ڈارون کا نظریۂ ارتقاء - ایک دھوکہ ایک فریب

انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہے. یہ نظریہ چونکہ آج کل ہمارے کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور میڈیا پر بھی اکثر اس کے حق میں خبریں شائع کی جاتی ہیں جس سے بعض مسلمان بھی اس نظریہ سے مرعوب ہو چکے ہیں. نیز اس نظریہ نے مذہبی دنیا میں ایک اضطراب سا پیدا کر دیا ہے. واضح رہے کہ انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں. ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے. قرآن و احادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا، پھرا س جوڑے سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلے. آدم علیہ السلام کا پتلا جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا اور ایسی روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی. یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تمام حیوانات سے بہت زیادہ عقل و شعور، قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں. اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے.

دوسرا گروہ مادہ پرستوں کاہے جو اسے خالص ارتقائی شکل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں. اس نظریہ کے مطابق زندگی اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی. پھر اس سے نباتات اور اس کی مختلف انواع وجود میں آئیں پھر نباتات ہی سے ترقی کرتے کرتے حیوانات پیدا ہوئے. انہی حیوانات سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے. اس تدریجی اور ارتقائی سفر کے دوران کوئی ایسا نقطہ متعین نہیں کیا جاسکتاجہاں سے غیر انسانی حالت کا وجود ختم کر کے نوع انسانی کا آغاز تسلیم کیا جائے. تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے ارسطو) 322-384ق م( نے پیش کیا تھا. قدیم زمانہ میں تھیلیس، عناکسی میندر، عناکسی مینس، ایمپی ووکل اور جوہر پسند فلاسفہ بھی مسئلہ ارتقاء کے قائل تھے. مسلمان مفکرین میں سے ابن خلدون، ابن مسکویہ اور حافظ مسعودی نے ابھی اشیائے کائنات میں مشابہت دیکھ کر کسی حد تک اس نظریہ ارتقاء کی حمایت کی ہے.