نظریہ ارتقاء کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ زندگی، ایک خلئے سے شروع ہوئی جو زمین کے ابتدائی ماحول میں اتفاقاً بن گیا تھا. آئیے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خلئے کی ساخت کیسی ہوتی ہے، اس میں کیسے کیسے اسرار پوشیدہ ہیں، اور یہ کہ اسے "اتفاقیہ وجود" قرار دینا بجائے خود کتنی بڑی نامعقولیت ہے. یہ امر قابلِ غور ہے کہ آج بھی، جبکہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں، خلیہ کئی حوالوں سے ہمارے لئے پراسراریت کا باعث ہے.

اپنے عملی نظاموں مثلاً مواصلاتی نظام، حرکی نظام اور خلئے کے انتظام و انصرام وغیرہ کے حوالے سے خلیہ کسی شہر سے کم پیچیدہ نہیں. اس میں توانائی پیدا کرنے والے اسٹیشن بھی ہیں (جن سے حاصل ہونے والی توانائی، خلئے کے استعمال میں آتی ہے )، زندگی کے لئے مرکزی اہمیت کے حامل خامرے اور ہارمون تیار کرنے والی فیکٹریاں بھی ہیں، معلومات کا ذخیرہ (ڈیٹا بینک) بھی ہے جہاں خلئے میں بننے والی کسی بھی پیداوار (شے ) کے بارے میں تفصیلات (معلومات) جمع ہوتی ہیں، جدید تجربہ گاہیں اور ریفائنریاں بھی ہیں جہاں خام مال کو قابلِ استعمال اور کارآمد شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے، پیچیدہ مواصلاتی نظام اور پائپ لائنیں ہیں جہاں سے خام مال اور تیار شدہ اشیاء گزرتی ہیں، اور خاص طرح کے پروٹینز سے بنی ہوئی خلوی جھلی بھی ہے جو خلئے میں اندر آنے اور باہر جانے والے مادوں کو قابو میں رکھتی ہے. یہ تو خلئے کے پیچیدہ نظام کی بہت معمولی سی جھلک ہے.

زمین کا ابتدائی ماحول تو بہت دور کی بات ہے. خلئے کی ترکیب اور کام کرنے کا طریقہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ اسے آج کی جدید ترین آلات سے لیس تجربہ گاہوں میں بھی "مصنوعی طور پر" تیار نہیں کیا جاسکا. خلئے کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز استعمال کرتے ہوئے آج تک خلئے کا ایک جزو (Organelle) بھی تیار نہیں کیا جاسکا (مثلاً مائٹو کونڈریا یا رائبوسوم وغیرہ)، پورا خلیہ تو بہت آگے کی بات ہے. ارتقائی اتفاقات کے تحت کسی اولین خلئے کا از خود وجود میں آ جانا اتنا ہی تصوراتی ہے جتنا ایک سینگ والا اُڑن گھوڑا (یونی کورن).