بات صرف خلئے تک ہی محدود نہیں، بلکہ قدرتی حالات کے تحت ہزاروں سالمات سے مل کر تشکیل پانے والا پروٹین بنانا بھی ناممکن ہے.
پروٹین (Protein) وہ قوی الجثہ سالمات ہوتے ہیں جو امائنو ایسڈز کی خاص تعداد کے مخصوص ترتیب میں ملنے پر بنتے ہیں. یہی سالمات خلئے کے وجود کو بنیاد فراہم کرتے ہیں. اب تک دریافت ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا پروٹین بھی پچاس (50) امائنو ایسڈز پر مشتمل ہے. مگر بعض پروٹین سینکڑوں اور ہزاروں امائنو ایسڈز کا مجموعہ ہوتے ہیں. خلئے کی کارکر دگی میں پروٹین کا کر دار کلیدی اہمیت رکھتا ہے جبکہ پروٹین کی اپنی بنیاد، امائنو ایسڈز ہیں. لیکن اگر پروٹینی زنجیر میں غیر ضروری طور پر کسی امائنو ایسڈ کا اضافہ، کمی یا تبدیلی واقع ہو جائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ پورا پروٹین ہی ناکارہ ہوکر رہ جائے. نظریہ ارتقاء، جو امائنو ایسڈز کی "حادثاتی/ اتفاقیہ تشکیل" کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے، اپنی بنیادیں پروٹین کی تشکیل پر استوار کرتا ہے.
امکان (Probability) کے سادہ ترین حساب کے ذریعے ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ پروٹین کی کارآمد ساخت کسی بھی طرح سے اتفاق کا نتیجہ نہیں ہو سکتی.
نظامِ قدرت میں کل 20 قسم کے امائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں. انہی کی مختلف نسبتوں اور تناسبوں کے رد و بدل سے مختلف پروٹین بنتے ہیں. اب اگر ہم اوسط جسامت والا کوئی پروٹینی سالمہ فرض کر لیں جو 288 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہو، تو یہ امائنو ایسڈز 10300 مختلف طریقوں کے ذریعے مل کر 288 یونٹوں (امائنو ایسڈز) والی پروٹینی زنجیر بناسکتے ہیں. (10300 کا مطلب ہے 1 کے بعد 300 صفر!) ان تمام ممکنہ سلسلوں (زنجیروں ) میں سے صرف ایک زنجیر ایسی ہو گی جو ہمارے مطلوبہ خواص کا حامل پروٹین بنائے گی. اسے ریاضی کی زبان میں اس طرح سے کہا جائے گا کہ مذکورہ بالا پروٹین حاصل ہونے کا امکان 10300 میں سے صرف ایک (1) ہے. امائنو ایسڈز کی باقی زنجیریں یا تو زندگی کے لئے بے کار ہوں گی یا پھر نقصان دہ. مطلوبہ خواص کا حامل مفید پروٹین "اتفاق سے" حاصل ہونے کا یہ امکان اس قدر کم ہے کہ اسے تقریباً ناممکن سمجھا جاسکتا ہے. مزید یہ کہ 288 امائنو ایسڈز والے پروٹین کی مثال خاصی کم تر درجے کی ہے. ورنہ بہت سے بڑے پروٹین ہزاروں امائنو ایسڈز تک کا مجموعہ ہوتے ہیں. جب ہم ان پر امکان کے اسی حساب کتاب کا اطلاق کرتے ہیں تو "ناممکن" جیسا لفظ بھی حقیر دکھائی دینے لگتا ہے.
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک پروٹین کی اتفاقیہ تشکیل ناممکن ہے تو اس کے مقابلے میں لاکھوں پیچیدہ پروٹینز کا بیک وقت، اور اس قدر منظم انداز سے وجود میں آنا اور خلئے کی تکمیل کرنا، اس سے بھی لاکھوں گنا زیادہ ناممکن ہے. پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ خلیہ محض پروٹینز کا مجموعہ نہیں ہے. خلئے میں پروٹینز کے علاوہ نیو کلیئک ایسڈز، کاربوہائیڈریٹس، روغنیات اور متعدد انواع و اقسام کے دوسرے کیمیائی مرکبات بھی پائے جاتے ہیں. . . اور یہ تمام کے تمام اپنی ساخت اور ذمہ داریوں، دونوں کے اعتبار سے مکمل نظم و ضبط کے ساتھ، آپس میں پوری طرح سے ہم آہنگ اور متناسب رہتے ہیں.
یہاں تک آنے کے بعد ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ خلئے کے لاکھوں پروٹینز میں سے کسی ایک کی تشکیل بھی نظریہ ارتقاء کی مد د سے بیان نہیں کی جاسکتی، چہ جائیکہ خلئے کے ارتقاء پر بحث کی جائے.
ترکی میں ارتقاء کے مشہور اور مستند ترین ماہر، پروفیسر ڈاکٹر علی دیمر سوئے، اپنی کتاب "موروثیت اور ارتقاء" (Kalitim ve Evrim) میں سائٹو کروم سی (Cytochrome-C) نامی اہم خامرے کی اتفاقیہ تشکیل پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"سائٹو کروم سی سلسلے کی (اتفاقیہ) تشکیل کا امکان صفر جتنا ہی ہے. یعنی اگر زندگی کے لئے کسی مخصوص (سالماتی) سلسلے کی ضرورت ہے، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بننے کا واقعہ پوری کائنات (کی مجموعی تاریخ) میں صرف ایک مرتبہ ہی ہوا ہو گا. بصورتِ دیگر کسی ایسی مابعد الطبیعاتی قوت نے اسے تخلیق کیا ہو گا، جو ہماری سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے. آخر الذکر کو تسلیم کرنا سائنسی مقاصد کے اعتبار سے موزوں نہیں. لہٰذا ہمیں پہلا مفروضہ ہی ماننا پڑے گا".
ان سطور کے بعد ڈاکٹر دیمر سوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذکورہ امکان، جو صرف اس وجہ سے قبول کیا جاتا ہے کہ یہ "سائنس کے مقاصد کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے" غیر حقیقت پسندانہ ہے:
"سائٹو کروم سی بنانے والا، امائنو ایسڈز کا خاص الخاص سلسلہ (اتفاقاً ) وجود میں آ د لبحًاھرات الار جانے کا امکان اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ کسی بندر کا ٹائپ رائٹر استعمال کرتے ہوئے مکمل انسانی تاریخ لکھنا۔۔۔ اس پر یہ بھی مان لینا کہ بندر، ٹائپ رائٹر کی کلیدوں (Keys) کو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر دبا رہا ہے"۔
پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کا درست تسلسل ہی زندگی کے لئے کافی نہیں. اس کے علاوہ ان تمام کے تمام امائنو ایسڈز کا "بائیں ہاتھ والا" (Left Handed) ہونا بھی لازمی ہے. کیمیائی اعتبار سے امائنو ایسڈز کی دو اقسام ہیں، جن میں سے ایک کو "بائیں ہاتھ والے" اور دوسری کو "دائیں ہاتھ والے" (Right Handed) امائنو ایسڈز کہا جاتا ہے. ان کی سہ جہتی ( 3 Dimensional) ساخت کے پیشِ نظر، ان امائنو ایسڈز کا باہمی فرق اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ہمارا اور آئینے میں ہمارے عکس کا. اسی چیز کو "عکسی تشاکل" (Mirror Symmetry) بھی کہا جاتا ہے. گویا اگر ہم سیدھا (دایاں ) ہاتھ ہلائیں گے تو آئینے میں ہمارا عکس اُلٹا (بایاں ) ہاتھ ہلائے گا. امائنو ایسڈز کا فرق اس طرح سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ سیدھے (دائیں ) ہاتھ سے لکھتے ہیں اور بعض لوگ اُلٹے (بائیں ) ہاتھ سے. بس یہی فرق دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز میں بھی ہوتا ہے. ان دونوں اقسام کے امائنو ایسڈز، قدرتی طور پر یکساں تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہ ایک دوسرے سے جڑنے کی پوری صلاحیت بھی رکھتے ہیں. اس کے باوجود، تحقیق سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے کہ جاندار اشیاء میں پائے جانے والے تمام پروٹینز، صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے مل کر بنے ہیں. اور یہ کہ اگر پروٹین کی سالماتی زنجیر میں دائیں ہاتھ والا کوئی امائنو ایسڈ شامل ہو جائے تو وہ اسے ناکارہ بنا دے گا.
اب اس مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں. فرض کیجئے کہ زندگی واقعی کسی اتفاق کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی تھی، جیسے کہ ارتقاء پرستوں کا دعویٰ ہے. ایسی صورت میں "اتفاق سے" بننے والے، دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو بھی یکساں تعداد میں ہونا چاہئے تھا. یہ سوال کہ آخر پروٹینز صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے کیوں بنتے ہیں، اور یہ کہ زندگی کی تخلیق میں دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز نے کوئی کر دار کیوں ادا نہیں کیا، آج تک ارتقائی ماہرین کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے. برٹانیکا سائنس انسائیکلو پیڈیا میں، جو ارتقاء کا زبردست حامی بھی ہے، مصنفین یہ بتاتے ہیں کہ زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں اور پروٹین جیسے پیچیدہ پولیمرز (Polymers) کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز صرف اور صرف بائیں ہاتھ والے ہیں. یہیں پر وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ ایسی صورتحال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے دس لاکھ مرتبہ سکّہ اچھالا جائے اور ہر مرتبہ اس کا صرف ایک ہی رُخ بار بار اوپر آئے. اسی انسائیکلوپیڈیا میں وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سالمات کے دائیں یا بائیں ہاتھ والے ہونے کو سمجھنا ناممکن ہے اور یہ کہ اس چیز کا حیرت انگیز طور پر براہ راست تعلق، زمین پر زندگی کی ابتداء سے ہے.
پروٹین میں امائنو ایسڈز کا صحیح تعداد، صحیح تسلسل اور مطلوبہ سہ جہتی ساخت کے ساتھ ترتیب میں ہونا بھی کافی نہیں. (کارآمد) پروٹین بنانے کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ بازوؤں (arms) والے امائنو ایسڈز کے سالمات، مخصوص نوعیت کے بازوؤں والے دوسرے سالمات ہی سے جڑیں. اس طرح بننے والے بند "پیپٹائڈ بند" (Peptide Bonds) کہلاتے ہیں. امائنو ایسڈز ایک دوسرے کے ساتھ مختلف بند بنا سکتے ہیں لیکن پروٹین صرف اور صرف انہی امائنو ایسڈز سے مل کر بنتا ہے جو آپس میں پیپٹائڈ بند بناتے ہیں.
تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ اگر امائنو ایسڈز آزادانہ طور پر آپس میں ملاپ کرنے لگیں، یعنی انہیں پابند نہ کیا جائے تو ان میں سے 50 فیصد پیپٹائڈ بند بنائیں گے جبکہ باقی کے 50 فیصد مختلف اقسام کے بند تشکیل دیں گے جو پروٹینز میں موجود نہیں ہوتے. مطلب یہ ہوا کہ درست طریقے پر کام کرنے کے لئے، پروٹین بنانے والے ہر امائنو ایسڈ کو دوسرے امائنو ایسڈز کے ساتھ (جو یقیناًبائیں ہاتھ والے ہوں گے ) پیپٹائڈ بند ہی بنانا پڑے گا. ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جو دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو منتخب یا مسترد کرے اور انفرادی طور پر اس امر کی ضمانت فراہم کرے کہ ہر امائنو ایسڈ، دوسروں کے ساتھ صرف پیپٹائڈ بند ہی بنائے گا.
ان حالات کے تحت ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ 500 امائنو ایسڈز والا بالکل درست پروٹین "اتفاقاً" بننے کے کیا امکانات ہیں:
درست ترتیب (تسلسل) سے ہونے کا امکان
1/10650 = 1/20500
بائیں ہاتھ والا ہونے کا امکان
1/10150 = 1/2500
پیپٹائڈ بند کے ذریعے متصل ہونے کا امکان
1/10150 = 1/2499
مجموعی امکان
1/10950، یعنی
10950 میں سے صرف 1 کا امکان!
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ امکان کس قدر کم ہے. یہ تو صرف کاغذی امکان ہے جو پہلی نظر ہی میں ناممکن سے بڑھ کر نظر آ رہا ہے ورنہ عملاً اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے کسی اتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے. ریاضی میں بھی اگر کسی واقعے کے ہونے کا امکان 1050 میں سے 1 ہو تو اس کی وقوع پذیری کا عملی امکان بھی "صفر" (0) ہی تسلیم کیا جاتا ہے.
جب 500 یونٹوں والے پروٹین کے اتفاقیہ تشکیل پانے کا امکان اس قدر ناممکن ہے تو بڑے پروٹینز، ناممکنات کی کن حدوں کو پہنچے ہوئے ہوں گے؟ شاید یہ ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ناممکن ہوں. ہیموگلوبین کا پروٹین، جو ہمارے خون کا جزوِ لازم ہے، 574 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہوتا ہے. یہ نمایاں طور پر مذکورہ بالا مثال والے پروٹین سے بڑا ہے. اب ذرا غور کیجئے کہ ہمارے جسم میں موجود کھربوں سرخ خلیات میں سے ہر ایک خلئے میں لگ بھگ 28 کروڑ ہیموگلوبین پروٹینز موجود ہوتے ہیں. زمین کی متصورہ عمر بھی ایسے کسی سالمے کی اتفاقیہ تخلیق کے لئے کم ہے، خون کے سرخ خلیات کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے. اس تمام بحث کا خلاصہ اتنا ہے کہ ارتقاء کا نظریہ صرف ایک پروٹین کی تشکیل کے مرحلے پر ہی عدم امکان کی ٹھوکر کھا کر، منہ کے بل گرتا ہے. . . اور ناکام ہو جاتا ہے.