جنازہ کے پیچھے پیچھے جانے والے لوگوں کو حیرت تھی کہ شریک حیات کا انتقال ہو جانے پر بھی اسکی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلے بھیڑ میں کسی نے سر گوشی کی ہو سکتا ہے اس سانحہ پر اُسے کوئی غم ہی نہ ہوا ہو لیکن شاید لوگوں کو اس کا علم نہ تھا کہ اُسے غم کھانے اور آنسو پینے کا ہنر بھی آتا ہے۔

دوسرے دن وہ تنہائی کی چادر اوڑھے خاموش رہنے لگا۔ روزانہ صبح اٹھ کر قبرستان جاتا، اس کا معمول بن گیا اور پھر چار ماہ بعد یہ خبر بھی حیرت و استعجاب میں ڈوبے لوگوں کو سنا دی گئی کہ شریک حیات کی موت پر آنسو نہ بہانے والا حرکت قلب بند ہو جانے پر اس دار فانی سے کوچ کر گیا ہے۔