اُس کا رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے اور اسکے والدین نے جہیز میں قیمتی چیزوں کی فرمائش شروع کر دی تھی لڑکے کی فرمائش تھی کہ اُسے جہیز میں رنگین ٹی وی اور بائک بھی ملے۔

اسکے والد اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ سبکدوشی کے بعد جو بھی روپیہ ہاتھ آیا تھا اُن روپیوں سے اسکی تین بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے تھے لیکن چونکہ رشتہ طے ہو چکا تھا۔ دعوت نامے تقسیم ہو چکے تھے لہذا اسکے والد نے لڑکے اور اسکے والدین کی خواہشوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

شادی کے دوسرے دن اُس نے جب اپنے شوہر کے کمرے کا جائزہ لیا تو اُسے بہت سے انعامات الماریوں میں سجے نظر آئے۔ اسکے شوہر نے اُسے بتایا کہ یہ سب انعامات اُسے مختلف مقابلوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے پر ملے ہیں۔ اُس نے ایک شیلڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا "دیکھو یہ شِلڈ مجھے بین المدارس مضمون نویسی مقابلہ میں اوّل مقام حاصل کرنے پر ملی ہے۔"

اُس نے پوچھا۔۔۔"مضمون کا عنوان آپ کو یاد ہے۔"

شوہر نے کہا۔"جی ہاں۔ آج کے دور کا سلگتا مسئلہ جہیز ایک سماجی لعنت ہے۔"