دانیال نجمی ماڈریٹر فراڈ اسلام یاہو گروپ

اس کتاب پر مصنف کا نام تحریر نہیں ہے۔ پہلی نگاہ میں یہ کچھ عجیب سی بات دکھائی دیتی ہے لیکن مطالعہ غماز ہے کہ یہ کسی کی تصنیف ہے ہی نہیں، یہ تو بہت سی تحقیق کا اجتماع ہے جسے زیادہ سے زیادہ تالیف قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں جتنی باتیں کہی گئی ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر پہلے ہی کہیں نہ کہیں ذکر ہو چکی ہیں مثال کے طور پر سب سے نمایاں نکتہ "ملک یمین" کا نظام جسے غلطی سے غلامی کا نظام سمجھ لیا گیا، یہ نظام Slavery نہیں ہے، یہ بات سر سید احمد خان نے ڈیڑھ سو سال پہلے اردو کی ابتدا کے وقت ہی بتا دی تھی۔ یہ ہماری کوتاہ نظری ہے کہ ہمارے علمی بزرجمہروں نے سر سید کی دوسری علمی لغزشوں کی گرفت کرتے ہوئے شدتِ تعصب میں صحیح اور غلط کا امتیاز کھو دیا۔اسی طرح اسلام کی رو سے جغرافیائی وطنیت کے تصورِ اطاعت کی حرمت، اس مؤقف کی علم برداری علامہ اقبال سے لے کر ڈاکٹر اسرار احمد تک کئی سکالرز نے کی ہے۔ اسلامی نظام حکومت کا قیام و التزام ہر دور میں اور ہر مسلمان معاشرے میں ہمیشہ خصوصی توجہ کا مرکز و محور رہا ہے، اُردو میں بھی اس زبان کی علمی نو زائیدگی کے ساتھ ہی ابوالکلام آزاد نے حاکمیت الٰہیہ کی اصطلاح کے ساتھ اس شجر کی آب یاری کر ڈالی تھی۔اس کے بعد سے آج تک شاید ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب اس منزل کیلئے ایک سے زیادہ پلیٹ فارمز پر جدوجہد نہ کی جا رہی ہو، تاہم علمی سطح پر اس جدوجہد کی حیثیت تمہیدی رہی اور اب اس تمہید سے آگے بڑھ کر ایک ایسے اسلامی آئین مملکت کی تیاری جو حکام کی اخلاقیات اور نیک نیتی کے سہارے کا محتاج نہ ہو،اس آئین کی تیاری کی یہ پہلی مثال ہے۔ اسی طرح پرسنل لاز کا حد نگاہ تک پھیلا ہوا دائرہ اور اس میں انفرادی قانون سازی کی آزادی کا تصور بھی نیا نہیں ہے اور قرآن کے الفاظ اعملوا علیٰ مکانتکم اور بنی اسرائیل کی آیہ 84 کی تفسیر میں متعدد مفسرین نے یہی رائے قائم کی ہے، حتیٰ کہ متنازعہ فکر کے مؤید علامہ غلام احمد پرویز نے بھی اپنی تفسیر کے درس میں سرسری طور پر یہ ذکر کیا ہے اگرچہ بعد میں ان کے اسلامی سوشلزم کے تصور میں اس مؤقف کا گزر نہیں ہوا۔ اب رہے ضمنی اور فقہی معاملات مثلاً یہ کہ ایڈز سے تحفظ کی قرآنی گارنٹی عدت ہے یا یہ کہ اسلامی مملکت میں دینی علماء کی حیثیت مجسٹریٹ کی ہونی چاہیے یا بیت المال بینکنگ کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے اور یہ کہ عفو ہر وہ شے ہے جو بیکار پڑی ہو یا جس سے گھر بیٹھے منافع کمایا جا رہا ہو اور یہ کہ اللہ کو قرض حسنہ اس طرح بھی دیا جا سکتا ہے کہ ضرورت کے وقت واپس لیا جا سکے۔۔۔ تو یہ باتیں نہ بدعت ہیں اور نہ ہی خلافِ قرآن۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ باتیں پہلے نہیں کہی گئیں، غرض ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اس کتاب میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان میں سے اکثر و بیش تر نئی نہیں، صرف فراموش کردہ ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحقیق کے مختلف ذخیروں میں بکھرے ہوئے گوناگوں نکات کو اس سے پہلے اس طرح یک جا نہیں کیا گیا تھا کہ ایک مکمل نظام کی صورت گری ہو جاتی اور نظام بھی ایسا جو عقلی اور منطقی بنیادوں پر خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کا دعویدار ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس پر قرآن یوں آشکار ہوا ہے جیسے اس سے پہلے کسی پر آشکار نہیں ہوا تھا تو یہ کسی دعویٰٔ نبوت سے کم نہیں ہے، شاید اسی لیے اس تحریر پر کسی مصنف کا نام درج نہیں ہے تاکہ اس کا کریڈٹ فردِ واحد کو نہ جا سکے۔ میرا خیال ہے کہ قارئین کو مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نبی کے بعد کسی کا تدبر خطا سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ میری علمی کوتاہ نگہی کو اس تحریر میں تا دم تحریر کوئی قابل ذکر خطا دکھائی نہیں دی۔ بہرحال یہ کہ مختلف تحقیقات کی یک جائی اس انداز میں کہ مکمل آئینی نظام کی تشکیل ہو جائے، بلاشبہ مستحسن ہے اور اس کتاب کو محض رسمی انداز میں شیلف کی زینت بنانے کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔