اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول نمبر 2یعنی ہیئت اور ماحول کے اختلاف سے جو تبدیلیاں پیدا ہو تی ہیں وہ نسلاً بعد نسل آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں تاآنکہ یہ اختلاف فروعی نہیں بلکہ نوعی بن جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ نسلیں ہیں جیسے گدھا او ر گھوڑا ایک ہی نوع ہے مگر گدھا گھوڑے سے اس لیے مختلف ہو گیا کہ اس کی معاشی صورت حال بھی بدل گئی اور حصول معاش کے لیے اس کی جدوجہد میں بھی اضافہ ہو گیا.

ڈاروِن کے یہ خیالات بعض مخصوص نظریاتی اور سیاسی حلقوں کو بہت زیادہ پسند آئے، انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور نتیجتاً یہ خیالات (نظریہ ارتقاء) بہت زیادہ مقبول ہو گئے. اس مقبولیت کی اہم وجہ یہ رہی کہ اس زمانے میں علم کی سطح اتنی بلند نہیں تھی کہ ڈاروِن کے تصوراتی منظر نامے میں پوشیدہ جھوٹ کو سب کے سامنے عیاں کر سکتی. جب ڈارون نے ارتقاء کے حوالے سے اپنے مفروضات پیش کئے تو اس وقت جینیات (Genetics)، خرد حیاتیات (Microbiology) اور حیاتی کیمیا (Biochemistry) جیسے مضامین موجود ہی نہیں تھے. اگر یہ موضوعات، ڈاروِن کے زمانے میں موجود ہوتے تو با آسانی پتہ چل جاتا کہ ڈاروِن کا نظریہ غیر سائنسی ہے اور اس کے دعوے بے مقصد ہیں. کسی نوع کا تعین کرنے والی ساری معلومات پہلے ہی سے اس کے جین (Genes) میں موجود ہوتی ہیں. فطری انتخاب کے ذریعے، جین میں تبدیلی کر کے کسی ایک نوع سے دوسری نوع پیدا کرنا قطعاً ناممکن ہے.

جس وقت ڈاروِن کی مذکورہ بالا کتاب (جسے اب ہم مختصراً "اصلِ انواع" کہیں گے) اپنی شہرت کے عروج پر تھی، اسی زمانے میں آسٹریا کے ایک ماہر نباتیات، گریگر مینڈل نے 1865ء میں توارث (Inheritance) کے قوانین دریافت کئے. اگرچہ ان مطالعات کو انیسویں صدی کے اختتام تک کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہو سکی. مگر 1900ء کے عشرے میں حیاتیات کی نئی شاخ "جینیات" (Genetics) متعارف ہوئی اور مینڈل کی دریافت بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی. کچھ عرصے بعد جین کی ساخت اور کروموسوم (Chromosomes) بھی دریافت ہو گئے. 1950ء کے عشرے میں ڈی این اے (DNA) کا سالمہ دریافت ہوا، جس میں ساری جینیاتی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں. یہیں سے نظریہ ارتقاء میں ایک شدید بحران کا آغاز ہوا کیونکہ اتنے مختصر سے ڈی این اے میں بے اندازہ معلومات کا ذخیرہ کسی بھی طرح سے "اتفاقی واقعات" کی مد د سے واضح نہیں کیا جاسکتا تھا. ان تمام سائنسی کاوشوں سے ہٹ کر، تلاشِ بسیار کے باوجود، جانداروں کی ایسی کسی درمیانی شکل کا سراغ نہیں مل سکا جسے ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کی روشنی میں لازماً موجود ہونا چاہیے تھا.

اصولاً تو ان دریافتوں کی بنیاد پر ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا. کیونکہ بعض مخصوص حلقوں نے اس پر نظرِ ثانی، اس کے احیاء، اور اسے سائنسی پلیٹ فارم پر بلند مقام دیئے رکھنے کا اصرار (اور دباؤ) جاری رکھا. ان کوششوں کا مقصد صرف اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ہم نظریہ ارتقاء کے پیدا کردہ نظریاتی رجحانات (Ideological Intensions) کو محسوس کریں، نہ کہ اس کے سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیں. نظریہ ارتقاء پر یقین کو قائم و دائم رکھنے کی پوری کوششوں کے باوجود یہ حلقے جلد ہی ایک بند گلی میں پہنچ گئے. اب انہوں نے ایک نیا ماڈل پیش کر دیا جس کا نام "جدید ڈارونزم" (Neo-Darwinism) رکھا گیا.