دھواں دھواں آرزو

شاید وہ دس گیارہ سال کی بچی ہوگی اُس نے ہاتھ ہلا کر مجھ سے لفٹ مانگی میں نے گاڑی روک کر اُسے بٹھا لیا لیکن مجھے اسکا اسطرح لفٹ مانگنا اچھا نہیں لگا۔

میں نے کہا۔ "کہاں جانا چاہتی ہو؟" "درپن نگر۔"

"درپن نگر جانا ہی تھا تو بس کا انتظار کر لیتی"۔۔۔ "بس سے جانے کے لئے پیسے چاہیے اور میرے پاس۔" وہ کہتے کہتے رک گئی۔

"اچھا۔۔ درپن نگر میں کہاں ڈراپ کروں۔؟" "بیئر بار کے پاس۔" "کیا تم بیئر بار میں کام میں کرتی ہو؟"

"نہیں میں بئیر بار کے سامنے کھڑی کاریں صاف کرتی ہوں۔"

"کتنا مل جاتا ہے۔"

"یہی بیس پچیس روپئے۔ لیکن مینجر نے کہا ہے تم جلدی بڑی ہو جاؤ۔ میں تمہیں بیئر بار میں رکھ لوں گا تب مجھے تنخواہ بھی ملے گی اور ٹپس الگ۔۔!"

"آپ بھگوان سے میرے لئے پرارتھنا کرو کہ میں جلدی بڑی ہو جاؤں"" میں نے کہا۔ ہاں۔ ہاں کیوں نہیں۔"

تھوڑی دیر خاموشی کے بعد وہ خود ہی کہنے لگی۔"میری ترقی ہو جائے۔ پھر دیکھنا میں اپنے بوڑھے پتا جی کو کچھ نہیں کرنے دوں گی"۔

میں سوچنے لگا۔ یہ غریبی بھی کیسی مجبوری ہے جہاں بچے اپنا انمول بچپن بے چینی سے جوانی کے انتظار میں گزارتے ہیں۔

درپن نگر کا بیئر بار آیا تو میں نے دیکھا میری اسکوٹی سے اتر کر بیئر بار جاتی ہوئی وہ دس گیارہ سال کی چھوٹی سی بچی مجھے یوں بھی بہت بڑی معلوم ہو رہی تھی۔!!