ہر شہری کو اللہ نے یہ حق دیا ہے کہ اُسے ان قوانین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو جن کو وہ اپنی دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت تصور کرتا ہے کیونکہ اُسے اپنے رب کے سامنے ان احکام کی اِطاعت کیلئے خود جوابدہ ہونا ہے اور کسی دوسرے اِنسان یا ادارے کی ایسی رائے کی مجبوراً اِطاعت جس کو وہ اپنے خالق کے احکام سے ہم آہنگ نہیں سمجھتا، اُسے آخرت کی سزا سے نہیں بچا سکتی خواہ یہ دوسرا اِنسان یا ادارہ خود سربراہِ مملکت یا پارلیمنٹ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اُس شہری کا یہ احساس بھی قائم رہنا چاہیے کہ وہ اپنے اِنفرادی نظام زندگی کیلئے کسی دوسرے اِنسان یا اِنسانی ادارے اور مقننہ کا پابند اور محکوم نہیں ہے بلکہ صرف اپنے خالق کا محکوم ہے چنانچہ اُسے خالق کے مقرر کردہ قرآنی شاکلت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے لیے اپنی مرضی کی ترتیب زندگی جسے دورِ حاضر کی اِصطلاح میں نیم خود مختار آئینی ریاست، صوبہ یا انتظامی یونٹ کہا جا سکتا ہے، تشکیل دینے کی آزادی حاصل رہے اور اُسے یہ معلوم رہے کہ اگر وہ سربراہِ حکومت کے تشکیل کردہ آئین کو اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کیلئے نااہل یعنی غیر اسلامی سمجھتا ہے تو وہ اپنی ذات پر ظلم کرنے پر مجبور نہ ہو بلکہ اُس پر اللہ کی زمین یعنی اللہ کا قانون اتنا وسیع ہو کہ وہ جب چاہے اِس ناپسندیدہ آئین کے دائرۂ نفاذ سے باآسانی ذہنی اور قانونی ہجرت کر کے اپنے پسندیدہ آئین کے دائرہ نفاذ میں جا سکے۔ اِس ضمن میں لازم ہے کہ اُس کیلئے قانون سازی کے اِختیارات کی حدود واضح ہوں جنہیں قرآن نے شاکلت کا نام دیا ہے۔۔۔ اور اِس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے مملکت یا فیڈریشن کی مرکزی قیادت کیلئے اِجتماعی قانون سازی کا دائرہ اختیار متعین ہو جائے تاکہ باقی تمام علاقہ قانون سازی کو فرد کا اِنفرادی دائرہ شاکلت تصور کر لیا جائے اور اِس سے متعلقہ معاملات کے بارے میں قانون سازی پر فرد کا اِنفرادی اِختیار مسلمہ ہو جائے۔اسی اِجتماعی تعین کو ایک مثال کے طور پر ذیل کی شقوں میں آئینی اساس کے عنوان سے ترتیب دیا گیا ہے۔