معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی رُو سے اِس نظام کے پورے کرۂ ارض پر پھیلنے کیلئے حرم کعبہ کو مرکز مقرر کیا گیا ہے چنانچہ اِس تحریر کے براہِ راست مخاطب خاص طور پر تو حرم کعبہ یعنی مکہ و سعودی عرب کے اور بحیثیت مجموعی دنیا کے تمام مسلمان ممالک کے حکام ہیں۔ ظاہر ہے کہ اِس کارِ سعد کو انجام دینے کا اولین فرض تو انہی کا ٹھہرتا ہے جو کسی معاشرے میں قانون سازی اور قوتِ نافذہ کی تشکیل کا اِختیار رکھتے ہیں اور خون بہائے بغیر اپنی رعایا کو آزادی کی یہ نعمت دستیاب کر سکتے ہیں، تاہم اگر یہ نعمت اِنسان کو فراہم کرنے کیلئے دنیا بھر میں کوئی بھی مقتدر شخص سامنے نہ آئے تو یہ خود رعایا کا فرض بن جاتا ہے کہ اِس آزادی کا حصول اپنے لیے ممکن بنائے اور اِس کیلئے اپنے اپنے علاقوں میں اپنے اپنے بیگار کیمپ یعنی وطن کے اہل اِختیار و اقتدار کے سامنے اِس قانونی نظام کی دستیابی کا مطالبہ رکھے۔

اِس مطالبے کا طریق کار ہر علاقے میں وہاں کی معاشرتی فضا کے مد نظر ترتیب دینا ہو گا۔ اِس کا پہلا اور آسان مرحلہ یہ ہے کہ اِس تحریر کو زیادہ سے زیادہ افراد کے زیر نظر لا کر اِس مطالبے کیلئے باہمی مشاورت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔

اِس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے لازم ہے کہ ہر فرد اِس کے ابلاغ میں اپنی اِستطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ حصہ دار بنے۔ اب خواہ یہ ابلاغ ای میل کے ذریعے ہو یا کسی بھی زبان میں اشاعت کی صورت میں، یہ تصورِ آزادی جتنی دُور اور جتنے افراد تک پہنچے اور جتنی جلد اِس پر مشاورت اور نقد و نظر کا سلسلہ شروع ہو، بنی نوع اِنسان کی آزادی کی منزل اتنی ہی قریب ہوتی چلی جائے گی۔

یہاں ایک تاکید ضروری ہے۔

یہ ایک سوچی سمجھی حقیقت ہے کہ اِس تحریر کا ابلاغ بھی اس مفاد پرست ٹولے کو کبھی گوارا نہیں ہو گا چنانچہ اِس کی بھر پور کوشش ہو گی کہ اِنسانیت کی توجہ اِس منشور پر مرکوز ہی نہ ہونے پائے۔ عالمی میڈیا اِس کے قبضے میں ہے چنانچہ اِس مقصد کیلئے اِس کے پاس کئی راستے ہیں لیکن یہ سب طریقے تبھی اِس کارِ سعد کو متاثر کر سکتے ہیں جب ہماری طرف سے آزادی کے اِس تصور کے ابلاغ میں سستی اور تساہل برتا جائے۔ ایسے ٍ ہر زہریلے ہتھکنڈے کی ویکسین، اِس سازش کی پیش بندی یہی ہے کہ یہ منشورِ آزادی جلد از جلد زیادہ سے زیادہ افراد کے علم میں آ جائے اور اِس پر ہر زبان میں اور سمجھدار لوگوں کی ہر مجلس میں بحث و نظر اور مشاورت کا سلسلہ زور پکڑ جائے۔ اِسی لیے قارئین سے التجا یہی ہے کہ اِس کے ابلاغ، اشاعت اور ترجمانی کو پہلی ترجیح دیں، اِسے ای میل کریں، انٹرنیٹ کی ویب سائیٹس پر اِسے سب کیلئے دستیاب رکھیں، اِسے دیگر زبانوں میں ڈھالیں یا اِسے شائع کریں، غرض یہ عزم رکھیں کہ دنیا میں خواہ کیسے ہی حوادث، کیسے ہی خوفناک واقعات اور جنگیں کیوں نہ برپا کی جانے لگیں، اِس ابلاغ میں تساہل نہیں ہونے دیں گے۔ قرآن میں اِس مقصد کی ابتدا کیلئے ایک نہایت آسان طریق کار کی رہنمائی موجود ہے۔ باب (سورۃ) نمبر 34"سبا" آیت نمبر46 میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کیلئے یعنی پوری اِنسانیت کی خاطر ایک ایک دو دو کر کے کھڑے ہو جاؤ اور اِس امر پر غور کرنا شروع کر دو کہ اِنسانیت کیلئے قرآن کا عطا کردہ یہ تصورِ آزادی کوئی دیوانے کی بڑ نہیں ہے بلکہ یہ نظام تو تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ اگر تم نے اِس اذیت ناک غلامانہ زندگی سے نجات حاصل نہ کی تو اِس کے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں مثلاً یہ کہ معاشرے میں جرائم کی شرح اتنی بڑھ جائے گی کہ کسی کی جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہ رہے گی۔ تشویش اور فرسٹریشن کے باعث بیماریوں کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ہوسِ زر کے باعث بدعنوانیاں، کرپشن اور بدکردار یاں، لوٹ کھسوٹ، بددیانتی، جہیز اور ایسی اِخلاقی خرابیاں فزوں تر ہوتی چلی جائیں گی۔ عائلی اِنحطاط کے باعث بے راہروی، بے ہودگی، بدکاری اور پھر ایڈز کنٹرول سے باہر ہو جائیں گی اور یہ مجموعی صورت حال معاشرے کی بدترین تباہی پر منتج ہو گی۔ اِس تباہی سے تحفظ کے عمل کی ابتدا یہ ہے کہ ایک ایک دو دو کر کے "کھڑے " ہو جائیں اور غور کرنے لگیں یعنی اپنے اپنے مقامات پر اپنے اقربا و احباب کے ساتھ اِس موضوع کو زیر نظر لانے کیلئے بار بار نشست رکھیں، جینیئس کلب قائم کریں،انتخابی منشور کا حصہ بنائیں، مساجد میں با جماعت نمازوں کے بعد اِس حوالے سے باہمی مشاورت کی ترتیب اُستوار اور مستحکم کریں۔ زیادہ سے زیادہ نشر و اشاعت کریں اور روز مرہ زندگی میں جب بھی اور جہاں بھی موقع ملے، اِس موضوع کو گفتگو میں زندہ کریں۔ جیسے جیسے اِس تناظر میں مشاورت کے دائرے بڑھتے جائیں گے یہ دائرے ایک زنجیر کی صورت میں مربوط ہوتے چلے جائیں گے اور پھر قدرتی طور پر مرکزیت کی تشکیل ممکن ہو جائے گی۔ تب پھر اِس مرکزیت کی صورت گری کیلئے ابتدا اِس صورت میں بھی ممکن ہے کہ قرآنی اساس کو جس کا ذکر گزشتہ ابواب میں ہو چکا ہے، بنیاد بنا کر ذہنی ہجرت کی جائے اور پھر کسی علاقے، کسی انتخابی حلقے، کسی یونین کونسل، کسی محلے، کسی بڑی رہائشی عمارت، کسی آبادی میں یا محض چند گھروں پر مشتمل خواہ یہ گھر متصل نہ بھی ہوں، ایک ریاست کے انداز میں "انا اوّل المسلمین" کے اصول پر اِسلامی آئینی معاشرے کی ابتدا کی جائے اور وہاں پر قرآن کے بیان کردہ جنت نظیر معاشرے کو پوری دنیا میں عملاً وجود میں لانے کیلئے باقاعدہ تیاری اور جہد بھی شروع کر دی جائے۔ ہماری طرف سے دنیا کے کسی بھی خطے میں اس اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے تمام دنیا کے مسلمانوں کو ہجرت اور نصرت کے اس عمل میں شامل ہونے کی دعوت ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ اِنسانیت کی اِس غلامی کے دن تھوڑے ہیں۔۔ کاش ہمارا یہ یقین محض خوش فہمی ثابت نہ ہو۔