اس نظریئے کے مطابق انواع کا ارتقاء، تغیرات (Mutations) اور ان کے جین (Genes) میں معمولی تبدیلیوں سے ہوا. مزید یہ کہ (ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے ) صرف وہی انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں. مگر جب یہ ثابت کیا گیا کہ جدید ڈارونزم کے مجوزہ نظامات درست نہیں، اور یہ کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں، تو ارتقاء کے حمایتی ایک بار پھر نئے ماڈلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے.

اب کی بار وہ ایک نیا دعویٰ لے کر آئے جسے "نشان زد توازن"(Punctuated Equilibrium) کہا جاتا ہے، اور اس کی بھی کوئی معقول سائنسی بنیاد نہیں ہے. اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی "درمیانی شکل" اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہو گئے. با الفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے "ارتقائی آباء و اجداد" کے بغیر ہی وجود میں آ گئی. اگر ہم یہ کہیں کہ انواع کو "تخلیق" کیا گیا ہے (یعنی ان کا کوئی خالق ضرور ہے ) تو ہم بھی وہی کہہ رہے ہوں گے جو نشان زد توازن میں کہا گیا ہے. لیکن ارتقاء پرست، نشان زد توازن کے اس پہلو کو قبول نہیں کرتے (جو خالق کی طرف اشارہ کر رہا ہے ). اس کے بجائے وہ حقیقت کو ناقابلِ فہم منظر ناموں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے. مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہو گیا. یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہو کر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہو گئے ہوں گے.

یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہو جانے والی جادوئی کہانیوں میں ہو سکتی ہے. ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود، جدید ڈارونزم کے پیش کردہ نتائج اور پیدا شدہ بحران سے عاجز آئے ہوئے کچھ ارتقاء پرست ماہرینِ معدومیات (Paleontologists) نے اس نظریئے (نشان زد توازن) کو گلے سے لگا لیا جو اپنی ذات میں جدید ڈارونزم سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے.

اس نئے ماڈل کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ رکازی ریکارڈ میں خالی جگہوں کی موجودگی (یعنی زندگی کی درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی) کی وضاحت فراہم کی جائے، جنہیں واضح کرنے سے جدید ڈارونزم بھی قاصر تھا. مگر ریکارڈ کی عدم موجودگی کے ثبوت میں یہ کہنا "رینگنے والے جانور کا انڈا ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا" بمشکل ہی معقول دلیل سمجھا جائے گا. وجہ صاف ظاہر ہے. ڈاروِن کا نظریہ ارتقاء خود کہتا ہے کہ انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے زبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے. اس کے برعکس کوئی جینیاتی تغیر بھی، خواہ وہ کسی بھی پیمانے کا ہو، جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہویا ان میں اضافہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا. تغیرات (تبدیلیوں ) سے تو جینیاتی معلومات تلپٹ ہو کر رہ جاتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ "مجموعی تغیرات" (Gross Mutations) جن کا تصور نشان زد توازن کے ذریعے پیش کیا گیا ہے، صرف جینیاتی معلومات میں کمی اور خامی کا باعث ہی بن سکتے ہیں.

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ "نشان زد توازن" کا نظریہ بھی محض تخیلات کا حاصل ہے. اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ارتقاء کے حامی اس نظریئے کو ماننے سے بالکل نہیں ہچکچاتے. وہ جانتے تھے کہ رکازات کے ریکارڈ کی عدم موجودگی، ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء سے ثابت نہیں کی جاسکتی لہٰذا وہ نشان زد توازن کو ماننے پر مجبور ہو گئے. مگر خود ڈاروِن کا کہنا تھا کہ انواع کا ارتقاء بتدریج ہوا تھا (یعنی وہ تھوڑی تھوڑی کر کے تبدیل ہوئی تھیں )، جس کے باعث یہ اشد ضروری تھا کہ آدھا پرندہ/ آدھا ہوّام، یا آدھی مچھلی/ آدھا چوپایہ جیسے عجیب الخلقت جانداروں کے رکازات دریافت کئے جائیں. تاہم اب تک، ساری تحقیق و تلاش کے بعد بھی ان "درمیانی (انتقالی) شکلوں" کی ایک مثال بھی سامنے نہیں آ سکی. حالانکہ اس دوران لاکھوں رکازات، زمین سے برآمد ہو چکے ہیں.

ارتقاء پرست صرف اس لئے نشان زد توازن والے ماڈل سے چمٹ گئے ہیں تاکہ رکازات کی صورت میں ہونے والی اپنی شکست فاش کو چھپا سکیں. دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نشان زد توازن کو کسی باضابطہ ماڈل کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے تو صرف ان مواقع پر راہِ فرار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تدریجی ارتقاء سے بات واضح نہیں ہو پاتی. آج کے ماہرینِ ارتقاء یہ محسوس کرتے ہیں کہ آنکھ، پر، پھیپھڑے، دماغ اور دوسرے پیچیدہ اعضاء علی الاعلان تدریجی ارتقائی ماڈل کو غلط ثابت کر رہے ہیں. بطورِ خاص انہی نکات پر آ کر وہ مجبوراً نشان زد توازن والے ماڈل میں پناہ لینے دوڑے آتے ہیں.

سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ٴ ارتقاء کا خلاصہ، جو اس وقت بھی صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا. اس نظریہ کو کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہو سکی جس کی بناء پر یہ نظریہ سائنس کا قانون (Scientific Law)بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض کیے ہیں. مثلاً