احساس ندامت

وہ اداس ہو کر اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی

"پتہ نہیں ہمیں آخر کس عمل کی سزا مل رہی ہے آج ہم اپنے بیٹے سلیم اور بہو کے لئے بوجھ بن چکے ہیں وہ ہمیں حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں لمحہ لمحہ زندگی اُن کے احسانوں کی مرہون منت ہو گئی ہے جی چاہتا ہے زمین پھٹ جائے اور ہم سما جائیں آخر پڑوس میں اُس کا دوست رحمن بھی تو ہے اپنے والدین کو کتنا خوش رکھتا ہے۔ اسکی بیوی اُن کی ہر خواہش کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ مجھے تو رحمن کی آدابِ فرز ندگی پر رشک ہوتا ہے۔ کاش ہمارا بیٹا بھی رحمن کی طرح ہوتا۔"

"بیگم شاید ہماری قسمت ہی ایسی ہے کاش میں بھی کسی اچھے سرکاری محکمہ میں سروس کرتا اور سبکدوش ہونے کے بعد ہمیں پینشن کے طور پر ہر ماہ موٹی رقم ملتی تو شاید رحمن کی طرح سلیم بھی ہمیں خوش رکھتا۔!!"