انیسویں صدی عیسوی سے پہلے یہ نظریہ ایک گمنام سانظریہ تھا. 1859ء میں سر چارلس ڈارون 1818-1882 نے ایک کتاب The Origin of Species by Means of Natural Selection یعنی "فطری انتخاب کے ذریعے انواع کا ظہور") لکھ کر اس نظریہ کو باضابطہ طور پر پیش کیا. اس نظریہ کو ماننے والوں میں بھی کافی اختلاف ہوئے. ڈارون نے بندر اور انسان کو ایک ہی نوع قرار دیا کیونکہ حس و ادراک کے پہلو سے ان دونوں میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے. گویا ڈارون کے نظریہ کے مطابق انسا ن بندر کا چچیرا بھائی ہے. لیکن کچھ انتہاپسندو ں نے انسان کو بندر ہی کی اولاد قرار دیا. کچھ ان سے بھی آگے بڑھے تو کہا کہ تمام سفید فام انسان تو چیمپینزی Chimpanzee سے پیدا ہوئے ہیں. سیاہ فام انسانوں کا باپ گوریلا ہے اور لمبے سرخ ہاتھوں والے انسان تگنان بندر کی اولاد ہیں. مورخین نے تو ان مختلف اللون انسانوں کو سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولاد قرار دیا تھا. مگر یہ حضرات انہیں چیمپینزی، گوریلا اور تگنان کی اولاد قرار دیتے ہیں.

پھر کچھ مفکرین کا یہ خیال بھی ہے کہ انسان بندر کی اولاد نہیں بلکہ بندر انسان کی اولاد ہے. اس رجعت قہقری کی مثالیں بھی اس کائنات میں موجود ہیں. بادی النظر میں قرآن سے بھی اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہو جاتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کچھ بد کردار اور نافرمان لوگوں کو فرمایا.

کُونُوا قردہ خاسین
تم ذلیل بندر بن جاؤ.65:2

تخلیق کائنات بشمولیت انسان سے متعلق تیسرا نظریہ آفت گیری (Catastrophism)ہے جس کا بانی کوپیر (Cupier 1796-1832) ہے. جو فرانس کا باشندہ اور تشریح الاعضاء کا ماہر تھا. اس کے نظریہ کے مطابق تمام اقسام کے تابئے علیحدہ علیحدہ طور پر تخلیق ہوئے. یہ ارضی وسماوی آفات میں مبتلا ہو کر نیست و نابود ہو گئے. پھر کچھ اور حیوانات پیدا ہوئے. یہ بھی کچھ عرصہ بعد نیست و نابود ہو گئے. اسی طرح مختلف ادوار میں نئے حیوانات پیدا ہوتے اور فنا ہوتے رہے ہیں.

(اسلام اور نظریہ ارتقاء، ص 85از احمد باشمیل. ادارہ معارف اسلامی کراچی، مطبوعہ البدر پبلی کیشنز لاہور )

ڈارون کے نظریہ کے مطابق زندگی کی ابتداء ساحل سمندر پر پایاب پانی سے ہوئی. پانی کی سطح پر کائی نمودار ہوئی پھر اس کا ئی کے نیچے حرکت پیدا ہوئی. یہ زندگی کی ابتداء تھی پھر اس سے نباتات کی مختلف قسمیں بنتی گئیں. پھر جرثومہ حیات ترقی کر کے حیوانچہ بن گیا. پھر یہ حیوان بنا. یہ حیوان ترقی کرتے کرتے پردار اور بازوؤں والے حیوانات میں تبدیل ہوا. پھر اس نے فقری جانور)ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے (کی شکل اختیار کی پھر انسان کے مشابہ حیوان بنا. ا ور ا س کے بعد انسان اول بنا جس میں عقل، فہم اور تکلم کی صلاحیتیں نہیں تھیں. بالآخر وہ صاحب فہم و ذکا ء انسان بن گیا. ان تمام تبدلات، تغیرات اور ارتقائے سفر کی مدت کا اندازہ کچھ اس طرح بتلایا جاتا ہے.