ہر فرد اور ادارہ اپنے تمام منقولہ و غیر منقولہ اثاثے معاشرے کے ملاحظے کیلئے مرکز کے زیر علم رکھے گا اور مرکز ان معلومات کو احتسابی مقاصد کیلئے معاشرے کے تمام افراد کے سامنے کھلا رکھے گا۔ ہر فرد اور ادارہ و ریاست پر لازم ہو گا کہ وہ قرآن کے حکم کے مطابق اپنی جائداد اور اپنے ایسے تمام اثاثے بھی جو تجارتی یا غیر تجارتی، ذاتی و فلاحی مقاصد کیلئے رکھے ہوئے ہوں اور خواہ وہ نقد ہوں یا سامان اور اشیاء کی صورت میں ہوں، اللہ کو یعنی مرکز کو بطور قرض دے تاکہ دولت مالداروں کے مابین جامد نہ ہو جائے اور گردش میں رہے چنانچہ اِس کا آسان طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ افراد اور ادارے اپنے "تمام" نقد اور منقولہ اثاثے اپنے پاس گھر میں نہ رکھیں بلکہ سود سے پاک سرکاری بینک میں جو خاص طور پر اِسی مقصد کیلئے قائم کیا جائے گا، اکاؤنٹس کھولیں اور ان میں جمع رکھیں اور اگر لین دین کریں تو حتی الامکان بذریعہ چیک یا کارڈ کے ذریعے کریں۔ یہ سرکاری بینک ان اموال کو جہادی اور اِس کے بعد دیگر کاروباری مقاصد کیلئے اِستعمال کر کے جو بے پناہ منافع یعنی انفال میں اپنا نصف حصہ (تفصیل اگلے باب میں آئے گی) حاصل کرے گا وہ اِجتماعی فلاحی اقدامات کے بعد ان تمام اکاؤنٹ ہولڈرز میں مساویانہ طور پر تقسیم کیا جائے گا اور اِس تقسیم میں اِس امر کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی کہ کس اکاؤنٹ میں رقم کا بیلنس کتنا ہے۔ اسی طرح غیر منقولہ اثاثے جو زائد از ضرورت ہوں، اسی اکاؤنٹ کے ذریعے بطور قرض بینک کے حوالے کیے جائیں گے اور بینک ان کا کرایہ وصول کرے گا یا انہیں اپنے منافع بخش پراجیکٹس میں استعمال کرے گا۔

اِس قرض کے عوض مرکز تمام شہریوں کو پر امن نظام مواصلات، تعلیم، صحت عامہ، ان کے جان و مال اور عصمت و آبرو کے تحفظ کی فراہمی کے ضمن میں ان کے ملزم کی کھوج، تفتیش اور گرفتاری کی گارنٹی، حوالاتی تحویل اور عدالتی فیصلے تک کی بلا معاوضہ سہولتیں فراہم کرے گا تاکہ ہر انتظامی یونٹ یعنی ریاست یا صوبہ اپنے مجرموں کو اپنے ضابطہ تعزیرات کے مطابق سزا دے سکے۔

اِسی تصور کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ مملکت ایک بڑی لمیٹڈ کمپنی کی مانند ہو گی اور ہر شہری اِس مملکت کا شیئر ہولڈر ہو گا۔ ہر فرد صرف ایک شیئر ہی خرید سکے گا اور اِس شیئر کی قیمت صرف یہ ہو گی کہ اُس فرد نے اللہ کی دی ہوئی تمام منقولہ اور غیر منقولہ دولت و جائداد میں سے اپنی فوری گھریلو اور زیر گردش کاروباری ضرورت کیلئے رکھ کر باقی تمام دولت و جائداد اگر کوئی ہے تو وہ اِجتماعی مقاصد کیلئے بطور عطیہ یا بطور قرض پیش کر دی ہے۔ اِس کا طریق کار یہ ہو گا کہ وہ فرد اپنے تمام نقد اثاثے محفوظ رکھنے کیلئے اور تجارتی مقاصد کیلئے زیر اِستعمال رقوم کی حفاظت، ترسیل اور سرکولیشن وغیرہ کیلئے صرف متعلقہ سرکاری بینک کے اکاؤنٹ کو ذریعہ بنائے گا۔ وہ اپنے شیئر پر منافع بھی حاصل کرے گا اور شیئر ہولڈر کی حیثیت سے ووٹ کا حق بھی سرمائے کی مقدار پر نہیں بلکہ برابری کی بنیاد پر مساویانہ تناسب سے حاصل کرے گا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اپنے شیئر ہولڈرز اور ان کے اہل خانہ کو امن و تحفظ کی مذکورہ سہولتوں کی فراہمی اُس کمپنی کے چارٹر کا حصہ ہے۔

اِس تصور کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہر فرد بہبود عامہ کے اِجتماعی مقاصد کیلئے مرکز کو اپنی زیر اِستعمال دولت (یعنی وہ دولت جو وہ اپنی روزمرہ ضروریات زندگی پر خرچ کر رہا ہے اور وہ رقم یا اموال جو وہ اپنے کاروبار و معاش کیلئے اِستعمال کر رہا ہے ) سے زائد ساری جمع شدہ دولت اور آمدن بلا تاخیر انفاق کرتا رہے گا یعنی بطور عطیہ یا بطور قرض پیش کرتا رہے گا تاہم اپنی Wealth Statement میں اپنی روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی و کاروبار اور اِنفرادی سخاوت کیلئے اخراجات کی مقدار کے حتمی تعین پر بھی صرف اسی کو اِختیار حاصل ہو گا اور اِس حوالے سے اُسے کسی ریونیو یا ایسے کسی دیگر محکمانہ دباؤ کا سامنا نہیں ہو گا۔ مرکز اِس انفاق کے بدلے میں اُس کو اور اُس کے اہل و عیال کو اُس کی تمام اِنفرادی ہنگامی ناگہانی ضروریات مثلاً بیماری، معذوری، بے روزگاری اور آفات و حادثات کیلئے اُسی معیار کے کفالتی تحفظ کی ضمانت بھی دے گا جو سربراہِ مملکت اور ہر سطح کے عمال (سرکاری ملازمین) کو یکساں بنیادوں پر حاصل ہو گا۔ تب پھر اِس تناظر میں کہ اُس فرد نے جائداد، زیورات اور سامانِ زیست کے طور پر کن کن صورتوں اور اشیاء میں اللہ کی دی ہوئی کتنی دولت کو روک رکھا ہے، اِس تناظر میں اُس شہری کے معاشرتی مدارج، اعزاز و اکرام اور قیادت و اِختیارات کی سپردگی کیلئے اہلیت یعنی تقویٰ کا میرٹ، پوائنٹس کی بنیاد پر بنے گا اور پھر قیادت کے انتخاب کے وقت علم اور جسم کی قرآنی کسوٹیوں کے ساتھ تقویٰ کے اِس میرٹ کو بھی ملحوظ رکھا جائے گا۔ مزید یہ کہ مرکز کو افراد سے ٹیکس، کسٹم، اشٹام، ایکسائز، کورٹ فیس، جرمانوں، افراط زر یعنی کرنسی کی قیمت سونے کے مقابلے میں متعین اور منجمد نہ کرتے ہوئے اُس کی ویلیو میں کمی کر کے یا کسی دیگر ذریعے سے کچھ بھی زبردستی وصول کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔