دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ارتقاء کا کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی آج تک انسان کے مشاہدہ میں نہیں آیا. یعنی کوئی چڑیا ارتقاء کر کے مرغا بن گئی ہویا گدھا ارتقاء کر کے گھوڑا بن گیا ہو یا لوگوں نے کسی چمپینزی یا گوریلا یا بندریا بن مانس کو انسان بنتے دیکھا ہو. نہ ہی یہ معلوم ہو سکاہے کہ فلا ں دور میں ارتقاء ہوا تھا بلکہ جس طرح حیوانات ابتدائے آفرینش سے تخلیق کیے گئے ہیں آج تک اسی طرح چلے آتے ہیں اور جو اوپر ارتقائی مدت اربوں اور کروڑوں سال کے حساب سے بیان کی گئی ہے وہ محض ظن و تخمین پر مبنی ہے جسے سائینٹفک نہیں کہا جاسکتا. البتہ بعض ایسی مثالیں ضرور مل جاتی ہیں جو اس نظریہ ٴ ارتقاء کی تردید کر دیتی ہیں مثلاً حشرات الارض جیسی کمزور مخلوق کو آج تک فنا ہو جانا چاہیے تھا مگر وہ بدستور موجود اور اپنے موسم پر پیدا ہو جاتی ہے. ریشم کے کیڑے کے داستانِ حیات اس کی پر زور تردید کرتی ہے. اسی طرح بعض کمتر درجے کے بحری جانور جو ابتدائے زمانہ میں پائے جاتے تھے آج بھی اسی شکل میں موجود اور اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اسی لیے بہت سے منکرین اس نظریہ ارتقاء کے منکر ہیں اور وہ اس نظریہ کے بجائے تخلیق خصوصی (Special Creation)یعنی ہر نوع زندگی کی تخلیق بالکل الگ طور پر ہونا کے قائل ہیں.

مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے خیال میں سلسلۂ اِرتقاء کے موجودہ دَور میں نظر نہ آنے کا سبب یہ ہے کہ یہ عمل بہت آہستگی سے لاکھوں کروڑوں سالوں میں وُقوع پذیر ہوتا ہے. (یہ دلیل بھی سراسر بے ہودہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ) 1965ء میں آئس لینڈ کے قریب زلزلے اور لاوا پھٹنے کے عمل سے ایک نیا جزیرہ سرٹسے (Surtsey) نمودار ہوا اور محض سال بھر کے اندر اندر اُس میں ہزاروں اَقسام کے کیڑے مکوڑے، حشراتُ الارض اور پودے پیدا ہونا شروع ہو گئے. یہ بات اَبھی تک (کسی اِرتقاء پسند کی) سمجھ میں نہیں آ سکی کہ وہ سب وہاں کیسے اور کہاں سے آئے!

ارتقاء پسند اپنی دانست میں قدیم اور ترقی یافتہ (دونوں) مخلوقات کے درمیان قائم کردہ کڑیوں میں موجود روز اَفزوں پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں. لیکن اِس اِرتقاء کے سلسلے میں اُن کے مفروضے مَن مانے اور محض اُن کے اپنے ہی ذِہنوں کی اِختراع ہیں. (اپنے نظریئے کے تحت وہ کبھی بھی کماحقہ" یہ بات ثابت نہیں کر سکتے کہ) کمال سے (اُن کی) مُراد کیا ہے؟ مِثال کے طور پر خوشنما رنگوں میں تتلی سب سے بلند مقام رکھتی ہے. بجلی کے آلات کے حوالے سے چمگادڑ کا کوئی جواب نہیں جو ایک بہترین ریڈار کی نظر کی حامل ہوتی ہے. یاد داشت کو محفوظ رکھنے اور دِماغ کے زیادہ وزن کے معاملے میں ڈولفن سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے. اور جنگی معاملات کے حوالے سے دِیمک جو ایک چیونٹی سے بھی چھوٹی ہوتی ہے، تمام مخلوقات سے زیادہ ترقی یافتہ ہے. اُس کا ہتھیار اَیسا زہر ہے جس کا نقطۂ کھولاؤ 100ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو اُس کے ماحول کے ہر جسیمے کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے.

چیتا ایک مکمل ہڈیوں اور بافتوں کے نظام کا مالک ہے تاکہ سبک روی سے دوڑ سکے، چیل کے پاس دنیا کا بہترین Aerodynamic system ہے، ڈولفن کے پاس خاص طور پر تخلیق کیا گیا جسم اور جلد ہے تاکہ آرام سے پانی میں تیر سکے. جانوروں میں موجود یہ بے عیب منصوبہ بندی اس بات کی عکاس ہے کہ جانداروں کی ہر قسم اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے. لیکن ایک قابلِ غور بات ہے کہ صرف مکمل جسم کا مالک ہونا ہی کافی نہیں، جانور کے لئے یہ علم بھی ضروری ہے کہ اس کامل جسم کو استعمال میں کیسے لایا جائے. ایک پرندے کے پر صرف اسی وقت کار آمد ہوتے ہیں جب وہ اڑان کے آغاز، بلند پرواز اور زمین پر اترنے کے تمام کام کامیابی سے سرانجام دینے میں معاون ثابت ہوں.

جب ہم اس دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم ایک دلچسپ حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں. ایک جاندار ہمیشہ اپنے ماحول کی مناسبت سے زندگی بسر کرتا ہے، اور اسکے اس رویہ کا آغاز اسکی پیدائش کے لمحے کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے. بارہ سنگھے کے بچے کو اپنی پیدائش کے محض آدھے گھنٹے کے اندر کھڑا ہونا اور بھاگنا آ جاتا ہے. کچھوے کے بچے جن کو انکی ماں ریت کے اندر دبا دیتی ہے، جانتے ہیں کہ ا ن کو انڈے کا خول توڑ کر سطح تک آنا ہے. وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ انڈے کے خول کو توڑتے ہی انہیں فوراً سمندر تک بھی پہنچنا ہے. یہ سب باتیں تو یہ تاثر دیتی ہیں کے جاندار اس دنیا میں مکمل تربیت لے کر آتے ہیں.

ایک اور مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ مکڑی اپنا جال اپنے جسم سے نکلے ہوئے تار سے خود تیار کرتی ہے. مکڑی کا جال حیرت انگیز طور پر یکساں موٹائی کے اسٹیل کے تار سے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے، حتیٰ کہ تیز رفتار بڑی مکھیاں بھی جال میں پھنس کر خود کو آزاد نہیں کرواسکتیں. بلیک وڈو (Black Widow) مکڑی کے جالے میں چپکنے والے گچھے ہوتے ہیں. شکار کے لئے اس پھندے میں آ کر خود کو آزاد کروانا ناممکن ہے. مکڑی کا جالا، غیر معمولی حد تک مضبوط، لچکدار اور چپکنے والا ہوتا ہے. محض ایک پھندہ ہونے سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کے یہ جال مکڑی کا اپنے ہی جسم کا ایک حصہ ہے. مکڑی جال میں پھنسنے والے شکار کی وجہ سے پیدا ہونے والا ہلکا سا ارتعاش بھی محسوس کر لیتی ہے اور اسے کسی تاخیر کے بغیر قابو کر لیتی ہے. مکڑی یہ جال اپنے جسم کے پچھلے چوتھائی حصے سے تیار کرتی ہے. ایک خاص قسم کے عضو سے تیار کئے گئے اس جال کو مکڑی اپنی ٹانگوں سے کھینچتی ہے. جال کی سطح پر موجود گچھے بوقت ضرورت کھل جاتے ہیں اور جال کھل کر کشادہ ہو جاتا ہے. بلاشبہ خدا کے عطا کئے ہوے وجدان کی بدولت ہی مکڑی اس قابل ہوتی ہے کہ ایک تعمیری عجوبہ تخلیق کر سکے.

قدرت نے ایسے اور جانور بھی تخلیق کئے ہیں جو مکڑی کی طرح حیرت انگیز گھر تعمیر کر سکتے ہیں، شہد کی مکھیاں جو شش جہت چھتے تیار کر سکتی ہیں، اود بلاؤ کے تعمیر شدہ بند جو انجینیرنگ کے عمدہ حساب کتاب کے عین مطابق ہوتے ہیں. دیمک کے اندھے کیڑے جو کئی منزلہ عمارت تیار کر لیتے ہیں، یہ اور اس طرح کی دوسرے کئی جاندار انہی مہارتوں کے ذریعے خدا کے ودیعت کردہ جوہروں سے پردہ اٹھاتے ہیں. ان میں سے ہر ایک خدا کے ہی احکام بجا لاتا ہے.

"کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں جسکی پیشانی اسکے قبضے میں نہ ہو". ( سورۃ ھود. 56)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِن سب کو کس نے اِرتقائی عمل سے گزارا؟ اور اِن کا اِرتقاء کس مخلوق سے عمل میں آیا؟ کیمیائی جنگ کے سلسلے میں تو بوزنہ (Ape) اِس حقیر دِیمک سے بہت پیچھے رَہ جانے والی قدیم مخلوق ہے. (پھر یہ زِندہ مخلوقات میں سے اِنسان کے قریب ترین مخلوق کیونکر کہلا سکتا ہے. . . ؟)