وہ معلّمہ انگلش میڈیم سے پڑھ رہے اپنے خوبصورت بچوں کا ہمیشہ ذکر کرتے ہوئے کہتی "میں اپنے بچوں کو خوب پڑھاؤں گی۔ ان کے والد کی طرح ڈاکٹر بناؤں گی" اس نے اپنے بچوں کی پرورش اور نگہداشت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ دونوں بچوں کی تعلیم اور ان کے رکھ رکھاؤ پر وہ خوب روپیہ خرچ کرتی تھی۔

لیکن حالات نے اچانک رخ بدلا۔ معلّمہ کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو گئی اور ایک ماہ کے عرصہ میں ہی اس دنیا سے چل بسی۔ ماں کے رخصت ہو جانے پر معصوم بچے باپ کی زیر نگرانی پلنے لگے۔ ایک سال بعد باپ نے دوسری شادی کر لی۔ بچے انگلش اسکول سے اردو اسکول میں آ گئے اور پھر ایک دن وہ لاچار اور مجبور بچے اسکول کے احاطے میں اس لائن میں کھڑے تھے جہاں زکوٰۃ کے پیسوں سے غریب مستحق بچوں کو اسکول یونیفارم تقسیم کئے جا رہے تھے۔