۔ تو اس فرد کو اُس آزاد قوم میں شامل ہونے کا راستہ دستیاب رہے اور اُس قوم کی قانونی حیثیت اُس مملکت میں اسی طرح ایک مہمان کی سی ہو جس طرح دوسرے ممالک کے سفارتی عملے کی ہوتی ہے اور ان کے سفارت خانے کی عمارت کا قطعہ اراضی اگرچہ میزبان ملک کا ہی حصہ ہوتا ہے لیکن اُس چاردیواری کے اندر اسی ملک کے آئین کا اطلاق ہوتا ہے جس ملک کا وہ سفارت خانہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی فرد جو مملکت میں مہمان کی حیثیت اِختیار کیے ہوئے ہے، اگر کسی موقع پر مرکز کے زیر انتظام فیڈرل ایریا کے آئین کی افادیت کا قائل ہو کر اپنی مہمان شہری کی حیثیت ختم کرتے ہوئے مرکز کا باقاعدہ شہری بننا چاہے تو یہ اُس کا حق تصور کیا جائے۔۔۔ تب آزادی کا یہی احساس ہر فرد کو جرم یعنی جنگ یا دہشت گردی سے مانع ہو گا اور عالمی امن کیلئے کلید بنے گا۔

گویا ایک فطری اسلامی آزاد مملکت وہی ہو گی جو مختلف دساتیر پر مبنی ریاستہائے متحدہ کی صورت رکھتی ہو اور جس کے شہریوں کو اپنے نجی ملکیتی علاقے کو ایک ریاست کے طور پر ڈکلیئر کرتے ہوئے اُس میں اپنے لیے پرسنل قوانین منتخب اور مرتب کرنے کی یعنی مکمل آئین سازی کی آزادی حاصل رہے تاکہ ریاستوں میں مسابقت کی فضا جنم لے اور یوں بہتر سے بہتر قوانین اور معاشرے وجود میں آتے چلے جائیں۔ ان ریاستوں کے ملکیتی رقبے کے سوا دیگر تمام علاقہ فیڈرل ایریا سمجھا جائے اور اُس مملکت کا مرکز اپنے فیڈرل ایریا اور سرکاری جائداد (یعنی مملکت کے ناقابل فروخت علاقے، عسکری تربیت گاہیں، راستے، قدرتی وسائل وغیرہ)کے انتظام کا ذمہ دار ہو اور اپنے مرتب کردہ پرسنل لاز صرف انہی باشندوں پر نافذ کرے جو اس فیڈرل ایریا میں شامل ہونا ڈکلیئر کریں، مرکز ان کے سوا کسی دوسرے قطعہ اراضی پر یعنی کسی فرد یا افراد (کمیونٹی یا قوم) کے نجی ملکیتی علاقے میں اپنے صوابدیدی قوانین اور قدغن عائد اور مسلط کرنے کا اِختیار نہ رکھتا ہو۔ اب چونکہ آزادی کی اِس نعمت کا تمام بنی نوع اِنسانیت کیلئے دستیاب رکھنا قرآن کی رو سے مملکت کی ذمہ داری ہے لہٰذا اُس مملکت میں دنیا کے ہر شخص کو اِس شرط کے ساتھ آن بسنے کی اجازت ہو کہ اُسے مرکز کے زیر انتظام فیڈرل ایریا یا کسی نہ کسی ریاست کے آئینی تشخص کو بہرصورت اِختیار کرنا ہو گا یا اپنے پرسنل لاز ڈکلیئر کرنا ہوں گے۔

اب رہا یہ سوال کہ ٹیکس کی عدم موجودگی میں مملکت کے انتظامی اور فلاحی اخراجات کیلئے فنڈز کہاں سے فراہم ہوں گے؟ آئیے اس سوال کے جواب پر ایک نظر ڈالیں۔

قرآن نے اس مقصد کیلئے "انفال" کے ساتھ ساتھ "عفو" اور "اللہ کو قرض حسنہ" دینے کے عنوانات کے تحت بلا ٹیکس ریونیو کے تین لا محدود تصورات دیئے ہیں لیکن ان کا جائزہ لینے سے پہلے ریونیو کے مصارف کا تجزیہ کر لینا بہتر ہو گا۔اس کے ساتھ ہی ہم اس سوال کا جواب بھی متعین کریں گے کہ پرسنل لاز کے دائرے کی وسعت کہاں تک ہے اور اس دائرے میں کون کون سے قوانین آتے ہیں، اس کے بعد ہی ریونیو کے ان تین وسائل کا احاطہ ممکن ہو گا۔

عوام کی طرف سے اُس مملکت کی وہ ذمہ داری جس کیلئے مالی وسائل درکار ہوتے ہیں، صرف مواصلات، امن عامہ اور افراد و جائداد کی آئینی ریاستی حیثیت کی رجسٹریشن اور عدلیہ کے انتظامات ہیں۔ دیگر تمام شعبے جنہیں حکام اپنی ذمہ داری قرار دیتے ہیں جبکہ درحقیقت ان میں سے اکثر شعبے ان حکام کی مفاد پرستی کا بہانہ اور ذریعہ ہوتے ہیں مثلاً کرنسی، جیل خانہ، تعلیمی نصاب اور نظام امتحانات، سرکاری مہمانداریاں، امور خارجہ وغیرہ۔۔۔ یہ شعبے حکومت کی ایسی ذمہ داریاں نہیں ہو سکتیں جن کیلئے فنڈز درکار ہوتے ہیں۔ ان میں تعلیم اور روزگار تو ایسے شعبہ ہائے زندگی ہیں کہ اگر قانون درست کر دیا جائے تو یہ عوامی سطح پر امداد باہمی اور "این جی او" کے انداز میں کسی مالی سہارے کے بغیر بھی زیادہ بہتر طریقے سے انجام دیئے جا سکتے ہیں، کرنسی ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز کے چلن کی صورت میں تو اِس کے اخراجات بالکل ہی برائے نام رہ جائیں گے چنانچہ ایسی کسی بھی بنیاد پر عوام سے ان کی محنت کا ثمر چھیننے اور ٹیکس لگانے کا جواز پیدا نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ اگر حکومت ان ذمہ داریوں کو بھی سر انجام دینا چاہے تو یہ اُس کی اپنے عوام کیلئے ایسی خدمت تصور ہو جس کا مالی انحصار قدرتی معدنی و آبی وسائل، غیر ملکی سیاحوں سے حاصل شدہ ریونیو یا ایسے دیگر وسائل پر ہو جن کا بوجھ مملکت کے شہریوں پر نہیں ہوتا چنانچہ حکومت ان ذمہ داریوں کے جواز پر عوام سے زبردستی کچھ وصولنے کا حق نہ رکھتی ہو تاکہ مفاد پرستی کا دروازہ نہ کھل سکے۔۔۔ جیل خانہ جات کا متبادل اور خارجہ پالیسی اور مملکت کے دفاع کا مالی اعتبار سے خود کفیل نظام تو آئندہ صفحات میں زیر نظر آئے گا جبکہ دیگر شعبے عوام کی ایسی ضرورت نہیں ہیں جن کیلئے انہیں حکومت کی مالی احتیاج ہو، اِس لیے یہ شعبے عوام کی طرف سے حکومت کی ذمہ داری نہ قرار دیئے جائیں۔ جہاں تک داخلی امن و امان کا تعلق ہے تو یہ کوئی الگ شعبہ نہیں ہے بلکہ مواصلات کے تحفظ کے دائرے میں آتا ہے، لیکن جرم اگر مملکت کے فیڈرل ایریا میں نہیں ہوا تو حکومتی انتظامیہ کی ذمہ داری ملزم کی کھوج، تفتیش، گرفتاری، تحویل اور عدالتی کارروائی تک ہے جبکہ اِستغاثہ اور تعزیر کے تعین پر بہرحال حکومت کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ اِستحقاق اُس ریاست کا ہے جس کی حدود میں جرم کا اِرتکاب ہوا ہے، وہی ریاست اپنے تعزیری معاملات کا مالی بوجھ بھی برداشت کرے گی۔ حکومت صرف انہی جرائم پر اپنے قانونِ تعزیر کے اطلاق کا اِختیار رکھتی ہے جو اُس کے علاقے یعنی فیڈرل ایریا میں مرتکب ہوں۔ اِن تعزیری اخراجات مثلاً جیل خانہ جات کا مالی بوجھ بھی مملکت کے تمام باشندوں پر یعنی قومی خزانے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ بوجھ خود مجرم اور صرف ان افراد کو اٹھانا ہو گا جو ضابطۂ تعزیرات میں قید کی سزا شامل کرنے کے قائل ہیں۔ انتظامیہ کی ذمہ داری صرف ملزم کی گرفتاری اور تحویل، اُس کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کے عدالتی فیصلے اور اُس کے ریکارڈ تک محدود ہو۔ اِس اصول کے متعین ہونے کے بعد اِس شعبے پر بھی حکومتی غیر معمولی اخراجات کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔ یہاں یہ یاد رکھنا لازم ہے کہ ہم اُس معاشرے کا ذکر کر رہے ہیں جس میں جرائم کی تعداد تقریباً صفر ہو گی جیسا کہ سابقہ باب میں ہم مشاہدہ کر چکے ہیں۔

مختصر یہ کہ رجسٹریشن اور ریکارڈ، رسل و رسائل، صحت عامہ، امن و امان اور فلاح و بہبود قائم رکھنے والے انتظامی و عدالتی اداروں، اموال و جائداد کے تنازعات تک محدود سول عدالتوں اور مرکزی سطح پر اعلیٰ عدالتوں کی ذمہ داری کیلئے بہت کم مالی وسائل درکار ہوں گے کیونکہ ہم گزشتہ ابواب میں دیکھ چکے ہیں کہ معاشرے میں ہوس زر کا کوئی وجود نہیں ہو گا۔ یہ وسائل صنعت و تجارت کے حکومتی پراجیکٹس کی کھلی منڈی میں مسابقت، غیر ملکی افراد کی سیاحت، غیر مسلم شہریوں سے ٹیکس، ہر سیکرٹریٹ کا کمرشل ایریا اور میڈیا، افواج سے بیس فیصد انفال (انفال کی تفصیل اگلے باب میں آئے گی) اور قدرتی معدنی و آبی وسائل کے علاوہ ان عوامی عطیات و صدقات سے بھی حاصل ہوں جو معاشرے میں دولت کے برتری کی علامت نہ رہنے کی وجہ سے مملکت کے افراد یعنی فیڈرل ایریا کے شہری اور مہمان شہری بصد ذوق و شوق اِس لیے بھی پیش کریں گے کہ اِس سے ان کے معاشرتی وقار میں اضافہ ہو گا۔ قرآن کی رو سے تو ہر مسلم شہری پر اپنی ضرورت سے زائد سب کچھ اِجتماعیت کیلئے بطور عطیہ یا بطور قرض پیش کر دینے کا حکم ہے خواہ اُس کی کمائی محض ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو، تاہم اِس زائد از ضرورت کے تعین کا اِختیار بھی کسی محکمہ ٹیکس وغیرہ کو نہیں بلکہ خود اُس شہری کو حاصل ہے۔ اِسی لئے اِس عمل کے دو مختلف پہلوؤں یعنی عطیہ اور قرض کو قرآن میں ٹیکس یا خراج کی بجائے عفو، صدقات، اللہ کو قرض حسنہ، اور انفاق کی اصطلاحات دی گئی ہیں۔ (عفو کے ان عطیات و صدقات کی کولیکشن کا آسان ترین لائحہ ہم گزشتہ باب "ضابطۂ قانون اور طریق نفاذ" میں کفالتی نظم عدالت کے ذیل میں اعزازی مجسٹریٹ یعنی ہر مذہب کے مذہبی رہنماؤں اور پیشواؤں کے لیے ذریعہ معاش کی فراہمی کے حوالے سے زیر نظر لا چکے ہیں۔اللہ کو قرض دینے کے تصور کی وضاحت آئندہ سطور میں زیر نظر آئے گی) مزید ترغیب کیلئے ایسے عطا کنندگان شہریوں کو مرکزی قیادت کیلئے ووٹ کے حق اور عزت افزائی کے خطابات و اعزازات سے نوازا جا سکتا ہے، اعزازی عدالت ہائے احتساب میں رکن جیوری اور مدعی کی اہلیت دی جا سکتی ہے۔ اِس ضمن میں اعزاز و اکرام کی سالانہ میرٹ لسٹ اِس سوال کے جواب کی بنیاد پر بنے گی کہ اُس نے اللہ کی دی ہوئی کتنی دولت ضروریات زندگی کے نام پر گھریلو سامان، ملبوسات، زیورات اور سامان تعیش و نمود و نمائش کی کن کن صورتوں میں روک رکھی ہے؟ (اس میرٹ لسٹ اور عدالت احتساب کا تفصیلی ذکر آئندہ سطور میں آ رہا ہے۔) اِسی طرح اپنے تمول کے بارے میں جھوٹ بول کر سامان نمود و نمائش کی زیادہ صورتوں پر دولت روک رکھنے اور کم بتانے والے شہری کو خبیث ملعون قرار دے کر معاشرے میں رسوا کیا جا سکتا ہے مثلاً اُس کی عدالتی گواہی اور ووٹ کو ناقابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے، اُس کے ساتھ لین دین کرنے والوں کیلئے حکومت خود کو اُس کی ضمانت سے بری الذمہ قرار دے سکتی ہے، اُسے کسی بھی اعزازی عدالت کی کارروائی میں ذمہ دارانہ حیثیت سے شامل ہونے کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔ وغیرہ، لیکن اُس سے ٹیکس یا جرمانہ کے نام پر بہرحال کچھ بھی زبردستی وصول نہیں جا سکتا۔

ان وسائل کے علاوہ جب ان مثالی معاشروں میں دنیا کے کونے کونے سے افراد آنا شروع ہوں تو افرادی قوت کے زور پر پوری اِنسانیت کو آزادی فراہم کرنے والا ایسا خود کفیل عسکری نظام متشکل ہو گا جو ریاستی مالی وسائل کا بہت بڑا ماخذ بھی بنے گا، ایسا ماخذ کہ یہ مالی وسائل سنبھالے سے بھی سنبھلنے میں نہ آئیں۔ (اس کی تفصیل آئندہ باب "قوت نافذہ" میں مذکور ہے ) آزادی کے اِسی دستور کی پوری اِنسانیت کیلئے دستیابی اِس مملکت کی خارجہ پالیسی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ پالیسی مالی وسائل کی محتاج نہیں ہے۔

قومی خزانے کا اِستعمال نہایت محدود ہے۔ یہ عدل و احسان یعنی انصاف اور فلاح و بہبود اور امن عامہ کے علاوہ صرف مواصلات اور ان کے انتظام،ترقی و تحفظ کیلئے اِستعمال ہو سکتا ہے۔ خارجہ پالیسی، دفاع اور غیر ترقیاتی معاملات کی مد میں اِس کا اخراج مرکز کے دائرہ اِختیار میں بھی نہیں ہو سکتا۔

مرکزی حکومت صرف انہی افراد پر اپنے پرسنل لاز پر مشتمل ریاستی آئین، اپنے صوابدیدی قوانین و تعزیرات نافذ کر سکے جو اِس مملکت میں مہمان نہیں بلکہ سیاح ہوں یا فیڈرل ایریا کی ریاست (یعنی وہ ریاست یا صوبہ جس کی آئین سازی مرکز کرے گا) میں اپنی شہریت ڈکلیئر کرنے والے شہری ہوں۔ جو فرد فیڈرل ایریا کا شہری نہیں ہے بلکہ کسی دیگر ریاست کا شہری ہے اور اُس کی حیثیت مملکت میں مہمان شہری کی ہے، اُس پر فیڈرل ایریا میں نافذ پرسنل قوانین کا اطلاق نہیں ہو گا بلکہ ان قوانین کا اطلاق ہو گا جو اِس کی ریاست نے بطور آئین ڈکلیئر کر رکھے ہیں۔

اب ہم اس بات جائزہ لیتے ہیں کہ پرسنل لاز کے دائرے کی وسعت کتنی ہے۔

اس سوال کا ایک جملے میں جواب تو یہی ہے کہ ہر وہ قانون جس کا اطلاق مختلف علاقوں، مختلف چار دیواریوں پر علیحدہ علیحدہ ممکن ہو، پرسنل قانون ہے اور اس تعین میں اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ سربراہ مملکت یا مقننہ کی نظر میں کس قانون کو پرسنل قرار دینا مناسب ہے اور کس کو اجتماعی، اصل نکتہ یہی ہے کہ ہر وہ قانون پرسنل ہے جس کا پرسنل اطلاق ممکن ہے۔ تاہم اس دائرے کا تفصیلی مشاہدہ لازم ہے۔

ان پرسنل لاز کے ضمن میں بھی قرآن کے منافی کوئی قانون بنانے کی اجازت کسی ریاست کو نہیں ہے۔اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر ریاست کے آئین کی تشکیل کیلئے آیات قرآنیہ کی تعبیر و تاویل کا اِختیار اس ریاست کی قیادت کو حاصل ہو گا اور اِس حوالے سے فیڈرل ایریا سمیت تمام ریاستیں یکساں آزاد حیثیت رکھتی ہیں۔ (مثال کے طور پر اگر کسی وقت فیڈرل ایریا یا کسی بھی ریاست میں ایسی قانون سازی کی جاتی ہے جس کیلئے قرآن کے مقابلے میں گورننگ باڈی، پارلیمنٹ یا کسی بھی فرد یا ادارے کی ساورنٹی اور صوابدید کو قانون سازی کی دلیل قرار دیا گیا ہو تو عدالت اُس قانون کو معطل کرنے کا فیصلہ سنائے گی اور اگر اِس فیصلے کو مسلم عوام کی طرف سے اعتماد کا ووٹ مل گیا تو متعلقہ ریاست میں یہ قانون منسوخ تصور ہو گا مثلاً یہ کہ سودی معیشت کو قانونی تحفظ تو کسی ریاست میں بھی نہیں دیا جائے گا، تاہم الفاظ "سود" اور "ربٰوا" کی قرآنی تعبیر ہر ریاست اپنی صوابدید، اقوال اسلاف، فقہ وغیرہ کی بنیاد پر خود کر سکے گی۔ ایسے قوانین جن میں قرآن کی طرف سے کوئی دو ٹوک ہدایات جاری نہیں کی گئیں مثلاً ٹریفک کے قوانین وغیرہ، تو اِس ضمن میں فیڈرل ایریا سمیت ہر ریاست کو اپنے لیے اپنے من پسند ضوابط کا انتخاب کرنے کی آزادی ہو گی۔) دوسری طرف اجتماعی قوانین کے قرآن کے منافی نہ ہونے کا حتمی تعین جمہوری طریق پر استصواب رائے عامہ کی بنیاد پر کیا جائے گا۔شرعی اصطلاح میں اس تصور کا نام اجماع امت ہے جبکہ دورِ حاضر کی اصطلاح میں اسے اوپن عوامی ریفرنڈم کہیں گے۔ اسلامی تاریخ میں اس ریفرنڈم کی عملی مثال صلوٰۃ جمعہ کی بیعت کی صورت میں موجود ہے۔

حکومت کسی ایسے فرد پر جبراً کوئی ٹیکس، کوئی قدغن نہیں مسلط کر سکتی اور نہ ہی اِس پر تجارت یا درآمد و برآمد اور تعلیم و عقائد وغیرہ کے حوالے سے کوئی شرط عائد کر سکتی ہے جو اِس مملکت کے فیڈرل ایریا کا نہیں بلکہ اِس کی کسی ریاست کا شہری ہے اور جسے مملکت کے قانون شہریت میں مہمان شہری کی حیثیت حاصل ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسی بات کو یوں کہیں گے کہ حکومت کے پاس پابندیوں، انفلیشن اور بالواسطہ ٹیکسوں کا اختیار قطعاً نہیں ہو گا جب کہ براہ راست ٹیکس بھی وہ صرف انہی باشندوں پر عائد کر سکے گی جنہوں نے خود کو فیڈرل ایریا کا شہری ڈکلیئر کیا ہو گا۔

قرآن کے بنیادی اِجتماعی اصولوں کی پابندی اِس ریاستی آزادی کی بنیادی شرط ہے۔ اِجتماعی اصول حکمرانوں کے انتظامی اختیارات اور ان سے متعلق قوانین کیلئے ہوتے ہیں، وہ قوانین جن کا اطلاق معاشرے کے ہر فرد پر ہوتا ہے، مثال کے طور پر کرنسی، قدرتی وسائل اور مصارف خزانہ، انفاق (ریونیو) فی سبیل اللہ کے لیے وسائل کے دو پہلو یعنی صدقات اور اللہ کو قرض دینے کا آسان راستہ، عسکریت اور دفاع کا انتظامی لائحۂ خود کفالت، قیادت کا انتخاب اور اس قیادت کے ہمہ وقت اور فوری احتساب (نظام صلوٰۃ اور بیعت) کا طریقہ کار، شہریوں کی جان و مال کا ریکارڈ اور تحفظ یعنی عوامی بہبود، انتظامیہ اور عدلیہ، یہ اِجتماعی معاملات ہیں جبکہ دیگر تمام امور مثلاً ٹیکس اور زکوٰۃ، عائلت، جرائم و تعزیرات، وراثت، لیبر ایکٹ، غذا، عقیدہ و مسلک وغیرہ معاملات کسی بھی ایک چاردیواری تک محدود تصور ہو سکتے ہیں اور ہر چاردیواری کیلئے الگ الگ قوانین کا اطلاق ممکن ہے لہٰذا پرسنل قوانین کے دائرے میں آئیں گے۔ یہ اِس لیے بھی اِنفرادی حیثیت کے حامل ہیں کیونکہ ان سے متعلق قوانین کا اطلاق معاشرے کے ہر فرد پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اُسی فرد پر ہوتا ہے جو متعلقہ قانون کی شرائط پر پورا اترتا ہے اور اِسی لیے ان قوانین کے بارے میں قرآن کے ماننے والوں میں فروعات کا اختلاف بھی موجود ہے چنانچہ ان قوانین کو پرسنل لاز کہا جائے گا تاہم ان کی آسان پہچان وہی ہے جو پہلے ذکر کی گئی کہ ہر وہ قانون جس کا اطلاق ہر چاردیواری پر علیحدہ علیحدہ ہو سکے پرسنل لاز کے دائرے میں آئے گا اور ان پرسنل لاز کو اپنے لیے تشکیل دینے کی ذمہ داری ہر فرد کی اپنی ہو گی۔ ہم اگر عوام کے سامنے اعتماد کے ووٹ کیلئے کسی ریاستہائے متحدہ کے وفاق کا دستور بنا کر احتساب عدالت میں پیش کریں گے تو اُس وفاقی دستور میں ریاستوں کیلئے ان فروعات، ان پرسنل قوانین کیلئے قانون سازی کی آزادی برقرار رکھیں گے تاکہ ہر فرد ان معاملات میں اپنی صوابدید کے مطابق اپنے اِنفرادی معاملات کیلئے متعلقہ پرسنل قوانین کا انتخاب یا تدوین کر سکے یعنی اپنے حسب منشا ریاست کا انتخاب کر سکے۔اس آزادی کو سمجھنے کیلئے ایک آسان مثال سرکاری محکمہ جات کی ہے۔ ہر وہ حکم جو پورے محکمے پر محیط ہو وہ عام طور پر متعلقہ وزارت کی طرف سے جاری ہوتا ہے جبکہ اندرونی محکمانہ انتظامی معاملات اور تبادلوں وغیرہ کے ضمن میں متعلقہ عہدیداروں کے پاس ہی اِختیارات ہوتے ہیں۔ دوسری آسان تر مثال یہ ہے کہ جمہوری نظام میں عام طور پر صدر مملکت مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے اور ہر ایسا حکم جو پوری مسلح افواج پر لاگو ہوتا ہو صدر مملکت کی طرف سے ہی جاری ہوتا ہے لیکن اگر فوجی عدالت کسی جوان کے خلاف اُس کی کسی بے ضابطگی کے ارتکاب پر کوئی تعزیری کارروائی کرتی ہے تو یہ سپریم کمانڈر اُس سزا پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ عین یہی تصور ہماری رائے میں قرآن کی طرف سے پوری مملکت کیلئے عطا کیا گیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس میں پرسنل لاز کے تعین کے حوالے سے مرکز کے ہاتھ بندھے ہیں۔ ہر قانون پرسنل لا ہے جب تک کہ عوام اس کے اجتماعی قانون ہونے کی اوپن ریفرنڈم میں توثیق نہ کر دیں، مرکز کسی بھی قانون کو جب چاہے عوام کی توثیق کے بغیر محض اپنی صوابدید پر اجتماعی قانون قرار نہیں دے سکتا۔

قانون کی زبان میں اِس تصور کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ۔۔۔ (الف) ہر چاردیواری ایک انتظامی اکائی یعنی یونٹ کی حیثیت اِختیار کر سکتی ہے اور اس حیثیت سے اپنے قرآنی دائرۂ شاکلت میں پرسنل لاز کی قانون سازی کا اِختیار رکھتی ہے۔۔۔۔ (ب) ہر فرد کو اِستحقاق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے ایک انتظامی یونٹ سے لاتعلق ہو کر کسی بھی دوسرے انتظامی یونٹ سے متعلق ہو سکتا ہے۔۔۔۔ (ج) ہر دو انتظامی یونٹوں کو اِستحقاق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے باہم انضمام کر کے ایک ہی یونٹ کے طور پر خود کو ڈکلیئر کر سکتی ہیں خواہ ان کی چار دیواریاں باہم متصل نہ بھی ہوں۔

قرآن کے بنیادی اصولوں کی دوسری تمثیل یہ ہے کہ زمین و آسمان میں ہر شے کا مالک خود اللہ ہی ہے اور اس نے انسان کو اس کائنات اور اس کی اشیاء کا مالک نہیں بلکہ امانت دار اور وارث بنایا ہے اور انسان کی ذمہ داری ہے کہ اس امانت کو اسی طرح رکھے جیسا اس کے مالک نے ہدایات دی ہیں، مثال کے طور پر ہماری رائے میں ملکیت زمین یعنی وراثت ارضی صرف سطح زمین تک محدود ہے، زیر زمین معدنی ذخائر اور فضائی حدود کی آمدن پر پورے معاشرے کا حق ہے لہٰذا یہ وسائل مرکز کے تصرف میں آئیں گے اور اِجتماعی مقاصد کیلئے اِستعمال ہوں گے۔ اِسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کے مطابق مطلق سرمایہ کاری کی بنیاد پر ہونے والی آمدن مثلاً سلیپنگ پارٹنرشپ، جائداد کا کرایہ، مزارعت، زرعی زمین کا ٹھیکہ، غرض ہر وہ منافع جس میں سرمایہ کار کی محنت شامل نہیں ہے، اُس پر کسی فرد واحد کا اِنفرادی طور پر کوئی حق نہیں ہے، یہ منافع پوری امت کیلئے ہے۔ ہماری دانست میں قرآن کے مطابق فرد کا اِستحقاق اُسی منافع پر ہے جس کا حصول اُس کی محنت کے باعث ممکن ہوا۔ مطلق سرمایہ کاری کے جواز پر منافع میں حصہ دار بن جانا قارونیت ہے۔ قارون کو جب کہا گیا تھا کہ تم نے جو دولت سرمایہ کاری کی بنیاد پر اکٹھی کی ہے اس پر سب کا حق ہے تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ یہ دولت میں نے اپنی عقل سے کمائی ہے۔

دوسری طرف ہر شہری کیلئے اپنے تمام منقولہ و غیر منقولہ اثاثے مرکز کے زیر علم رکھنے اور ان اثاثوں میں سے اپنی ضرورت کیلئے رکھ کر باقی رقم مرکز کو فلاحی مقاصد کیلئے بطور عطیہ یا بطور قرض پیش کرنا قرآن کی رو سے لازم ہے۔ فرد کی آزادی صرف اپنی ضروریات کیلئے اِخراجات کی مقدار کے تعین تک ہے یعنی اُس کو یہ آزادی تو حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تو اپنی تمام دولت اپنی ضروریات کیلئے ہی مختص کر سکتا ہے لیکن اِس ذمہ داری سے ہی انکار کر دینے کی آزادی نہیں ہو گی کہ اپنی ضروریات کا تعین اپنی مرضی سے کرنے کے بعد بھی اگر اُس کے پاس کچھ اثاثہ باقی ہے اور وہ اِس کو فوری طور پر کسی معاشی اِستعمال میں لانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا تو بھی اِسے اپنی کسٹڈی میں بلاک کر کے رکھنے یا اس کے ذریعے بغیر محنت منافع حاصل کرنے پر مصر رہے اور اِس دولت کے اِجتماعی فلاحی مقاصد کیلئے اِستعمال ہونے کی راہ میں مزاحم ہو۔ مختصر یہ کہ ٹیکس دیئے بغیر مملکت کے انتظامات اور اجتماعی سہولتوں سے استفادے کا حق صرف اسی شہری کا ہے جو قرآنی حکم "انفاق" پر کاربند ہو۔ اب اگر کچھ لوگ جو اِس اِستشہاد اور اجتہاد کو اِسلام کے مطابق نہیں سمجھتے، انہیں بھی اجازت اور آزادی ہونی چاہیے کہ وہ جس رائے کو مطابق اِسلام سمجھتے ہیں اِس کے مطابق قانون سازی کر کے اِسے اپنی ڈکلیئرڈ ریاست میں نافذ کر سکیں اور پھر اپنی جان و مال کی حفاظت کے خود ذمہ دار بنیں یا ٹیکس کے عوض یہ ذمہ داری حکومت کے سپرد کریں جبکہ پرسنل لاز کی تشکیل پر بہرحال ان کا اپنا اختیار ہے۔ آسان مثال میں پرسنل لاز کے اِس تصور کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی والیِ ریاست شہری خواہ وہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو، یہ کہتا ہے کہ داڑھی نہ رکھنے والا شخص اپنے رب کا باغی اور فاسق ہے جس کی کوئی نماز روزہ قابل قبول نہیں اور اِسی وجہ سے وہ نماز کی امامت کیلئے نااہل ہے لہٰذا اسے امامت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔۔۔۔ تو اِس کو یہ آزادی تو ہونی چاہیے کہ وہ اپنی چاردیواری، اپنی فیڈرل ایریا کی ریاست میں ہر مرد شہری کیلئے داڑھی رکھنے کو قانونی طور پر لازم قرار دے سکے جبکہ دوسری طرف اگر کوئی فرد اِس رائے سے متفق نہیں ہے تو وہ اِس ریاست یا فیڈرل ایریا کا شہری بنے رہنے پر مجبور نہ ہو۔

اِجتماعی اصولوں کے لفظ کا مفہوم یہ بھی ہے کہ یہ اصول قانون کی روح کے عکاس ہوتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی، جیسے "دین میں زبردستی نہیں ہے " اور " ہرفرد اپنے دائرہ شاکلت میں کام کرتا رہے جو درست اور بہتر ہو گا، وقت کے ساتھ خود ہی ثابت ہو جائے گا " یہ اصول ایسے معاملات سے متعلق ہوتے ہیں جن سے معاشرے کا ہر فرد خود بخود متاثر ہوتا ہے خواہ وہ کوئی اقدام کرے یا نہیں جبکہ اِنفرادی معاملات وہ ہوتے ہیں جن سے فرد تبھی متاثر ہوتا ہے جب وہ اِس حوالے سے کوئی اقدام کرتا ہے مثلاً عائلی قوانین سے فرد تبھی متاثر ہوتا ہے جب وہ شادی کرتا ہے چنانچہ ایسے معاملات کو وفاقی آئین یا میگنا کارٹا کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ وفاقی آئین جن اصولوں پر مبنی ہو گا وہ اِجتماعیت سے متعلق ہیں۔

ان اصولوں کے ماخذ کا جائزہ لینے سے پہلے یہ نکتہ زیر غور لانا مناسب ہے کہ اس تصور حکومت میں حکمرانوں کی نیک نیتی کی گارنٹی کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ نظام بھی دوسرے ہر گورننگ سسٹم کی طرح حکمرانوں کے خلوص نیت اور جذبۂ خدمت کا محتاج ہے اور یہ احتمال موجود ہے کہ اگر کوئی حکمران فرعون بن جائے تو نظام تلپٹ کر کے رکھ دے گا، تو یہ ساری ایکسرسائز بے معنی ہو جاتی ہے۔ لازم ہے کہ اس سسٹم میں عارضۂ فرعونیت کی ویکسین موجود ہو۔ یہ ویکسین ہے عوامی احتساب کی کھلی کچہری اور نفاذِ قانون کیلئے عوامی توثیق۔

ہم جن فرعونی نظاموں کے عادی ہو چکے ہیں ان کی سب سے پہلی شناخت یہ ہوتی ہے کہ مقننہ اور پارلیمنٹ کی ذمہ داریوں میں عوام کے سامنے احتساب کیلئے پیش ہونے کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی فرعونی مقننہ یہ قانون سازی کر دے کہ اس کے ارکان کو قومی خزانے سے کروڑوں اربوں روپوں کی تنخواہیں اور مراعات ملیں گی تو اپنے خون پسینے کی کمائی سے قومی خزانہ بھرنے والے عوام تو دور کی بات، مملکت کا چیف جسٹس بھی اس مقننہ کی ایسی فرعونیت کا راستہ نہیں روک سکتا۔ اسلام میں بیعت کا جو تصور دیا گیا ہے وہ اسی فرعونیت کی ممکنات ختم کرنے کیلئے ہے۔ اس تصور کو آج کی زبان میں یوں کہیں گے کہ ہر قانون سازی اپنے نفاذ کیلئے عوام کی توثیق کی محتاج ہو گی اور یہ توثیق یا منظوری نمازِ جمعہ کے موقع پر اوپن ریفرنڈم کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔ اسی طرح حکام کی کارکردگی اور اختیارات کے جائز و ناجائز استعمال پر ان کے احتساب اور باز پرس کیلئے اسی مسجد میں کھلی کچہری قائم ہو گی۔ ذیل کی سطور میں اجتماعی قانون کے اصولوں کے ماخذ کے ساتھ اسی بیعت یا عوامی توثیق اور احتساب کا طریق کار تجویز کیا گیا ہے۔

قانون سازی کے ان قرآنی اصولوں کو جن کا تعلق مملکت کے انتظامی طریق کار سے ہے، حتمی طور پر مرکزی مقننہ ان احکام کی براہِ راست ترجمانی کی صورت میں ترتیب دے گی جنہیں قرآن میں "محکمات اُم الکتاب" کا نام دیا گیا ہے اور جن میں قرآنی ہدایات کسی تشبیہ کے ساتھ نہیں بلکہ سیدھے سبھاؤ دو ٹوک انداز میں بیان کر دی گئی ہیں۔ مقننہ کے اِس ترتیب و تدوین کے عمل میں کسی فرد کے مذہبی و مسلکی عقائد و اِستنباط و اِستدلال و اِجتہاد و نظریہ کو حجت کی حیثیت حاصل نہیں ہو گی، البتہ ان کو مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔ اِس عمل ترتیب و تدوین کی محتسب وہ اعزازی عدالت احتساب ہو گی جس کا ذکر ذیل کی سطور میں آ رہا ہے۔ اُس عدالت کا ہر فیصلہ اپنے نفاذ کیلئے عوام کے اُس تائیدی ووٹ کا محتاج ہو گا جسے شریعت کی اِصطلاح میں بیعت کہا جاتا ہے۔ یہ اصول فیڈرل ایریا سمیت ہر ریاست کے تمام شہریوں پر لاگو ہوں گے اور ان اصولوں کی حیثیت ہر ریاست کے آئین کیلئے "محکمات اُم الکتاب" یعنی اساس یا دورِ حاضر کی برطانوی اصطلاح میں میگنا کارٹا کی ہو گی اور اِس اساس کی موجودگی میں فیڈرل ایریا سمیت ہر ریاست کو اپنی اپنی صوابدید و فقہ و امامت و اِستنباط و تاویل و اجتہاد کے مطابق پرسنل قوانین کیلئے آئین سازی کی آزادی ہو گی لیکن اِس اساس سے ہی روگردانی کر سکنے کی آزادی نہیں ہو گی خواہ اُس کی صوابدید و الحاد و مذہب و مسلک و فقہ و امامت و اجتہاد اِس اساس سے پوری طرح متفق ہو یا نہ ہو۔ ریاستوں کو آئین سازی کی یہ آزادی صرف شہریوں کے پرسنل لاز یعنی عائلت، وراثت، فقہی لائحۂ پرستش، فوجداری ضابطۂ تعزیرات، گارڈین ایکٹ، کاروبار اور لیبر ایکٹ، نظام و نصاب تعلیم اور ایسے دیگر اِنفرادی معاملات تک ہے جبکہ مملکت کے انتظامی اختیارات کا استعمال اور تمام شہریوں پر لاگو ہونے والے قوانین کی اساس مملکت کے تمام شہریوں کی جمہوری اکثریتی توثیق کے بغیر نافذ نہیں ہو سکے گی۔

ذیل میں "بطور تمثیل" قانون سازی کے اِختیارات کی تقسیم کیلئے اِجتماعیت کی اِسی اساس کو شق وار مرتب کیا جا رہا ہے۔