گزشتہ صفحات میں ہمارے سامنے دو نمایاں سوالات ابھرے تھے۔ ایک یہ کہ کسی معاشرے میں اگر یہ سنہری نظام دستیاب کر دیا گیا تو دنیا بھر سے لٹے پٹے افراد کا جم غفیر اُس معاشرے کی طرف رجوع کرے گا، تب ان افراد کو ایڈجسٹ کیسے کیا جائے گا؟۔۔۔ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ جب اِس نظام سے عالمی مفاد پرست ٹولے کے مفادات پر ضرب پڑے گی اور وہ اِس نظام کو سبوتاڑ کرنے کیلئے عالمی ذرائع ابلاغ پر جو پہلے ہی اُس کی ملکیت ہیں، منفی پراپیگنڈا کرے گا اور پھر عالمی رائے عامہ کو اُس نو آزاد معاشرے یا مملکت کے خلاف ابھار کر مختلف ممالک میں اپنے آلہ کار حکام کے ذریعے اُس معاشرے کے خلاف جارحیت کرے گا تو اِس آئین آزادی کو تحفظ کیسے دستیاب ہو گا؟ اِس آئین کی قوت نافذہ یعنی آرمی اتنی مضبوط کیسے ہو سکتی ہے کہ نہ صرف اُس معاشرے پر بوجھ نہ ہو اور اِس نظام کو اندرونی اور بیرونی، ہر طرح کے خطرات سے تحفظ فراہم کرے بلکہ پوری اِنسانیت کی سطح پر اِس آئین کی دستیابی کی ضامن بھی بن سکے۔؟

دراصل یہ دونوں سوالات ہی ایک دوسرے کا جواب ہیں۔

یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ اِس منشورِ آزادی کی راہ میں اُس وقت تک رکاوٹیں پیدا کی جاتی رہیں گی جب تک اِس آئین کے پھیلاؤ اور پوری اِنسانیت تک اِس کی دستیابی کا بندوبست بھی اِس منشور کا حصہ نہ ہو۔ دوسری طرف اِنسانی ہمدردی کا تقاضا بھی یہ ہے کہ وہ بیچارے لوگ جو غیر فطری تھیوریوں اور عالمی ذرائع ابلاغ پر اُس قارونی ٹولے کے پراپیگنڈے کے باعث ٹرانس میں آ چکے ہیں یا جن کی قوت متخیلہ میں اِس نعمت کا ادراک کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور جنہیں ہم نے اِس تحریر کے آغاز میں بھیڑ بکریوں کی مانند قرار دیا تھا یا وہ لوگ جو غربت و جہالت اور پسماندگی و بے بسی کے باعث اِس نظام کیلئے از خود کوئی جستجو کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اپنے رب سے التجائیں کرتے ہیں کہ وہ ان کیلئے کوئی نجات دھندہ بھیج دے، ان لوگوں کو بھی آزادی کی یہ نعمت دستیاب کرائی جائے کیونکہ فطرت کی نظر میں تو بہرحال پوری اِنسانیت ایک ہی کنبہ کی مثال ہے۔ اب اگر کسی کنبے میں کوئی فرد معذور یا ضعیف ہو تو اُسے خاندان سے باہر تصور کرتے ہوئے سسک مرنے کیلئے تو نہیں چھوڑ دیا جاتا۔

قوت نافذہ کو خاطر خواہ طور پر مضبوط کرنے کیلئے لازم ہے کہ اِسے عسکری خطوط پر تشکیل دیا جائے، اور یہ عسکری خطوط جن دو نکات کو ملانے سے بنتے ہیں وہ ہیں افرادی قوت اور معاش۔ اب اگر یہ نظام پوری اِنسانیت کو ہمیشہ کیلئے فراہم کرنا اور فراہم رکھنا ہے تو اِس حربی افرادی قوت کی کوئی حد بھی متعین نہیں کی جا سکتی اور پوری اِنسانیت کی سطح پر قوت نافذہ کی جنگی مہموں میں شامل ہونے کے خواہشمند کسی فرد کو اِس شمولیت سے روکا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ جب تک دنیا میں کہیں بھی ظلم باقی اور آزادی کی راہ میں رکاوٹ موجود رہے گی، یہ مہمیں جاری رہیں گی۔۔۔ چنانچہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عسکری خطوط کو ملانے والے یہ دونوں نکات یعنی افرادی قوت اور معاش کس طرح اِس نظم عسکریت کے دائرۂ استطاعت میں لائے جا سکتے ہیں؟

افرادی قوت کی وسیع ضرورت کا حل تو مذکورہ دو سوالات میں سے پہلے سوال میں ہی موجود ہے لہٰذا اِس پر مزید گفتگو وقت کا ضیاع ہے کہ جب افراد کا جم غفیر آئے گا تو یہ ضرورت خود بخود پوری ہو جائے گی۔۔۔ البتہ دوسرے سوال کا کہ ان آزادی پسند جانبازوں کیلئے معاش کی صورت کیا ہو گی، جواب قدرے وضاحت طلب ہے۔

معاشی سہارا فراہم کرنے کا یہ کام بادی النظر میں نہایت کٹھن دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ کٹھن دکھائی دینے کی وجہ ہماری اقتصادی کم نظری ہے۔ آج ہمارے سامنے عسکری روزگار کا بس ایک وہی تصور ہے جو آج کی مسلح افواج کیلئے مروج ہے یعنی اُجرت دو اور لڑاؤ۔ یہ وہی تصور ہے جو کرائے کے قاتلوں کیلئے بھی اِستعمال کیا جاتا ہے اور اعلیٰ تر مقاصد آزادی کیلئے ہر اعتبار سے غیر موزوں ہے، اِس لیے کہ معاش کا یہ تصور ہر عسکری ترتیب کو سرمایہ کاری کا محتاج بنا دیتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اِس عسکری روزگار کی بنیاد اُجرت یا تنخواہ پر نہیں بلکہ شراکت کے اصول پر رکھنا ہو گی۔

بیس فیصد انفال کا شراکتی تصور اِس نظم عسکریت کے لئے قرآن میں متعین ہے اور اِس کا فلسفہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں وہ حکام اور ان کی افواج جو اِس اساسِ آزادی کو اپنی رعایا کیلئے دستیاب کرنے میں رکاوٹ ہوں، اِس سزا کے مستحق ہیں کہ ان کے اموال، اسلحہ اور جائدادیں جن کی بنیاد پر وہ اِنسانیت کو غلام بنانے میں شریک جرم ہوتے ہیں، ان سے چھین کر اُن افراد کو دے دیئے جائیں جو اِنسانیت کو اِس غلامی سے نجات دلانے کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے ہوئے ہیں، تاہم ان علاقوں کے غیر متحارب عوام یعنی رعایا کی جان و مال و آبرو محفوظ رہنے لازم ہیں۔

اِس کا مطلب یہ ہے کہ ان متحارب حکام کے خلاف عسکری مہماتِ آزادی کا ہر وقت جاری رہنے والا ایسا سلسلہ شروع ہو جس میں ہر کامیاب مہم کے بعد مفتوحہ اموال کو انفال تصور کیا جائے اور یہ اموال شرکائے مہم میں تقسیم کیے جائیں۔ ان اموال میں حربی اخراجات کے بعد اسّی 80 فیصد شرکائے مہم یعنی سپاہ کیلئے اور سامان حرب فراہم کرنے والے ادارے یعنی بینک کیلئے مختص ہوں اور بینک کا حصہ بالترجیح سامان حرب کی تجدید یا اوور ہالنگ اور معاشرتی فلاح و بہبود کی اجتماعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد افراد معاشرہ میں مساویانہ طور پر تقسیم کر دیئے جائیں جبکہ باقی کے بیس فیصد اجتماعی فلاح و بہبود کی خاطر قومی خزانے (ریونیو) کیلئے مختص ہوں۔

اب اِس نظام عسکریت کے خود کفیل ہونے کے ضمن میں صرف ایک پہلو تشنہ ہے، جنگی قیدیوں کا پہلو۔ اِس حوالے سے قرآن کا حکم تو یہ ہے کہ جب متعلقہ متحارب حکومت کے ساتھ جنگ اختتام کو پہنچ جائے اور فتنہ ختم ہو جائے یعنی اِسلام کے آئین آزادی کے عوام کو دستیاب ہونے کی راہ میں رکاوٹ ختم ہو جائے تو ان جنگی قیدیوں سے خواہ فدیہ وصول کر کے انہیں چھوڑو یا بطور احسان آزاد کرو۔

اب ظاہر ہے کہ اگر فدیہ وصول کیا جائے تو یہ بھی انفال کا حصہ ہو گا۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اُس وقت تک کہ جب تک دشمن نبرد آزما ہے، جنگ اختتام کو نہیں پہنچ جاتی، فتنہ ختم نہیں ہوتا اور یوں جب تک جنگی قیدیوں کا فیصلہ نہیں ہو سکتا اُس وقت تک ان قیدیوں کی کفالت کا بندوبست کیسے ہو؟ اِس سوال کا آسان جواب بھی ان قیدیوں کے حق اِستعفیٰ کی مالیت کے تصور میں پنہاں ہے۔

انفال میں اُن "متحارب" عورتوں اور مردوں کے حق اِستعفیٰ کی ملکیت بھی شامل تصور ہو جو اِس مہم میں حریف کے طور پر لڑیں یا لڑنے والوں کے مددگار رہے ہوں اور شکست کے نتیجے میں جنگی قیدی بن کر آزادی پسندوں کے زیر حراست آئیں۔ ان قیدیوں کو فتنہ ختم ہو جانے تک کے عبوری دور کیلئے ایسے مساویانہ کفالت کے اجیر تصور کیا جائے جن کے حقوق اِستعفیٰ کی مالیت طے کرنے پر فرد واحد یا کسی ادارے کی بجائے پورے معاشرے کا اِستحقاق ہو۔۔۔ تاکہ ان کے حقوق کی زیادہ سے زیادہ مالیت بن سکے اور جانباز آزادی پسندوں کو ان کی توقع کے مطابق اتنا زیادہ حق محنت مل سکے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کوئی عظیم اِنسانی خدمت انجام دینے کے عوض ملنا چاہیے۔

ان جنگی قیدیوں کے حق اِستعفیٰ کی مالیت کا تعین اِس طرح ہو سکتا ہے کہ ایسے ہر زیر حراست فرد کے حق اِستعفیٰ کی زیادہ سے زیادہ مالیت اور کم سے کم واپسی قیمت کا تعین معاشرے کے شہری مسابقت کے اصول پر فرداً فرداً کریں جس طرح نیلامی میں کیا جاتا ہے اور بنیادی حقوق کی رُو سے اِس مسابقت میں ہر زیر حراست فرد کو بھی اس صورت میں شریک ہونے کا اِختیار دیا جائے کہ اگر وہ اس قرآنی اساس کو تسلیم کر لے یعنی اسلام قبول کر لے۔ ہر مسابقت میں اِستعفیٰ کی مالیت اور واپسی قیمت کے مابین فرق کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی بنیاد پر حتمی تعین کا فیصلہ کر دیا جائے یعنی اگر کسی جنگی قیدی کے حق اِستعفیٰ کی قیمت دو روپے اور واپسی قیمت ایک روپیہ قرار پائے تو اس کا جواز یہ ہو گا کہ کسی نے ایک روپیہ سے زیادہ فرق کی پیشکش نہیں کی۔ اِس فیصلے میں مذکورہ فرق کو انفال کا حصہ تصور کیا جائے جبکہ اِس حق کی واپسی قیمت مرکز کے پاس بطور انفاق (اللہ کو دیا ہوا قرضِ حسنہ) محفوظ رہے۔ اب اگر جنگ قرآن کی اصطلاح میں ہتھیار ڈال دے اور پھر جب ان جنگی قیدیوں میں سے کسی بھی قیدی کو بطور احسان آزاد ڈکلیئر کرنے کا مرحلہ آئے اور کھلی عوامی عدالت احتساب سے مرکز کے اِس فیصلے کو تائید بھی حاصل رہے تو وہ متعلقہ آجر کو اِس معاہدے کی واپسی قیمت انہی محفوظ اموال میں سے اس کے آجر کو ادا کر کے کسی بھی قیدی کو آزاد قرار دے سکے۔ بصورت دیگر یہ محفوظ اموال معاشرے کا مجموعی انفاق( عطیہ) تصور کیے جائیں اور اِجتماعی بہبود کیلئے اِستعمال کیے جائیں۔

یقیناً یہ عسکری ترتیب ایک کارِ سعد اور خدمت اِنسانیت ہونے کے علاوہ ایسا منافع بخش ذریعہ روزگار بھی ہو گی جس میں شریک ہونا دنیا کا ہر با ضمیر اور جری نوجوان باعث سعادت سمجھے گا۔ اِن مہمات کیلئے علیحدہ سے کوئی فنڈز مہیا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی، بلکہ الٹا یہ قوتِ نافذہ خود ہی اپنے قومی خزانے کیلئے بیس فیصد اموالِ مفتوحہ کی فراہمی کی صورت میں بے پناہ اقتصادی تقویت کا سبب بنے گی۔ ظاہر ہے کہ اِس عسکری ترتیب کی موجودگی میں مملکت کا دفاع اور اُس کی خارجہ پالیسی ایک غیر اہم بات ہو کر رہ جائے گی۔