دین میں جبر اور زبردستی نہیں ہے چنانچہ کسی ریاست کو کسی دوسری ریاست کے خلاف اپنے سیکولر یا تھیو کریٹک نظریات، عقائد، فقہ، امامت، تفسیر و تاویل آیات، اقوال اسلاف، اِستنباط، اجتہاد یا کسی بھی دیگر بنیاد پر کسی انتہا پسندانہ اقدام، کسی جارحیت کی اجازت نہیں ہو گی اور اِس قسم کی جارحیت کی علمبردار ریاست کا جو شہری ایک ہفتے میں اُس ریاست کو چھوڑ دینے کا اعلان نہیں کر دیتا وہ ملعون باغی قرار دیئے جانے کا مستحق ٹھہرے گا، تب پھر اُس کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری مرکز پر نہیں رہے گی۔

مختصر یہ کہ اساس کا بنیادی نکتہ کچھ یوں متشکل ہوتا ہے۔ اللہ کا دیا ہوا مال و جائداد اس کی امانت ہے اور یہ امانت اسی طرح رکھی جائے گی جیسی اللہ نے ہدایت جاری کی ہے یعنی یہ امانت جامد دولت نہ بن کے رہ جائے گی بلکہ مخلوق کے استفادے کیلئے ہر وقت زیر استعمال رہے گی اور اگر اس امانت سے مخلوق کا اس طرح استفادہ ممکن نہیں ہے کہ محنت کرنے والے کو پورا پھل یعنی منافع کا سو فیصد ملے تو یہ امانت یا تو بصورت صدقہ اللہ کو واپس لوٹا دی جائے گی یا پھر اللہ کو بطور قرض حسنہ یعنی معاشرے کی تحویل میں دی جائے گی جو بوقت ضرورت واپس لی جا سکے گی۔

قرآن کے بنیادی اصولوں کی اِطاعت سے مشروط آزادی کا یہی تصور فیڈرل ایریا سمیت ہر صوبائی ریاست کے آئین کیلئے اساس ہو گا جس سے کسی بھی شہری کی طرف سے اجتہادی اختلاف کی صورت میں اجماع امت کے اصول کا اطلاق ہو گا۔ دور حاضر کی اصطلاح میں اِسی تصور کو ریفرنڈم کہا جاتا ہے۔ مسلمان ووٹرز کے اِس عوامی ریفرنڈم کے نتیجے میں متعلقہ شق کے شامل اساس ہونے یا نہ ہونے کا حتمی فیصلہ ہو جائے گا، مثال کے طور پر اگر کوئی فرد اپنی زمین و جائداد کو بیکار چھوڑ رکھے، کرایہ ٹھیکہ پر اٹھائے یا اُس میں سے نکلنے والے معدنی وسائل پر پورے معاشرے کی بجائے صرف اپنی ملکیت ہونے پر اصرار کرے یا اپنے نقد اثاثے سرکاری بینکوں کے اکاؤنٹ میں رکھنے پر آمادہ نہ ہو۔۔۔ وعلیٰ ہٰذالقیاس، تو ریفرنڈم کے بعد اُسے بہرحال اِس فیصلے کو ماننا پڑے گا۔۔۔ اور اگر وہ پھر بھی اِس کو تسلیم نہ کرے، وہ اُس مملکت میں نہ تو شہری ہو گا اور نہ مہمان، بلکہ ایک غیر مسلم ملعون Black-Listed باغی کی حیثیت رکھتا ہو گا جس کا اُس مملکت پر کوئی حق نہ ہو گا چنانچہ وہ ملعون ہونے کے باعث نہ صرف اپنی جان اور مال اور عزت و آبرو کی سلامتی کا خود ذمہ دار ہو گا بلکہ اگر قرائن اُس سے بغاوت کا اندیشہ ظاہر کریں تو اُسے حفظ ماتقدم کے طور پر ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے تاوقتیکہ وہ اِس سلامتی کی ذمہ داری" مقررہ معاوضے " پر مرکز کے سپرد نہ کر دے خواہ اُس کا مذہب و عقیدہ و نظریات "ایمان بالقرآن" کے تصور سے ہم آہنگ ہوں یا محض سیکولر اور ملحدانہ ہوں۔۔۔ تب پھر اِس "مقررہ معاوضے یعنی جزیہ یا ٹیکس" کی ادائیگی کے بعد اُس کی قانونی حیثیت باغی کی بجائے ایک سیاح Touristیا فیڈرل ایریا کے ایک Paying Guest کی ہو جائے گی اور اُسے وہ حقوق تحفظ مل جائیں گے جو ایک سیاح کو حاصل ہوتے ہیں اور اُس پر ایسے "اِنفرادی" امور میں جن کا کسی دوسرے اِنسان سے کوئی تعلق نہ بنتا ہو اور جو اِس اساس کی مخالفت کے ذیل میں نہ آتے ہوں مثلاً غذا،پروپرائٹر شپ کی نوعیت کا ایسا روزگار جس میں لیبر ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا اور لائحۂ پرستش وغیرہ کے ضمن میں اُس پر اپنی چاردیواری کے اندر رہتے ہوئے کسی خارجی قانون کی پابندی کرنا بھی لازم نہ ہو گا تاہم چونکہ وہ قرآنی اساس کے ضمن میں جمہور کے فیصلے کا ہی منکر ہو گا لہٰذا اُسے مرکز کیلئے ووٹر کی حیثیت حاصل نہیں ہو گی البتہ اگر اس کے کچھ ہم خیال افراد اس کے ساتھ مل کر ایک کمیونٹی بنانا چاہیں تو ان کو اقلیتی عوام کے حقوق کے مطابق اپنے لیے پرسنل لاز کی قانون سازی کی اجازت ہو گی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مرکز کیلئے ووٹ دینے کی حیثیت صرف قرآن کو اساس ماننے کے باعث مسلمہ ہے۔ جو فرد قرآن کو حجت تسلیم ہی نہیں کرتا اُس کو قرآن کو ماننے والوں کیلئے قانون سازی، عدل و قسط اور انتظام و انصرام کے عمل میں شریک نہیں کیا جا سکتا۔ اُس کو اِنسانی خود مختاری کے جمہوری تصور کے مطابق ٹیکس دینا ہو گا۔ اُس پر عائد یہ "مقررہ معاوضہ یا ٹیکس" مرکز کی طرف سے اُس کے ان اموال کی مقدار کے تناظر میں متعین کیا جاتا رہے گا جن کے تحفظ کی ذمہ داری مرکز کو اٹھانا ہو گی۔ مرکز دیگر تمام معاملات کی طرح ایسے ہر تعین کیلئے بھی عدالت احتساب میں عوام کے سامنے جواب دہ ہو گا اور احتساب کے بعد متعلقہ سرکاری عہدیدار کو لائق تعزیر قرار دینے کا حتمی فیصلہ بھی یہی عدالت کرے گی جو قرآنی اصولوں پر مبنی اساس کا تعین اور نظر ثانی کرتے رہنے کی ذمہ داری نبھائے گی۔

یاد رہے کہ اساس کی یہ "جزئیات" جو گزشتہ سطور میں ذکر کی گئی ہیں نہ تو الہامی ہیں اور نہ ہی نبوی فرمان کی حیثیت کی حامل۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ہم نے یہ بھی قرآن سے ہی مستنبط کی ہیں تاہم ان کی حیثیت ایک اجتہادی مثال اور مشاورتی تجویز سے زیادہ کی نہیں ہے اور ان کا حتمی تعین مملکت کی عدالت مشاورت و احتساب ہی کرے گی۔ اِس عدالت کے طریقہ کار کے بارے میں ہماری تجویز یہ ہے کہ اِس عدالت کا صدر یعنی جج قرآنی عربی زبان کا عالم ہو گا جبکہ جیوری مسلمان ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ہو گی۔ ان ٹیکنوکریٹس ارکان کی میرٹ لسٹ اِس بنیاد پر مرتب کی جائے گی کہ کس رکن نے دوسروں کی نسبت اپنے سامان ضرورت کی صورتوں میں کم دولت روک رکھی ہے۔ میرٹ لسٹ کے ایک تہائی سر فہرست ارکان کو اِس عدالت کی جیوری میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے کی پیشکش کی جائے گی اور یہ ارکان ایک روٹیشن کے مطابق اِس عدالت میں شامل خارج اور دوبارہ شامل ہوتے رہیں گے۔ یہ عدالت اساس قرآنی کے ضمن میں سربراہ مملکت سمیت کسی بھی شہری کی طرف سے تجویز ہونے والی قانونی شق کا جائزہ لے کر وکلاء کی بحث کے بعد اِس شق کے شامل اساس ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ دے گی اور اِس عدالتی کارروائی میں ہر شہری کو بطور مشیر بالواسطہ طور پر میڈیا کے ذریعے شریک ہونے کی اجازت ہو گی۔ اِس عدالت کو بدعنوانی سے پاک رکھنے کیلئے اِس کے عوامی احتساب کا خود کار نظام لازم ہے چنانچہ اِس عدالت کا ہر فیصلہ عوام کی طرف سے اعتماد کے ووٹ (اوپن ریفرنڈم) کا محتاج ہو گا اور اگر یہ تائیدی ووٹ اُسے نہ مل سکا تو یہ عدالتی فیصلہ خودبخود منسوخ ہو جائے گا اور عدالت کی خدمت میں نظر ثانی کیلئے پیش ہو گا۔ اِسلامی تاریخ میں اِس عوامی عمل احتساب کیلئے "بیعت" کی اصطلاح اِستعمال کی گئی ہے۔

یہاں ہمارے لیے اسلامی اور غیر اسلامی مملکت کی پہچان کیلئے پہلی کسوٹی ایک لٹمس اپنے آپ بن جاتی ہے۔ جس مملکت میں ووٹ کا حق صرف انہی شہریوں کو حاصل ہے جو اس قرآنی آزادی کے تصور شاکلت اور نیچے سے لے کر اوپر سربراہِ مملکت تک تمام سرکاری اہل کاروں کیلئے یکساں معیارِ زندگی کے نظریے کے قائل ہیں تاکہ معاشرے میں طبقاتی فرق پیدا نہ ہو سکے تو وہی مملکت اسلامی ہے، باقی تمام باتیں مثلاً ٹیکس، عوامی فلاح و بہبود اور احتساب وغیرہ اس لٹمس چیک کے بعد زیر نظر آتی ہیں۔ جس معاشرے میں یہ دو بنیادی اصول ہی مسلمہ نہ ہوں وہاں محض ٹیکس کی کمی یا معدومی کوئی بہتر نتائج مرتب نہیں کر سکتی۔

عزیز قاری! ممکن ہے کہ آپ کو یہ ساری بات نہایت عجیب و غریب محسوس ہو رہی ہو اور یہاں اقتصادی حوالے سے بھی سوالات کا ایک بگولہ آپ کے ذہن میں اٹھ رہا ہو مثلاً یہ کہ جب ہر کسی کو اِس مملکت میں آن بسنے کی اجازت ہو گی تو دنیا بھر سے آنے والے افراد کا اژدہام ہو جائے گا، یہ اژدہام کیسے سنبھلے گا؟ روزگار کہاں سے فراہم ہو گا؟؟ وغیرہ۔

اِس طرح کے بھی اور عائلت اور مذاہب کے حوالے سے بھی متعدد سوالات ایسے ہیں جن کا پیدا ہونا نہ صرف عین فطری ہے بلکہ با شعور ذہن کی دلیل بھی ہے۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے اِس پیغام کو دنیا کے ہر اِنسان تک پہنچانا ہے جبکہ ان میں سے بہت سے سوالات مقامی نوعیت کے ہیں اور دنیا کے ہر معاشرے کے افراد کیلئے دلچسپی کا مرکز نہیں ہیں، مثال کے طور پر تیسری دنیا کے کئی ممالک میں روز افزوں مہنگائی کا باعث بننے والی کرنسی کی مسلسل ڈی ویلیویشن اور افراط زر آئی ایم ایف کی پالیسی کا حصہ ہے لیکن اِس پالیسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وہاں کے مقامی مسائل سے ترقی یافتہ ممالک کے بہت کم باشندوں کو دلچسپی ہے۔ اِسی طرح یہ بھی کہ ایک نوزائیدہ اور وسائل سے محروم ریاست جیلوں کے بغیر مجرم کو سزا کیسے دے گی؟ یا یہ کہ سزاؤں کی شدت اور نوعیت کیا ہونی چاہیے، کیونکہ جیلیں تو دنیا کے تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں لیکن جرائم میں ا اضافہ ہوتا ہی چلا جا رہا ہے، اِسی طرح بعض ممالک میں جہاں سنگین جرم کی سزائیں بھی ایسی نرم اور بے عبرت ہیں کہ ان سے مظلوم کی داد رسی اور اُس کے گھاؤ کا مرہم نہیں ہوتا، تب اُس وقت اُس پر کیا گزرتی ہے اور وہ کس قدر شدید فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے؟ اِس نکتے پر غور کرنے کی فرصت باقی معاشروں میں شاید کم ہی لوگوں کو ہو گی، غرض ایسے کتنے ہی سوالات ہوں گے جو کہ اگرچہ ہمارے موضوع کا حصہ ہیں لیکن چونکہ یہ سوالات ہر معاشرے میں الگ الگ ہیں اور ان کی تفصیلی وضاحت اِس تحریر کو طویل اور اگر یہ شائع ہو تو گراں قیمت کر دے گی لہٰذا اِس طرح ہمارا وہ مقصد فوت ہو جائے گا کہ یہ سنہری نظام ہر شخص کے علم میں آ جائے، بایں ہمہ چند ممکنہ سوالات کا اجمالی جائزہ ذیل میں مذکور ہے اور مذہبی حوالے آئندہ باب میں زیر نظر آئیں گے تاہم اِس کے بعد بھی جو سوالات ذہن میں پیدا ہوں ان کے جواب کیلئے اِس منشور آزادی کو ایک مرتبہ مزید زیر مطالعہ لا کر اِس کی روح کو سمجھنے کی کوشش فرمایئے، آپ کا روشن ضمیر اور ہم فکر احباب سے مشاورت خود ہی ان سوالوں کا جواب مہیا کر دے گی۔

کرنسی کی ڈی ویلیویشن ٹیکس کا متبادل ہے۔ اِس قسم کے حربے اِس لیے اِختیار کیے جاتے ہیں تاکہ اندھا دھند ٹیکسوں اور پابندیوں کی بھرمار دیکھ کر عوام اِنقلاب پر نہ اتر آئیں۔ مزید حفظ ماتقدم کیلئے اِس اصول کو آئی ایم ایف کے چارٹر کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ کوئی ممبر ملک اپنی کرنسی کی قیمت حقیقی دولت یعنی سونے کے مقابلے میں منجمد Freezeنہیں کر سکتا۔۔۔ اِس شق کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی ملک کے عوام اپنی کرنسی کی مسلسل ڈی ویلیویشن یعنی افراط زر اور روز افزوں مہنگائی سے تنگ آ کر حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھ دیں کہ ملکی کرنسی کی ویلیو سونے یا چاندی کے مقابلے میں منجمد کرو تو ان حکمرانوں کو آئی ایم ایف کی پناہ دستیاب رہے کہ ہم کو تو اِس کی اجازت ہی نہیں ہے۔

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ عبوری دور میں جب تک قومی خزانہ اتنی تقویت حاصل نہ کر لے کہ کرنسی کی قیمت سونے کے مقابلے میں منجمد کر سکے، اُس وقت تک کیلئے اِس مجوزہ آزاد مملکت میں ہر شہری کو کرنسی کی "اجارہ داری" سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ دستیاب رہے اور اِس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ افراد کو خرید و فروخت اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے ملکی کرنسی کے ساتھ ساتھ قدرتی اور فطری کرنسی کے اِستعمال کی اجازت بھی ہونی چاہیے یعنی وہ اپنے تمام معاشی معاہدوں، اکاؤنٹس اور دیگر لین دین میں سونے اور چاندی کو بطور کرنسی متعین کر سکیں۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فرد قانونی دستاویزات میں اپنی کسی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائداد بشمول حق اِستعفیٰ کی مالیت اور اپنا بینک ڈپازٹ اگر ملکی کرنسی کی بجائے سونے یا چاندی کی کسی مقدار میں متعین کرنا چاہے تو اُسے اِس کی قانونی اجازت حاصل ہو۔

جرائم کیلئے ضابطہ تعزیرات اگرچہ ہر ریاست کا اِنفرادی اِستحقاق ہے تاہم اِس اِستحقاق کے قابل عمل ہونے کے بارے میں وضاحت ضروری ہے۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے تقریباً سبھی معاشروں میں جرائم فزوں تر ہیں۔ دراصل ہر جگہ تعزیرات کے ناکام ہونے اور ان سے جرائم ختم نہ ہو سکنے کی وجہ بھی ان سزاؤں کا غیر فطری تصور ہے۔ سزائے قید تو خاص طور پر ایک غیر منطقی اور معاشرے کیلئے مہلک تصور مروج ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جیل خانہ جات کیلئے ہر ملک کو اپنے بجٹ میں اچھی خاصی رقم مختص کرنا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم قوم ادا کرتی ہے۔ اب یہ کہاں کی اِنسانیت ہے کہ جو شخص معاشرے کا مجرم ہو، اُس کو قید کر کے اُس کی کفالت کا بوجھ بھی معاشرے پر ہی ڈال دیا جائے؟ سزائے قید کے دوران قیدی کے اہل خانہ نفسیاتی حوالوں سے جو ناکردہ گناہ کی سزا بھگتتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں عدم تحفظ کے شکار ہو کر اور فرسٹریشن میں مبتلا ہو کر آمادہ جرائم ہو سکتے ہیں وہ اپنی جگہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ مظلوم کی داد رسی کی راہ میں بھی یہی تصور مانع ہے۔ جب ایک قاتل عمر قید کے نام پر سات سال یا اِس میں بھی حکومت سے کچھ معافی حاصل کر کے اور بھی کم مدت کی قید کاٹ کر مقتول کے اہل خانہ کے سامنے دندناتا ہے تو اُس وقت وہ لوگ کس اذیت سے گزرتے ہیں، یہ وہی جان سکتا ہے جو اِس کیفیت سے گزرا ہو۔ فطرت کے اصول کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے کہ مجرم کی سزا ایسی ہو جو نہ تو معاشرے پر بوجھ ہو اور نہ ہی غیر متوازن ہو، یعنی ظالم کیلئے بھی اتنے ہی اور ویسے ہی سلوک کا فیصلہ دیا جائے جتنا اُس نے ظلم کیا ہے اور اِس سزا میں تخفیف کا اِختیار کسی حاکم کے پاس نہ ہو۔ البتہ یہ اِستحقاق صرف اِس صورت میں مظلوم یا اُس کے ورثاء کا ہو سکتا ہے جب وہ اُس مجرم کی "نا دانستہ بربریت" کے شکار ہوئے ہیں، مثال کے طور پر ایک قاتل کیلئے عدالتی فیصلہ تو اُس کے اسی طرح قتل کرنے کا ہی صادر کیا جائے جس طرح خود مجرم نے ارتکاب قتل کیا تھا، تاہم اگر قتل غلطی سے حادثاتی طور پر سرزد ہو گیا ہو تو مقتول کے لواحقین کو یہ اِختیار دیا جائے کہ اگر وہ چاہیں تو اُس قاتل کی سزا مشروط یا غیر مشروط طور پر معاف بھی کر سکتے ہیں۔ اِسی اصول کا سبھی نا دانستہ جرائم پر اطلاق ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح دیگر جرائم پر بھی طویل مدت تک جاری رہنے والی سزائے قید کی بجائے فوری عمل درآمد مکمل ہو جانے والی جسمانی سزائیں ہوں۔۔۔ لیکن ہماری حکومتیں اِس فطری اصول کو اِس لیے برداشت نہیں کرتیں کہ یہ اصول حکمرانوں کی مفاد پرستی اور کرپشن میں مانع ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ کئی پسماندہ معاشروں میں جہاں اقتدار کی سیاست غنڈہ گردی کے زور پر اُستوار کی جاتی ہے وہاں بدمعاش افراد ان سیاست دانوں کے اشارے پر مخالف گروپ کے لوگوں کا جانی و مالی نقصان کرتے ہیں۔ یہ افراد اگر قانون کی گرفت میں آ جائیں تو ان سیاستدانوں کو اپنے ان زر پروردہ غنڈوں کو سزا سے بچانے کیلئے چور دروازہ درکار ہوتا ہے اور یہ دروازہ قانون میں صرف اسی صورت میں فراہم ہو سکتا ہے جب سزا کا دورانیہ طویل ہو اور معاملہ قدرے ٹھنڈا پڑنے پر وہ اپنے ملازم غنڈوں کو قانون کی گرفت سے بحفاظت آزاد کرا سکیں۔ اگر چور دروازہ فراہم کرنے والا یہ اِختیار ان کے ہاتھ میں نہ ہو اور سزائے قید کی بجائے سزا پر عمل درآمد کو یکلخت پایہ تکمیل تک پہنچا دینے والی جسمانی سزا کا قانون نافذ ہو اور یہ سزا معاف کرنے کا اِختیار کسی کو حاصل نہ ہو تو کوئی بھی غنڈہ بدمعاش ان رسہ گیر سیاست دانوں کیلئے ایسے کام کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔

جرمانے کی سزا بھی اِسی چور دروازے کے ضمن میں آتی ہے۔ حکام کو لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کا راستہ فراہم کرنے کے علاوہ یہ سزا سیاستدانوں کیلئے غنڈہ عناصر کے تحفظ کا بھی سب سے آسان راستہ فراہم کرتی ہے چنانچہ اِسے معاشرے کیلئے اگر سزائے قید سے بھی زیادہ مہلک قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ ایک فطری سزا کی شان یہ ہے کہ مجرم سے سزا کے طور پر کوئی ایسی چیز نہ چھینی جائے جو کسی دوسرے کے کام آ سکے تاکہ حکام کی بدنیتی یا لالچ کا احتمال ہی پیدا نہ ہو اور دولت یعنی جرمانہ یقیناً ایسی شے نہیں ہے۔ فطری تعزیر کی یہ فول پروف صورت صرف جسمانی سزا سے ہی ممکن ہے۔

سزا کا ایک بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اِس سے دیگر افراد کو عبرت حاصل ہو اور اِس کے نتیجے میں کسی کو جرم کرنے کا حوصلہ نہ ہو۔ مجرم کے جیل جانے کے بعد وہ معاشرے کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے اور باعث عبرت نہیں رہتا۔ سنگین جرم کی سزا ایسی ہونی چاہیے کہ اگر معاشرہ اُس مجرم کو اپنے اندر سے نکال باہر نہیں بھی پھینکتا یعنی ملک بدر نہیں بھی کرتا یا سزائے موت کا مستحق نہیں بھی قرار دیتا تو بھی وہ جب تک اُس معاشرے میں رہے، اُس سنگین جرم کی بد انجامی کا اشتہار بن کر رہے۔ عبرت کا یہی تصور اُس معاشرے سے جرائم کے خاتمے کا ضامن ہو گا، مثال کے طور پر بینک میں ڈاکہ ڈالنے والا مجرم جو سزائے موت کا مستحق نہیں ٹھہرتا، اُسے کسی ایسے حصہ جسم سے محروم کر دیا جائے جس نے اُس ڈاکے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔۔۔ اور وہ حصہ جسم اُس کا ہاتھ ہی ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح اگر جرم بہت سنگین نہیں ہے یعنی قواعد کی ایسی خلاف ورزی کا ہے جس سے کسی کا کچھ بگڑا تو نہیں لیکن اِس سے بگاڑ کا احتمال پیدا ہو گیا تھا تو عبرت کا یہی تاثر پیدا کرنے کیلئے سزا کی یہ جسمانی اذیت اُسے سر عام ملنی چاہیے، مثال کے طور پر اگر کسی نے ٹریفک کا کوئی قاعدہ توڑا ہے تاہم اِس کے نتیجے میں کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا تو اِس جرم پر اُسے کسی حصہ جسم سے تو محروم نہیں کیا جا سکتا البتہ اُسے کسی طرح کی جسمانی اذیت پہنچانے کا فیصلہ بہرحال کیا جائے گا یا یہ کہ اگر اُس سے اِس جرم کا اِرتکاب پہلی دفعہ یا کسی انتہائی مجبوری کے عالم میں ہوا ہے اور وہ اِس اِرتکاب پر نادم ہے تو وہ متعلقہ ریاست کی مذہبی عبادت گاہ میں قائم اعزازی مجسٹریٹ کی ہفتہ وار مرکزی کھلی عدالت میں جس کا ذکر گزشتہ ابواب میں ہو چکا ہے، جیوری سے مکمل یا مشروط معافی حاصل کر لے، ورنہ اُسے دوسروں کی عبرت کیلئے سب کے سامنے زد و کوب کیا جائے۔۔۔ وعلیٰ ہٰذالقیاس۔

سر عام جسمانی سزا کے اصول پر اگر نظام تعزیرات وضع کیا جائے تو ہر ریاست کیلئے اپنا خود مختار نظم تعزیر تشکیل دینا بالکل آسان ہو جائے گا خواہ وہ ریاست کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو۔

اِسی طرح نظام تعلیم کا سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاستیں اپنے تعلیمی نصاب میں سے وطن پرستی کا یہ خناس کیسے نکالیں؟

اِس مسئلے کا حل بھی بالکل سیدھا سادا ہے۔ اگر کوئی ریاست اتنی مختصر ہے کہ اپنا نظم تعلیم و امتحان مؤثر نہیں بھی کر سکتی تو بھی ایک اضافی مضمون کی تشکیل کے ذریعے اپنی نوجوان نسل کے ذہنوں کو ان نظریات کی ویکسین تو مہیا کر ہی سکتی ہے جن کو وہ غلط تصور کرتی ہے۔۔۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جب تک غلط اور صحیح، دونوں طرح کے افکار زیر نظر نہ آئیں، علم نامکمل رہتا ہے، قرآنی الفاظ میں " سمع و بصر" کے بعد "فواد" کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔

لیبر ایکٹ کی مثال بھی یہی ہے۔ گزشتہ ابواب میں ہم نے کفالتی نظام خدمت گاری پر مشتمل جس تصورِ روزگار کا مشاہدہ کیا وہ بھی ہر ریاست کا صوابدیدی اِستحقاق ہے یعنی اگر کوئی فرد خواہ وہ سربراہِ مملکت ہی کیوں نہ ہو، اِس تصورِ روزگار کے خلاف رائے رکھتا ہے یا اِس نظام کو مزید قابل ترمیم و اصلاح تصور کرتا ہے تو اُسے یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ ایسی ریاست کا شہری بن جائے جس کا آئین اُس فرد کے نظریئے سے ہم آہنگ ہے تاہم اُس کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ کسی بھی دوسرے فرد کو اِس تصورِ روزگار کے اِختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکے یعنی کسی بھی ریاست کو آئینی طور پر یہ تصورِ روزگار اپنے لیبر ایکٹ کا حصہ بنانے سے روک سکے۔

اِسی طرح قیادت کے احتساب کا سوال اٹھتا ہے کہ معاشرے پر اقتصادی بوجھ ڈالے بغیر ایسا عدالتی طریق کار کیسے وضع کیا جا سکتا ہے جس سے اُس معاشرے کے ہر فرد کو اپنے حکام سے اُن کی کسی بھی اِنتظامی کارکردگی، اخراجات یا قانونی اوضاع و نفاذِ قرآنیہ کے بارے میں سب کے سامنے باز پرس کرنے کا اِستحقاق حاصل رہے اور جس سے ان حکام کو ہر وقت عوام کے سامنے جواب دہی اور نماز جمعہ کے اوپن ریفرنڈم میں عوام کی طرف سے اعتماد کا ووٹ نہ ملنے کا وہ خوف دامن گیر رہے جو ان کو ان کی مفاد پرستی کیلئے کوئی چور دروازہ تخلیق کرنے کا حوصلہ ہی نہ بخشے اور وہ طوعاً و کرہاً فرشتہ سیرت بنے رہیں؟

اِسی قسم کے ایک مسئلے کا حل ہم گزشتہ باب "ضابطہ قانون" میں زیر نظر لا چکے ہیں۔ ہر مذہبی عبادت گاہ کو جسے کفالتی نظام روزگار کی اعزازی فیصل عدالت بنانا تجویز کیا گیا تھا اور جسے اعزازی مجسٹریٹ اور اعزازی ارکان جیوری کے بنیادی ستونوں پر مشتمل رکھا گیا تھا، ایسی ہی ایک عدالت کو حکام کے احتساب کیلئے ہفتہ وار عدالت احتساب کی حیثیت بھی دے دی جائے جس میں ارکان جیوری کے طور پر شامل ہونے کیلئے وہ پڑھے لکھے افراد اہل ہوں جنہوں نے قومی اِجتماعی مقاصد کیلئے عفو کے حوالے سے تقویٰ کی میرٹ لسٹ میں برتر مقام پایا ہے یعنی جنہوں نے اپنے سامان ضرورت کی صورت میں کم دولت روک رکھی ہے۔۔۔ اور یہ دونوں طرح کے عدالتی نظم خود مختارانہ انداز میں اپنے اپنے معاشرے کے حجم کی مناسبت سے ہر سطح کی عدالتی درجہ بندی کا تعین رکھتے ہوں یعنی محلے کی سطح پر پرائمری کورٹ، آبادی کی حلقہ بندی کی سطح پر سیکنڈری، پورے قصبے شہر یا تحصیل کی سطح پر ہائر سیکنڈری، پھر اِسی طرح ضلعی، عالیہ اور عظمیٰ غرض جتنے بھی دائرہ ہائے اِختیارات موجود ہوں، اِسی مناسبت سے آنریری عدالت ہائے احتساب کا تعین بھی موجود ہونا چاہیے۔

مختصر یہ کہ آپ کسی بھی حوالے سے اِس منشورِ آزادی کا جائزہ لیں یہ ہر تشنگی کے خاتمے کا آئینہ دار ہو گا اور ذرا سے غور اور تدبر کے نتیجے میں ہر الجھن کا حل اُس میں دکھائی دینے لگے گا۔

اب ہم اِس اسٹیج پر ہیں کہ اِس نظام مملکت کا بنیادی تصورِ تشکیل مدون کر سکیں۔

یہ آزاد مملکت ہر باشندے کو یہ حق دے کہ وہ اگر فیڈرل ایریا کے دستور سے متفق نہیں ہے تو قرآنی اساس جس کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا گیا ہے، کی موجودگی میں اپنے لیے اپنی چاردیواری میں اپنی مرضی کے پرسنل لاز متشکل یا منتخب کر سکتا ہے۔ اِس صورت میں اُس کی حیثیت ایک مہمان شہری کی ہو گی اور وہ پرسنل لاز جو اُس نے اپنے لیے منتخب کیے ہیں، اُس علاقے میں نافذ ہو ں گے جو اُس فرد کی عملداری میں ہے، خواہ یہ عملداری اُسے ملکیت کے ذریعے حاصل ہوئی ہو یا الاٹمنٹ، سرکاری کرایہ داری یا لیز اور رہن وغیرہ کے معاہدے کے تحت۔ اُس علاقے کی حیثیت اُس مملکت کی ایک نیم خود مختار ریاست کی سی ہو گی، خواہ یہ ریاست ایک ہی گھر پر مشتمل کیوں نہ ہو۔ اِسی طرح اگر کچھ افراد کسی ایک مجموعہ قوانین پر متفق ہو کر اُسے اپنے زیر عملداری علاقوں میں نافذ کریں تو ان تمام علاقوں یعنی گھروں کو ایک ہی ریاست تسلیم کیا جائے گا خواہ یہ علاقے متصل نہ بھی ہوں اور ان علاقوں کا باہمی فاصلہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ مرکز اور ریاستوں کے مابین اِختیارات کی تقسیم کا جائزہ ہم گزشتہ سطور میں لے چکے ہیں۔

دنیا کے ہر فرد کو ہر وقت کسی بھی ریاست میں شامل ہونے یا اُسے چھوڑ دینے کی آزادی ہو یعنی اُسے کسی بھی تشخص کو اپنانے یا چھوڑ دینے کی ہر وقت آزادی ہو۔

آمدم برسر مطلب کہ عوامی اِستحصال اور حکام کی مفاد پرستی کا تمام تر دارومدار جغرافیائی وطنیت پر اُستوار آئین پر ہوتا ہے کیونکہ وہ آئین انہیں قومی مفاد کے نام پر حسب منشا ظالمانہ قوانین مسلط کرنے کا اِختیار دیتا ہے، اِس لئے نظریاتی تشخص پر متحد ہونے والا معاشرہ انہیں کسی بھی قیمت پر گوارا نہیں ہو گا۔

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی تو مسائل سے نجات دلانے والا نظام اِنسانیت کو کیسے فراہم ہو؟

ہم اِس مسئلے پر جتنا بھی غور کریں اتنا ہی اِس کا پرامن راستہ مشکل سے مشکل تر دکھائی دیتا ہے چنانچہ تمنا یہ ہے کہ اِنسانیت کے اعلیٰ اور مخلص دماغ جنہیں قرآن نے اولوالالباب کہہ کر پکارا ہے، اِس مسئلے پر سنجیدگی سے سر جوڑیں اور اگر دنیا میں کوئی معاشرہ، کوئی خطہ،کوئی گوشہ، کوئی جزیرہ ایسا ہو جو یہ سنہری نظام اور اِس کی حفاظت کی گارنٹی اپنے شہریوں کو دے کر انہیں عالمی بیگار کیمپ کے سٹیٹس سے نجات دلا سکے یعنی اِسی گارنٹی اور آزادی پر اُستوار نظریاتی تشخص اور ٹیکس سے مبرا آئین انہیں عطا کر سکے تو اِس کیلئے کوشش کی جائے، بصورت دیگر صرف مسلح اِنقلاب کا ہی راستہ رہ جاتا ہے۔

آج درد مند نظریں ان بے لوث افراد کی متلاشی ہیں جن کے دل پر وہ بھاری ہے جو اِنسانیت پر گزرتی ہے اور جو ہمیں قارون، فرعون اور ہامان کی اِس غلامی سے نجات دلانے کیلئے خود فراموشی کی منزل تک جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔