قرآنی ریفرنس، ریاست ہائے متحدہ اِسلامیہ اور مقتدرِ اعلیٰ کا تعین

مقتدر اعلیٰ کون ہونا چاہیے؟ اُس تعین کیلئے مقتدر اعلیٰ کی ذمہ داریوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر قانون سازی کے عمل کی نگرانی ہے تاکہ کوئی مفاد پرستانہ قانون نہ بنایا جا سکے۔

ایسا مقتدر اعلیٰ صرف وہی ہو سکتا ہے جس کا اپنا کوئی مفاد نہ ہو اور ایسا شخص وہی ہو سکتا ہے جس کو کوئی ضرورت نہ ہو، جس کی کوئی مجبوری نہ ہو لیکن اِس کے باوجود اُسے رعایا کی ضرورتوں کا بخوبی ادراک ہو۔

ایسا بے نیاز مقتدر اعلیٰ ظاہر بین نگاہ کو کوئی دکھائی نہیں دیتا، البتہ کائنات کا عمیق نگاہی سے مشاہدہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایسی قوت ضرور موجود ہے جس نے کائنات کو تخلیق کیا ہے اور اُس کے نظام کو غیر متبدل قوانین پر چلا رہی ہے اور یہ سیدھی سی بات ہے کہ وہ قوت بے نیاز ہے اور کسی چیز کی محتاج نہیں ہے چنانچہ اُس قوت کو مقتدر اعلیٰ تصور کیا جا سکتا ہے، یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے۔

اگر کوئی خالق کائنات قوت موجود ہے تو بحیثیت مقتدر اعلیٰ یہ اُس کی ذمہ داری ٹھہرتی تھی کہ وہ اِنسانی اِختیارات کے توازن اور مفادِ خویش سے تحفظ کا غیر متبدل قوانین پر مبنی ضابطہ عمل بھی کائنات کے ساتھ اِنسان کو اسی طرح فراہم کرے جیسے مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اپنے پروڈکٹ کے ساتھ کتابچہ ہدایات برائے اِستعمال فراہم کرتی ہیں، یہ کتابچہ ہدایات کہاں ہے؟

اِس کتابچہ ہدایات کو تلاش کرنے کے لیے اگر مروجہ علوم پر نگاہ ڈالی جائے تو ان علوم کی صرف ایک قسم ایسی دکھائی دیتی ہے جو اِنسان کے ذاتی اکتساب کا نتیجہ نہیں بلکہ اِس کی ماخذ وہی قوت وہی بتائی جاتی ہے جسے یہ علوم خالق کائنات قرار دیئے ہیں۔

علوم کی یہ قسم مذاہب پر مشتمل ہے۔

ہر مذہب میں اُس خالق کائنات قوت کا نام مختلف ہے اور اُسے خدا، ایشور، یزداں، گاڈ اور مذہب اشتراکیت و اشتمالیت میں نیچر اور قوت حیات جیسے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان میں سے صرف سوشلزم یا کمیونزم ایسا مذہب ہے جو اِنسان کا خود ساختہ ہے اور اِسے عام طور پر مذاہب کی درجہ بندی میں شامل نہیں کیا جاتا حالانکہ نظام ریاست کا یہ concept معاشرے میں وہ کردار بھی ادا کرتا ہے جو دوسرے معاشروں میں آسمانی مذاہب کی شریعت کو انجام دینا چاہیے۔ بہرحال چونکہ ایسا ہر مذہب اِنسان کا خود ساختہ ہے لہٰذا ہمارے موضوع کا حصہ نہیں رہتا اور ہم اپنی قانونی جستجو کا مرکز انہی مذاہب کو بنا سکتے ہیں جو خالق کائنات سے منسوب ہیں کیونکہ وہیں سے ملنے والے قوانین مفاد پرستی سے پاک ہو سکتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب مذاہب اسی خالق کائنات قوت کی طرف سے ہیں تو ان میں اختلاف کیوں ہے اور ہر مذہب کی ماخذ کتاب مختلف ہدایات کیوں دیتی ہے؟

اِس سوال کا منطقی جواب سیدھا سادا ہے اور وہ ہے کہ زبان کی ہیئت تبدیل ہو گئی۔

اِنسان کی تخلیق ہوئی تو ہر علاقے میں کتابچہ ہدایات اُس کی زبان میں بھیجا گیا۔ یہ زبان جب تبدیل یا معدوم ہوئی تو زبان کی نئی ہیئت میں ان ہدایات کو منتقل کرنے والوں نے انہیں اپنی مفاد پرستی کے مطابق بدل دیا، بگاڑ دیا یا حذف کر دیا چنانچہ نئی زبان میں نیا کتابچہ ہدایات بھیجا گیا۔

عقل رکھنے والے ان نئی ہدایات کو پرکھنے لگے اور لکیر کے فقیر ان کی مخالفت کرنے لگے۔

ہر دور میں، ہر علاقے اور ہر معاشرے میں یونہی ہوتا رہا۔ جب بھی زبان کی اصل لغت ترکیبی بتدریج معدوم ہوتی اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں اصل متن یا مفاہیم مسخ کیے جاتے، نئی زبان میں وہی ہدایات دوبارہ آ جاتیں۔ تب اپنے بزرگوں کے اندھے معتقد اپنے غیر منطقی غیر فطری اور اندھے عقائد کو چاٹتے اور قعر مذلت میں گرتے رہتے جبکہ کھلے قلب و ذہن کے لوگ نئی ہدایات کو زیر بحث لاتے، ان کے مقاصد اور متوقع نتائج پر غور کرتے اور ایک فیصلے پر پہنچ کر ان ہدایات کو اپنے اپنے ماحول اور تقاضوں کے مطابق اِختیار کر کے ترقی و خوشحالی کے مدارج طے کرنے لگتے۔

متن اور مفاہیم کے مسخ کر دیئے جانے کی ایک مثال معدوم کی جانے والی زبان عبرانی کی ہے چنانچہ ترجمانی کرنے والوں نے تورات اور انجیل کی ہدایات اِجتماعی کو ڈھانپ دیا۔ آج عیسائیت کی مذہبی دنیا میں مبینہ طور پر پانچ چھ ترجمہ شدہ اناجیل دستیاب ہیں جن میں سے چار کو چرچ تسلیم کرتا ہے جبکہ پانچویں انجیل جس کا نام برنباس کی بائیبل بتایا جاتا ہے، غالب عیسائی اکثریت کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ اِسی طرح جوڈاس کی بائیبل یہودیوں کی طرف سے پیش کی گئی ہے جسے کیتھولک چرچ اور پروٹسٹنٹ دونوں کی طرف سے درست تسلیم نہیں کیا گیا۔ دیگر چاروں انجیلوں میں بھی نوعیت مضامین کا اختلاف موجود ہے کیونکہ ان میں سے ہر انجیل سیدنا عیسیٰ ؑ نے نہیں بلکہ ان کے کسی نہ کسی حواری نے اپنی یادداشت کی بنیاد پر مرتب کی چنانچہ چرچ کی طرف سے کہا گیا کہ حقیقی بائیبل ان چاروں میں بکھری ہوئی ہے۔

اِس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیت جسے سینٹ پال کی "ترامیم" کے بعد عیسائیت کی بجائے کلیسائیت کہنا زیادہ بہتر ہو گا، محض اندھے عقائد Dogmas تک محدود ہو کر رہ گئی اور اُس میں معاشرے کی اِجتماعیت، اقتدار اعلیٰ کا تصور نافذہ، قانون سازی اور تعزیرات پر کوئی قابل ذکر اور دو ٹوک ہدایات نہیں ملتیں چنانچہ یہ مذہب محض اِخلاقی پند و نصائح کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔

عیسائیت سے زیادہ قدیم عالمی مذاہب مثلاً بدھ جین ازم اور ہندو ازم کی کیفیت بھی یہی ہے کہ ان کی مذہبی کتابیں معاشرے کی اِجتماعی قانونی ساخت کی تشکیل کا "صوابدیدی" اِختیار مذہبی پیشوائیت اور اُس کی آشیرباد کے حامل حاکم کو دے دیتی ہیں اور اِنسانیت کو تدبر کرنے اور پردۂ تصور پر پرکھنے کیلئے دستور سازی کی کوئی دائمی اور دو ٹوک ہدایات نہیں دیتیں۔

اِسلام کا معاملہ اِس سے بھی بدتر بنا دیا گیا ہے۔ یہ سرے سے مذہبِ محض تھا ہی نہیں بلکہ مکمل ضابطہ اِجتماعیت و دستور سازی تھا لیکن اِسے پوجا پاٹ جیسا مذہب بنا دیا گیا۔ اِس کی ماخذ کتاب قرآن ہر چند کہ محفوظ ہے تاہم عربی زبان میں ہے اور یہ جس قوم کی زبان ہے اُسے اِس کتاب کی ہدایات کو ماننے سے کوئی خاص دلچسپی ہی نہیں ہے کیونکہ وہ قوم اپنی لذت پسندی بلکہ لذت پرستی اور تکبر میں غرق ہے چنانچہ ان کے حکمران جب قران کو پس پشت رکھ کر زر پروردہ مذہبی پیشوائیت کی آڑ اور ڈھال لے کر غیر فطری قوانین وضع کرتے ہیں تو عوام الناس میں کوئی ان کا احتساب کرنے والا نہیں ہوتا، تب اِس کے نتیجے میں بنیادی اِنسانی اور خاص طور پر خواتین کے حقوق سے متعلق مسائل پیدا ہوتے ہیں اور معاشرے میں فساد جنم لیتا ہے۔ دیگر زبانوں میں اِس کلام الہیہ کا ترجمہ کرنے والوں کی اکثریت اپنی مفاد پرستی کو کچل نہیں سکی چنانچہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے تراجم موجود ہیں جن میں باہم شدید اختلاف ہے اور جس نے فرقہ وارانہ تصادم کو جنم دیا ہے۔ دوسری طرف ان تراجم اور ان کی شرح یا تفسیر حکام کی خوشنودی کیلئے اِس طرح بھی کی جاتی رہی جس سے ان اہل اقتدار کیلئے ان کے اِختیارات کی قانونی حد بندیاں واضح اور دو ٹوک متعین نہیں کی جا سکتی تھیں چنانچہ ان تراجم اور تفاسیر کی بنیاد پر چور دروازوں سے مبرا آئین مملکت کی تشکیل ممکن نہیں رہتی اور حکومتوں کو من مانے اِستبدادی قوانین وضع کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے جس سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے۔

اِس صورت حال میں اِنسانیت کی فلاح کا امکان تبھی ہو سکتا تھا جب یا تو ساری دنیا میں صرف عربی زبان ہی بولی جاتی یا یہ زبان ہی دنیا سے معدوم ہو جاتی تاکہ خالق کائنات یہ ہدایات نئی زبان میں فراہم کر دیتا۔۔۔ یا پھر دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ درد دل رکھنے والے کچھ لوگ عربی کی ان ہدایات کو قانون سازی کے نقطہ نظر سے مجتمع کرتے ہوئے ان کی روشنی میں اقتدار کی صوابدید اور اِس کے اِختیارات کی حدود، عدلیہ اور لاء کمیشن کی طرح متعین کریں لیکن ساتھ ہی ان حدود کے مفاد پرستی سے مبرا ہونے کی دلیل کے طور پر اِنسانیت کے سامنے خود کو احتساب کیلئے پیش کریں اور عوام الناس کے سامنے ایک کھلی کچہری کے انداز میں جیوری کے زیر نگرانی ان کی ریسرچ پر جرح اور بحث ہو جس کے بعد جمہوری انداز میں اِس ریسرچ اور اِختیارات کے اِس قانونی تعین پر عوام سے اعتماد کا ووٹ لیا جائے۔ آج تک جو اِنسان کی یہ محرومی اور پیاس برقرار ہے تو اِس کی وجہ ہماری دانست میں یہی ہے کہ حکومتوں کے زر پروردہ مفاد پرست محققین تو ایک طرف رہے، اِس نوعیت کا تحقیقی کام کرنے والے اِکا دُکا مخلص جینیئس اِنقلابی قائدین بھی اپنے علمی احتساب اور سر عام جرح کیلئے خود کو اِنسانیت کے سامنے پیش کرنے سے گریزاں رہتے تھے، شاید اِس لیے کہ اگر ان کی تحقیق و قیادت میں کوئی لغزش کجی یا خلا سامنے آئے جس کی وجہ سے انہیں اپنے موقف سے رجوع کرنا پڑے تو انا اور خود داری کو ٹھیس نہ لگے۔ یہ انا اور خود داری، پندار اور عزت نفس دراصل وہی چیز ہے جسے گزشتہ ابواب میں برتری کی ضرورت کا نام دیا گیا ہے اور جو اِنسان کی ایسی بنیادی ضرورت ہے کہ اگر اُسے سیدھے راستے سے نہ ملے تو وہ جرم پر آمادہ ہو سکتا ہے چنانچہ اِس مجبوری کو ہم ان کا گناہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی جتنی بھی نامکمل یا عدم نتیجہ کاوش ہے، کچھ نہ ہونے سے تو بہرحال بہتر ہے۔ یہاں تو صرف اِس نکتے کی بات ہو رہی ہے کہ ان مصلحین کو حتمی اِنقلابی کامیابی کیوں نصیب نہ ہو سکی اور آج اِنسانیت کو ایک مکمل اور فول پروف آئین آزادی کیوں دستیاب نہیں ہے۔

زیر نظر تحریر دراصل آسمانی ہدایات کے اِسی قانونی تعین اور احتساب کیلئے اہل درد کو بلاوا ہے کہ اگر کوئی حوصلہ مند ایسا ہے جو اِنسانیت کی فلاح اور نجات کی خاطر مفادِ خویش، اپنی انا اور پندار کو اسی طرح ذبح کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو جیسا خدا کے پیغمبر ابراہیمؑ اپنے بیٹے کیلئے رکھتے تھے۔۔۔ تو اُسے دیر نہیں کرنی چاہیے۔

ہمارا دین اِسلام، لیکن مذہب Logic ہے۔ یہی مذہب سیدنا ابراہیم ؑ کا تھا چنانچہ قرآن میں ان کا اپنے رب کی جستجو کا سارا بیان اور پھر مندر میں بتوں کی توڑ پھوڑ کے بعد قوم کے سامنے عقلی دلیل رکھنا، سب اِسی منطقی طرز فکر کی آئینہ داری ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن میں ان کی سیرت اور طریق کار کو بھی اسوہ یعنی مثال اور نمونہ بتایا گیا ہے۔ قرآن کے مطابق انہوں نے کبھی کسی مافوق الفطرت معجزے کے زور پر اِنسانیت کو خالق کی ہدایات ماننے پر مجبور نہیں کیا۔ سیدھی سی بات ہے کہ سائنسی ترقی کے اِس موجودہ دور میں اگر آپ کسی کو عقل سلیم کی بنیاد پر قائل کرنے کی بجائے مافوق الفطرت معجزے کی دہشت سے خوفزدہ کر کے اپنی بات ماننے پر مجبور کریں گے تو آپ کے مذہب کو سچا مذہب کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمیں مختلف مذاہب کی کتابوں میں ان مذاہب کے بانیوں اوتاروں کا "ہتھیار" معجزہ اور کرامت دکھائی دیتا ہے ہم ان کتابوں کو یہ سمجھ کر ناقابل اطلاق گردانتے ہوئے اوڑھ لپیٹ رکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں یہ مذاہب اولو الالباب کو مطمئن نہیں کر سکتے۔

دنیا میں شاید کوئی بھی مذہب ایسا نہیں ہے جس کی ماخذ دستیاب کتاب میں اُس مذہب کے بانی کا کوئی خرقِ عادت معجزہ "بطور ہتھیار" مذکور نہ ہو۔ صرف قرآن ایسی کتاب ہے جس میں حامل قرآن کو مافوق الفطرت معجزے کے زور پر اِنسانیت کو قائل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور دیدۂ بینا کیلئے اِس کی حقانیت کو یہی دلیل کافی ہے۔ اِسی لئے ہم نے مختلف تراجم سے قطع نظر کرتے ہوئے آئین سازی کی محکم ہدایات یعنی اُمّ الکتاب پر نگاہِ عقل و فکر مرکوز کی اور غیر متوقع طور پر بہت سے ایسے نکات سامنے آئے جن کو ملانے سے دورِ حاضر کیلئے سب مروجہ نظاموں سے انوکھا اور فول پروف نظام اِجتماعیت متشکل ہو رہا تھا۔ یہی تشکیل آپ اِس تحریر میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہم نے یہ تقریباً تمام نکات جن پر یہ مقالہ ایستادہ ہے، قرآن میں سے ہی لیے ہیں۔ یہاں ان حوالوں کا ذکر مناسب ہے جن سے یہ نکات اخذ ہوئے۔

معجزے کے ذریعے قائل کرنے کی مخالفت کا ذکر قرآن کے باب (سورۃ) نمبر6 "انعام" آیت 32 تا 35 اور باب (سورۃ) نمبر 17"اسراء " آیت نمبر 93 میں مذکور ہے۔

قرآن کے آئینی ہدایت نامہ ہونے کا تصور قرآنی مضامین کا محور ہے لہٰذا یہ ذکر مختلف انداز اور حوالوں سے سارے قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے حتیٰ کہ اِس کتاب کی ابتدا بھی اِسی بات سے ہوتی ہے۔ پہلے باب (سورۃ فاتحہ) جس کی اہمیت قرآن میں وہی ہے جو کسی کتاب میں دیباچے کی ہوتی ہے۔ اِس میں اُس حلف کے الفاظ ہیں جو اِنسان کو اپنے رب کی عطا کردہ زندگی اُس کی منشا کے مطابق بہترین اور شاندار طریقے سے گزارنے کا عہد کرنے کیلئے اٹھانا ہوتا ہے چنانچہ یہاں اِنسان کی بنیادی طلب یعنی زندگی دینے والے سے اِس زندگی کو گزارنے کا طریقہ یعنی صراط مستقیم سمجھنے کی فطری طلب کا ذکر بھی ہے اور اِس حلف کے فوراً بعد اگلے باب یعنی دوسری سورۃ کی سب سے پہلی آیت میں ہی اِس طلب کا جواب یہی مذکور ہے کہ یہ ہے وہ ضابطہ جو طلب گاروں کیلئے ہدایت نامہ ہے۔ اب مملکت کی قانون سازی کیلئے سیکولر نظریئے کی مناہی اور قرآن کو اساس بنانے کا دو ٹوک حکم قرآن کے باب (سورۃ) نمبر3 "آل عمران" کی آیت نمبر 79 میں دیا گیا ہے۔ بلا تخصیص مرد و زن ہر شہری کیلئے جمہوری بنیادوں پر ووٹ اور احتساب کا حق باب (سورۃ) نمبر3"آل عمران" کی آیت نمبر110 اور باب(سورۃ) نمبر9" توبہ" کی آیت نمبر71 سے مستنبط ہوتا ہے۔ خود مختار احتساب عدالت کیلئے باب (سورۃ) نمبر3 "آل عمران" کی آیت نمبر104 سے اِستدلال کیا گیا۔

ہم نے زیر نظر تحریر کو اہل درد کیلئے بلاوہ قرار دیا ہے۔ ان اہل درد کی پہچان اور ان کا کردار قرآن کے باب(سورۃ) نمبر 9"توبہ" کی آیت نمبر128 میں مذکور ہے اور اِس کردار کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ اُس پر بھاری ہے جو دوسروں پر گزرتی ہے۔ یہ Empathy کا تصور ہے اور اِس کا کوئی خاطر خواہ اُردو مترادف لغت میں نہیں ہے۔

گزشتہ اوراق میں حب الوطنی کو زہر کے مترادف یعنی مہلک قرار دیا گیا تھا۔ یہ بات باب(سورۃ) نمبر2"بقرہ "آیت نمبر165، باب (سورۃ) نمبر37"صافات" آیت نمبر 28۔30 اور باب (سورۃ) نمبر12 "یوسف "آیت نمبر 40 سے مستنبط ہوئی۔ ٹیکس فری سٹیٹ کا تصور آپ نے ملاحظہ فرمایا،یہ تصور باب (سورۃ) نمبر 2 "بقرہ "آیت نمبر 219 میں اور باب (سورۃ) نمبر 9 "توبہ "آیت نمبر 103 میں ملا۔ پہلے مقام پر بتایا گیا ہے کہ شہری اپنا ضرورت سے زائد مال اِجتماعی ضروریات کیلئے حکومت کو دے دیں۔۔۔ اور دوسرے مقام پر بتایا گیا ہے کہ حکومت ان سے وہی لے جو یہ حکومت کو دیں، گویا دونوں مقامات پر ٹیکس کا Assessor ٹیکس لینے والا نہیں بلکہ دینے والا ہے۔ اِس اصول کے نتیجے میں ٹیکس کی حیثیت حکومت کو دیئے جانے والے عطیے کی سی رہ جاتی ہے اور حکومت ٹیکس وصول نہیں کرتی بلکہ قبول کرتی ہے کیونکہ اِس بات کا فیصلہ ٹیکس دینے والا کرتا ہے کہ اپنی جان و مال اور عزت آبرو کے تحفظ کی گارنٹی اُس کے ملک میں کتنی مہنگی ہے اور اِسے خریدنے کے بعد اُس کے پاس کتنا مال زائد از ضرورت ہے۔

کرنسی کی قیمت سونے کے مقابلے میں منجمد کرنے کے لزوم کا اِستدلال باب (سورۃ) نمبر14 "ابراہیم" کی آیت نمبر 24۔26 ہے۔ یہاں کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی اصطلاحوں کے ساتھ دو متضاد قوانین کی جو پہچان بتلائی گئی ہے وہ دور حاضر میں کرنسی کی ویلیو منجمد کرنے اور نہ کرنے کے تصور پر بھی ٹھیک ٹھیک بیٹھتی ہے۔ یاد رہے کہ یہاں سیاق و سباق میں اللہ کے مقابلے میں طاغوت یعنی مطلق العنان Sovereignگورنمنٹ کا کردار ذکر کیا جا رہا ہے۔

باب (سورۃ) نمبر 20" طاہا" کی آیت نمبر 15 میں نماز کا ایک مقصد یہ دکھائی دیتا ہے کہ اِس نظام کے باعث ہر شخص کو اُس کی محنت کا پورا پورا معاوضہ ملے یعنی ٹیکس، ڈیوٹی، سرچارج وغیرہ کے نام پر اُس کی محنت کا ثمر اُس سے کوئی چھین نہ سکے۔ آیت نمبر14 میں نظام صلوٰۃ قائم کرنے کی تاکید ہے اور اُس سے اگلی آیت میں اِس تاکید کا یہ ایک مقصد ذکر کیا گیا ہے کہ محنت کا پورا پورا معاوضہ ہر محنت کرنے والے کو ملے یعنی اُس سے مادرِ وطن کے ٹیکس وغیرہ کے نام پر چھینا نہ جا سکے۔

نماز کے دیگر مقاصد کا ذکر باب (سورۃ) نمبر 29 "عنکبوت" آیت نمبر45 میں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ نظام معاشرے کو فحشاء اور منکر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اب فحشاء اور منکر کیا ہوتے ہیں؟ اِس کا مفہوم باب (سورۃ) نمبر16 "نحل" کی آیت نمبر 90 سے واضح ہوتا ہے کہ فحشاء "عدل" کا متضاد ہے اور منکر "احسان" کا، اور احسان کی جڑ یا مادہ "حسن" یعنی درستگی ہے چنانچہ عربی روزمرہ کی رو سے احسان کا مفہوم دور حاضر کے تناظر میں یہ بھی ٹھہرے گا کہ قومی وسائل اور اختیارات کا ٹھیک ٹھیک اِستعمال ہو اور دولت کے چند ہاتھوں خاندانوں اور نسلوں تک محدود کرنے کی قانون سازی موثر نہ ہونے دی جائے۔ عربی گرامر کی رو سے بھی فحشاء کا مفہوم یہی ہے کہ غلط اور درست کا التزام رکھے بغیر سب کچھ اپنے لیے سمیٹنا، گویا نماز کا نظام ایک مشاورتی اور احتسابی نیٹ ورک ہے جو اِس بات کی ضمانت کیلئے قائم کیا جاتا ہے کہ معاشرے میں نہ تو ناانصافی اور طبقاتی ناہمواری و عدم مساوات "فحشاء " ہو گی اور نہ بدعنوانی "منکر"(Corruption) یا عدم بہبود۔ مزید یہ کہ باب (سورۃ) نمبر 4"نساء " آیت نمبر 103 کے مطابق اِسلامی حکومت اپنی تمام کارکردگی بشمول آمدن و اخراجات کے ضمن میں پوری رعایا کے سامنے جوابدہ ہو گی۔ الفاظ "فاذکرواللہ" کی عملی صورت دورِ حاضر کی اصطلاح میں یہی ہے کہ قانونی نظام معاشرہ پر قرآنی تناظر میں بھرپور نگاہِ احتساب رکھی جائے جس کی مثال دورِ اول میں ملتی ہے جہاں سربراہِ مرکز سے پوچھا گیا تھا کہ تمہارے پاس دو چادریں کہاں سے آ گئیں؟۔۔۔ یہیں سے اور باب (سورۃ) نمبر 21 "انبیاء" آیت نمبر23 سے ہفتہ وار عدالت احتساب کا تصور اخذ کیا گیا۔

افراد معاشرہ اور ان کے اہل و عیال کیلئے ناگہانی صورت حال میں عمال یعنی سرکاری ملازمین کے مساوی کفالتی تحفظ کا اِستدلال باب(سورۃ) نمبر6 "انعام" کی آیت نمبر151 سے لیا گیا۔

مرکز کے تحت خود مختار آئینی ریاستوں کے تصور کیلئے باب (سورۃ) نمبر 4"نساء" آیت نمبر97، باب (سورۃ) نمبر 5 "انعام" آیت نمبر135، باب (سورۃ) نمبر 2 "بقرہ" آیت نمبر62 اور باب (سورۃ) نمبر 17"اسراء" آیت نمبر84 کا حوالہ ہے۔

مرکز کی ذمہ داری بہبود، رسل و رسائل اور مواصلات کا انتظام باب (سورۃ) نمبر 9"توبہ" آیت نمبر 60 سے مستنبط ہوا جہاں ریونیو کے اِستعمال کی مدات ذکر کی گئی ہیں۔

اِس ذمہ داری کو کماحقہٗ انجام دینے اور حکومت کے احتساب کا نظام نافذ کرنے کی حتمی تاکید باب (سورۃ) نمبر 22" حج" آیت نمبر 41 میں ذکر کی گئی ہے کہ یہ نظام اسی وقت نافذ ہوتا ہے جب اِس پر یقین رکھنے والوں کو اقتدار حاصل ہوتا ہے۔ گویا یہ ممکن ہی نہیں کہ حکومت تو اس نظام کے مخالفین کی ہو جو عوام کے سامنے ایک مقررہ ٹائم ٹیبل کے مطابق باقاعدگی سے اپنے احتساب کیلئے پیش ہوتے رہنے کے روادار ہی نہ ہوں اور عوام کی نماز قائم ہو جائے۔ رعایا کی نماز یہ ہے کہ وہ حکومت سے یہ نظام احتساب (صلوٰۃ) اور ٹیکس اور بد عنوانی سے پاک عوامی فلاح و بہبود کا نظام (زکوٰۃ) نافذ کرائے۔ آج کے مسلمان جس چیز کو نماز تصور کرتے ہیں، وہ صلوٰۃ نہیں دراصل صلوٰۃ کا حلف ہے اور صلوٰۃ تو اِس حلف کے بعد شروع ہوتی ہے۔ باب (سورۃ) نمبر 70"معارج" آیت نمبر19 سے 35 تک نظام صلوٰۃ کے یہی خط و خال واضح کیے گئے ہیں۔

انفاق، ووٹ اور حکام کا احتساب شہادت کا حصہ ہے اور شہادت خفیہ نہیں ہو سکتی۔ اِسی طرح نکاح اور وصیت کیلئے از رُوئے قرآن گواہوں کی موجودگی لازمی ہے اور یہ التزام ان دونوں Declarations کے علانیہ ہونے پر دلیل ہے۔ وصیت کے علانیہ ہونے کی تائید میں تو باب (سورۃ) نمبر2 "بقرہ" آیت نمبر 182 ہی کافی ہے جہاں نامناسب وصیت کرنے والے اور اِس سے متاثر ہونے والے کے درمیان صلح کرا دینے کی تاکید ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ صلح تبھی ممکن ہے جب یہ وصیت اپنے تعین کے وقت سے ہی دوسروں کے علم میں ہو۔

اگرچہ ایسے نہ جانے کتنے ہی مقامات ہیں جہاں اِس ہدایت نامہ کا مقصد عربی نہ جاننے والے کی نگاہ سے اوجھل ہو چکا ہے لیکن شاید نمایاں ترین مثال یہی ملک یمین (جسے غلامی سمجھا جاتا ہے ) کا قرآنی تصور ہے اور جسے انگلش ترجمہ کرنے والوں کی اکثریت نے Slavery قرار دے رکھا ہے۔

یہی وہ اہم ترین مقام ہے جہاں ترجمہ کرنے میں مخلص مترجمین سے بھی لغزش ہوئی اور اِسی غلطی کی پاداش میں آج صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری اِنسانیت مسائل سے دوچار ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے مساویانہ نظام کفالت کا جو مطالعہ کیا، وہ اِسی نظام "ملک یمین" کی حقیقی صورت ہے جسے تقریباً سبھی ترجمہ کرنے والوں سے غلامی Slavery کا نظام سمجھنے کی سنگین غلطی ہو گئی۔

اِس غلطی کی وجہ بظاہر یہ ہوئی کہ عربی میں غلام کا لفظ منفی تاثر نہیں رکھتا جبکہ اِس کا اگر انگلش میں ترجمہ کیا جائے تو ڈکشنری میں اِس کا ترجمہ Slavery مقرر ہے جو اِنسانیت پر ایک لعنت کے مترادف ہے۔ مترجمین سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ لفظ غلام کا مفہوم ہی متعین نہیں کر سکے۔ وہ شاید سمجھ نہیں سکے کہ قرآن کے لفظ "ملک یمین" سے Slave مراد نہیں ہے اور Slave کیلئے عربی میں جو لفظ اِستعمال ہوتا ہے وہ "عبد" ہے اور قرآن کی رو سے اِنسان کی عبدیت یعنی Slavery جائز نہیں ہے۔ اُردو اور شاید دیگر زبانیں بھی اِس معاملے میں تہی دست ہیں کہ ان میں قرآن کے اِس تصور روزگار کا مترادف کوئی لفظ موجود ہی نہیں ہے چنانچہ اِنسانیت گمراہ ہونے پر گویا مجبور ہے۔ اہل زبان اگر اِس طرف توجہ دیں اور اِس تصور کے لئے اپنی اپنی زبانوں میں کوئی متعین اصطلاح وضع کر لیں تو یہ اِنسانیت پر ایک احسان ہو گا۔ ذیل میں ہم اِسی تصور کے مختلف پہلوؤں کا حوالہ دیکھیں گے۔

یہ تصور روزگار مختلف حوالوں سے بیسیوں مقامات پر ذکر ہوا ہے۔ چند حوالے یہ ہیں۔ مساویانہ معیارِ کفالت کے لئے باب (سورۃ) نمبر 16"نحل" آیت نمبر 70 اور باب (سورۃ) 30"روم" آیت 28 سے اِستنباط کیا گیا۔ حق اِستعفیٰ کی ملکیت کا تصور خود انہی مندرجہ بالا الفاظ میں موجود ہے جن کا ترجمہ غلامی کیا جاتا ہے۔ ان الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے۔ "دائیں ہاتھ کی ملکیت"۔۔۔ اور دائیں ہاتھ میں صرف کلائی پکڑی جا سکتی ہے تاکہ اجیر اپنی مرضی سے جب چاہے اپنی کلائی چھڑا نہ سکے۔ اجیر کے باقی جسم، مال و متاع، اہل خانہ، آزادی اظہار و کردار اور دیگر بنیادی حقوق پر ملکیت کا کوئی جواز یا شائبہ تک ان الفاظ میں نہیں ملتا جن سے غلامی کا مفہوم لے لیا گیا ہے چنانچہ اِس سے کسی بھی طرح کی Slavery مراد نہیں لی جا سکتی۔ ان الفاظ کا تعلق صرف حق اِستعفیٰ سے بنتا ہے۔ اِس حق اِستعفیٰ کی واپسی قیمت کیلئے "مکاتبت" کا حکم باب (سورۃ) 24"نور" آیت 33 میں موجود ہے۔

معاہدۂ شادی کی دو اقسام یعنی "نکاحِ زوجیت" اور "نکاحِ ملک یمین" باب (سورۃ) 23"مومنون" آیت6 میں مذکور ہیں۔ مرد پر عورت کے کفالتی انحصار کا حوالہ باب (سورۃ) 4"نساء " آیت34 سے ملتا ہے۔ Aids اور طہر کا تصور باب (سورۃ) 2"بقرہ" آیت228 سے لیا گیا ہے۔ جنس کے مرد کی ضرورت ہونے اور اِس کا مقصد نسل اِنسانی کی پیدائش قرار دیئے جانے کا حوالہ باب (سورۃ) نمبر 7"اعراف" آیت نمبر 189، باب (سورۃ) 2"بقرہ" آیت 222۔223 اور باب (سورۃ) 4"نساء" آیت 24۔25 میں ہے۔ عورت اور مرد کی ذمہ داریاں مختلف ہونے اور مرد پر عورت کی کفالت کی پابندی کا حوالہ باب (سورۃ) 4"نساء " آیت 34 میں اور عورت کیلئے نسل اِنسانی کی پیدائش اور پرورش دو الگ الگ ڈیوٹیاں ہونے کا تصور باب (سورۃ) 2"بقرہ" آیت234 میں موجود ہے۔

اِنسان کے لئے برتری کی ضرورت کا تصور جے قرآن میں "سبقت" کی اصطلاح دی گئی ہے، متعدد جگہوں پر مذکور ہے۔ یہ تصور باب (سورۃ) 57"حدید" آیت 20۔21 کے علاوہ باب (سورۃ) 30"روم" آیت 30 میں قدرے مختلف انداز میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ یہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اِنسان کو خالق کائنات قوت نے اپنے کسی خاص قانونِ فطرت پر تخلیق کیا ہے جس سے ذات اِنسانی میں اِس کے خالق کی کوئی ایسی خصوصیت منعکس ہو گئی ہے جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں اور خود اِنسان کیلئے اپنے خالق کی پہچان کی بنیاد ہے جسے فطرت اللہ کہا گیا ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ Almighty کے تصور میں اُس کی انتہائی عظمت اور کبریائی یعنی برتری کا پہلو سب سے نمایاں ہے چنانچہ اِس آیت سے اور اِس سے قبل کی دو آیات سے بے ساختہ شائبہ ہوتا ہے کہ اِنسان جو ا پنی ہر حیثیت میں عظمت اور برتری کا شدید آرزو مند ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر خود غرض اپنے اور اپنے خدمتگاروں کے درمیان طبقاتی اِمتیاز رکھنا چاہتا ہے، تو اِس آیت میں اور اِس کے سیاق و سباق میں اِسی جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اِس فطری ضرورت کو اپنی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ اللہ کے بتائے ہوئے معیار جس کا نام دین حنیف ہے، کے مطابق سیراب کرے اور اگر یہ معیارِ عظمت معاشرے میں مسلمہ نہ ہوں تو غلط معیارات کی طرف رُخ نہ کرے بلکہ اِسی دین حنیف کو معاشرے میں قائم کرنے کیلئے کوشش کرے۔ اِسی طرح باب (سورۃ) 49"حجرات" کی آیہ13 کا حوالہ بھی ہے۔ یہاں سمجھایا گیا ہے کہ تمہیں جو یہ قبائل اور معاشرتی گروہوں (یعنی ممالک) میں رکھا گیا ہے تو یہ محض تمہارے تعارف کیلئے ہے اور اِس کا کوئی تعلق تمہاری تکریم و عظمت یعنی تشخص سے نہیں ہے اور یہ کہ اللہ کے نظام اِجتماعیت میں زیادہ قابل توقیر و اکرام وہی ہوتا ہے جو اللہ کی اِطاعت کا زیادہ متمنی اور اعلیٰ اِنسانی اقدار کا زیادہ حامل یعنی متقی ہے۔ باب (سورۃ) 28"قصص" کی آیہ83 میں حتمی اِنقلابی کامیابی Break Through کی خوشخبری ان لوگوں کیلئے مذکور ہے جو معاشرے میں عالی مرتبت ہونے کی اِس طلب کے مرید نہیں ہو جاتے۔ اِسی بنیاد پر اِس تحریر میں ایسے مخلص اور اہل درد کو بالخصوص مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر کوئی حوصلہ مند ایسا ہے جو اِنسانیت کی فلاح اور غلامی سے نجات کی خاطر مفاد خویش، اپنی انا اور پندار کو ذبح کرنے اور رسوائی کے خوف سے بے نیاز ہو کر خود کو "سلوکِ طائف" کیلئے پیش کرنے کا جگر رکھتا ہو۔۔۔ تو اُسے دیر نہیں کرنی چاہیے۔

اِسی طرح پوری اِنسانیت کی سطح پر آزادی کی راہ میں رکاوٹ کو بزورِ قوت ہٹانے اور اِس کے تحت عسکری نظم میں مرکزی خزانے کے لئے جو انتظامی اخراجات کی مد میں بیس فیصد کا تعین کیا گیا ہے وہ باب (سورۃ) نمبر 4"نساء" آیت نمبر75 اور باب (سورۃ) نمبر 8"انفال" آیت نمبر 39۔41 سے لیا گیا ہے۔ فوری اور باعث عبرت (یعنی سرعام) تعزیرات باب (سورۃ) 5"مائدہ" آیت33۔38 میں مذکور ہیں۔ اِسی طرح دیگر مضامین ہیں، غرض یہیں سے تمام اکتساب کیا گیا ہے جس کو سمجھنا چنداں دشوار نہیں ہے لہٰذا اِس کی مزید تفصیل سے ہم اب قطع نظر کرتے ہیں۔

مختصر یہ کہ اقتدارِ اعلیٰ کا اہل صرف وہی ہو سکتا ہے جس کو خود کسی شے کی احتیاج نہ ہو تاکہ وہ اپنی مفاد پرستی کے چکر میں چور دروازوں والے قوانین کو تحفظ نہ دے۔ اب چونکہ ایسا مقتدرِ اعلیٰ خالق کائنات ہی ہو سکتا ہے اور اُس کا اقتدار ایک کتابچۂ ہدایات کی غیر مشروط فرمانبرداری کی صورت میں ہی ممکن تھا لہٰذا اُس فرمانبرداری کی ذمہ داری نبھانے کے لئے جو اِنسان مختار بنایا جائے، لازم ہے کہ اُس کی دستوری حیثیت مقتدرِ اعلیٰ کے نائب وائسرائے کی سی ہو اور وہ اِس کتابچۂ ہدایات سے سرتابی نہ کرنے کا پابند ہو جبکہ اُس کے کسی بھی فیصلے یا حکم کے اِس کتابچۂ ہدایات کے خلاف ہونے کا احساس اگر کسی بھی فرد کو ہو تو وہ اُس حکم کا سر عام محاسبہ کرنے کا اِستحقاق رکھتا ہو۔ یہی محاسبہ اُس وائسرائے کی اپنے منصب پر برقرار رہنے کی اہلیت کا تعین کرے۔ اِس تعین کے لئے مرکزی عدالت احتساب ہفتہ وار کورٹ آف ریفرنڈم کی ذمہ داری بھی سر عام انجام دے تاکہ جیسے ہی ایک وائسرائے خلاف قرآن کارکردگی کی بنیاد پر رعایا کے لئے ناقابل قبول ثابت ہو، اُسے معزول ڈکلیئر کیا جا سکے۔ اِس کورٹ آف ریفرنڈم کی جیوری مملکت کے ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ہو کیونکہ یہ منصب ان لوگوں کا حق ہونا چاہیے جو کائنات کے اِسرار و رموز کو دوسروں سے زیادہ سمجھتے ہیں اور جن کی قرآن میں باب (سورۃ) 3"آل عمران" آیت 191 اور باب (سورۃ) نمبر 35"فاطر" آیت28 میں سفارش کی گئی ہے۔ ان اعزازی ارکان جیوری کی میرٹ لسٹ اِس بنیاد پر ترتیب دی جائے کہ کس نے اپنی ضروریاتِ زندگی کیلئے جامد سامان مثلاً گھریلو سامان، زیورات، ذاتی سواری اور رہائش گاہ کی کم سے کم صورتوں میں دولت روک رکھی ہے۔ یہ ٹیکنوکریٹس ویسی ہی ایک ہفتہ وار روٹیشن کے مطابق جیسی ہم گزشتہ ابواب میں مقامی عدالت احتساب کے ضمن میں زیر مطالعہ لا چکے ہیں، اِس جیوری میں اعزازی طور پر شامل ہونے کیلئے مدعو کیے جائیں اور معاملے کی سماعت کے بعد یہ اپنا ووٹ خفیہ رائے شماری کے ذریعے نہیں بلکہ ہاتھ اٹھا کر یا کسی دوسرے طریقے سے رعایا کے سامنے کاسٹ کریں تاکہ رعایا کو ہر رکن جیوری کے ذاتی موقف کا علم رہے۔

اِس تصور کو آئینی اساس بنا لینے کے بعد یہ سوال بے معنی ہو جاتا ہے کہ اُس وائسرائے کا انتخاب کیسے عمل میں لایا جائے۔ ہماری دانست میں اِس قسم کا وائسرائے بننے پر کوئی عام شخص آسانی سے تیار ہی نہیں ہو گا کہ جس کے ذریعے اُس کی مفاد پرستی ممکن ہی نہ ہو اور اُسے تقریباً ہر وقت عوام کے سامنے اپنے احتساب کیلئے حاضر رہنا پڑے۔ مثال کے طور پر اگر جمہوریت اور الیکشن کا طریق کار اِختیار کیا گیا تو ساری مملکت میں شاید ہی کوئی بڑھ چڑھ کر کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ تب خواہ کسی اہل بصیرت، اہل درد کو درخواستیں التجائیں کر کے ہی کیوں نہ برسراقتدار لانا پڑے، مقتدرِ اعلیٰ کا ایک نائب یا خلیفہ، ایک وائسرائے بہرحال تعینات کرنا ہو گا تاکہ ایک حقیقی آزاد معاشرہ وجود میں آ سکے۔ یہی کسوٹی آزادی کی پرکھ کے لئے کافی ہے۔ جب بھی آپ دیکھیں کہ کسی معاشرے میں اقتدار کے خواہشمند امیدوار ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سمجھ لیجئے کہ رعایا کی آزادی کو سلب کرنے اور مذموم مفادات کو پورا کرنے کا کوئی چور دروازہ آئین میں پیدا کر لیا گیا ہے۔ احتساب موقوف ہو گیا ہے یا آئین میں بر سر اقتدار افراد کیلئے صوابدیدی اِختیاراتِ اِستبداد کا وہ راستہ ہموار ہو گیا ہے جس کا اختتام معاشرے کو بیگار کیمپ بنا دینے پر ہوتا ہے۔ تب آزادی پسندوں کیلئے سب سے پہلے ان برسر اقتدار افراد، آئین اِستبداد کے ان محافظین کا آئینی چور دروازہ منہدم کرنے اور آزادی کی رکاوٹ دور کرنے کا جارحانہ عمل انہی عسکری اصولوں پر شروع کرنا ہو گا جو گزشتہ ابواب میں ہم ملاحظہ فرما چکے ہیں۔