یہ (گفتار کے )غازی، یہ تیرے بیکار بندے

ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ رونے والی اِک نرگس اور آ گئی
طران شیخ (قصوروار میگزین کے کالمسٹ، مزاح نگار)

میں نے اس کتاب کو حرفاً حرفاً بغور پڑھا ہے اور میں اس کی علمی حیثیت پر بحث کرنا پرلے درجے کی حماقت اور خوامخواہ وقت ضائع کرنے کے برابر سمجھتا ہوں۔ جب ایک شخص یہ کہہ دے کہ ہر کسی کو اپنے لیے قانون سازی کی آزادی ہونی چاہیے تو اس مؤقف پر اعتراض کرنے والوں کے عِلم ناک اور عِلم فشاں منہ میں وہی شجر ممنوعہ ٹھونس کر اوپر کپڑا باندھ دینا چاہیے جسے کھا نے پر حضرت آدمؑ جنت سے نکالے گئے تھے۔

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں دوغلیت کا قائل نہیں ہوں اور بے لاگ رائے دیتے ہوئے حکمت اور مصلحت کی شوگر کوٹنگ نہیں کرتا اسی لیے مجلس ادارت والے مجھے شیخ منہ پھٹ بھی کہتے ہیں۔ آپ بہت جلد دیکھیں گے کہ اس کتاب کے علمی لتے لینے اور دفاع کرنے والے ہر دوسری خانقاہ اور ہر تیسرے ڈرائنگ روم میں کیڑوں کی طرح کلبلا رہے ہوں گے لیکن نتیجہ یہی دکھائی دے گا کہ ہزاروں سال تک اپنی بے نوری پر رونے والی نرگسوں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا۔

میں مجلس ادارے کے جس بندے سے بھی ملا ہوں اس میں قیادت کی صلاحیت ہو نہ ہو اہلیت کہیں دکھائی نہیں دی۔ سب گفتار کے غازی ہیں، کردار کا غازی کوئی نہیں۔ البتہ ایسا لگتا ہے کہ ان میں آئینہ دیکھنے کا حوصلہ موجود ہے۔ جب مجھے مدیر مسؤل نے اس کتاب کے لیے چند الفاظ لکھنے کو کہا تو میں نے انہیں بھگانے کیلئے اپنی رائے بتا دی۔ بولے یہی لکھ دیں۔ اب میں نے لکھ دی ہے، نجانے کتاب میں شامل ہوتی بھی ہے یا نہیں۔

میری ساری کچکچاہٹ اور جھنجھلاہٹ کی وجہ قیادت کا فقدان ہے۔ ہماری عظیم قوم کو صرف میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرنا آتا ہے، ظلم کی راہ میں دیوار بن کے کھڑے ہونے کے مطالبے پر اس عظیم قوم کے لحیم شحیم باون گزے ایک دوسرے کی داڑھیوں پر ہاتھ پھیر پھیر کر توبہ توبہ کافر فاسق کی چیخیں مارنے لگتے ہیں تاکہ کسی کو ہماری بزدلی کی خبر نہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری بزدلی ہی پوری دنیا میں ہمیں دہشت گردی، انتہا پسندی کے الزام اور استہزاء و تمسخر کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ میری متلاشی نظریں گفتار کے غازیوں کو نہیں، نئے ہزاریے کے مجدد کو ڈھونڈ رہی ہیں اور مجدد کی پہلی علامت یہ ہوتی ہے کہ قیادت کیلئے کھڑا ہوتے وقت وہ خود فراموشی کے عالم میں ہوتا ہے۔۔ کوئی ہے جس میں مجدد کا سا درد اور حوصلہ ہو؟