اب ہم پر یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ نظریہ ارتقاء کسی خلئے کی اساس بننے والے متعددو متنوع سالمات تک کی معقول وضاحت فراہم کرنے سے قاصر ہے. مزید برآں، جینیات (genetics) کی آمد اور نیوکلیائی ترشوں (Nucleic Acids)، یعنی ڈی این اے اور آر این اے کی دریافت نے نظریہ ارتقاء کے لئے مزید نئی مشکلات پیدا کر دی ہیں.

1953ء میں ڈی این اے (DNA) پر جیمز واٹسن اور فرانسس کرک کی تحقیق نے حیاتیات کے میدان میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا. کئی سائنسدانوں نے اپنی توجہ جینیات پر مبذول کر لی. آج، برسہا برس کی تحقیق کے بعد، سائنس داں ڈی این اے کی ساخت کی خاصی بڑی حد تک نقشہ کشی کر چکے ہیں. (اس کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے گلوبل سائنس، شمارہ جولائی 2000ء بعنوان "جینوم اسپیشل" ملاحظہ فرمائیے. )

آئیے، اس موقع پر ڈی این اے کی ساخت اور کام کے بارے میں بنیادی معلومات کا خلاصہ کرتے ہیں:

ڈی این اے کہلانے والا عظیم و جسیم سالمہ انسانی جسم کے کھربوں خلیات میں سے تقریباً ہر خلئے کے مرکزے (Nucleus) میں موجود ہوتا ہے. اسی میں انسانی جسم کی ساخت سے لے کر چھوٹی بڑی تمام خصوصیات کے بارے میں تفصیلی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں. ان پوشیدہ معلومات کو محفوظ کرنے کے لئے خصوصی "رموزی نظام"(Encoding System) استعمال ہوتا ہے. ڈی این اے میں تمام تر جینیاتی معلومات، چار خصوصی سالمات کی ترتیب کی شکل میں ہوتی ہیں. ان سالمات کو مختصراً G,T,Aاور Cکے انگریزی حروفِ تہجی سے ظاہر کیا جاتا ہے، جو ان کے ناموں کے ابتدائی حروف بھی ہیں. مختلف انسانوں میں خدوخال یا دوسری خصوصیات کا فرق انہی چاروں "جینیاتی اساس" (Genetic Bases) کی ترتیب میں معمولی سے رد و بدل کا نتیجہ ہوتا ہے. اگر ہم انسانی جسم کو جینیاتی اساسوں کی زبان میں لکھی ہوئی کتاب سمجھیں تو اس کتاب میں کم و بیش سوا تین ارب (3,250,000,000) حروف تہجی ہوں گے.

کسی خاص عضو یا پروٹین کی تشکیل کرنے والی جینیاتی معلومات ڈی این اے کے جس خصوصی حصے میں ہوتی ہیں اسے "جین" (Gene) کہا جاتا ہے. مثلاً آنکھ کی تشکیل کے بارے میں معلومات، کئی جینز پر مشتمل ایک سلسلے میں موجود ہوتی ہیں، جبکہ دل کی ساخت اور کام وغیرہ کی ساری تفصیلات کے لئے جینز کا ایک اور سلسلہ مخصوص ہوتا ہے. خلیہ، پروٹین کی تیاری کے لئے انہی جینز سے حاصل ہونے والی معلومات استعمال کرتا ہے. تین جینیاتی اساس مل کر ایک امائنو ایسڈ بنانے کا "حکم" تشکیل دیتے ہیں. (تفصیلات کے لئے: "یہ جو زندگی کی کتاب ہے". شمارہ جولائی 2000ء (جینوم اسپیشل)، صفحہ نمبر 38 تا 40).

اس موقع پر بعض تفصیلات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے. جین بنانے والے جینیاتی اساسوں کے (جنہیں نیو کلیوٹائیڈ کے متبادل نام سے بھی پکارا جاتا ہے ) سلسلے میں ہونے والی صرف ایک غلطی بھی اس جین کو خراب یا ناکارہ کر سکتی ہے. اگر ہم فرض کر لیں کہ انسانی جسم میں لگ بھگ دو لاکھ جین ہوتے ہیں تو مزید واضح ہو جاتا ہے کہ لاکھوں نیوکلیوٹائیڈز کا "حادثاتی طور پر" باہم مل، صحیح تسلسل کے ساتھ آپس میں مربوط ہوکر، کارآمد جین در جین بنانا کس قدر ناممکن ہے. ارتقائی حیاتیات داں، فرینک سالسبری اسی نکتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"ایک درمیانے پروٹین میں تقریباً 300 امائنو ایسڈز ہو سکتے ہیں. اسے کنٹرول کرنے والے ڈی این اے میں تقریباً 1000 نیوکلیوٹائیڈ (جینیاتی اساس) موجود ہوں گے. کیونکہ ڈی این اے کی زنجیر میں چار طرح کے نیوکلیوٹائیڈز ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے 1000 یونٹوں والی زنجیر میں یہ 41000 ممکنہ ترتیبوں میں پائے جاسکتے ہیں. تھوڑا سا حساب ہمیں بتاتا ہے کہ

10600 = 41000

یعنی 10 کو 600 مرتبہ اپنے آپ سے ضرب دینے پر ہمیں جو حاصل ضرب ملے گا، وہی یہ رقم ہو گی جس میں 1 کے بعد 600 صفر لگے ہوں گے".

اب ذرا غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ 1 کے بعد 11 صفر لگانے پر ہمیں "ایک کھرب" او ر1 کے بعد 13 صفر لگا کر "ایک پدم" جیسے عظیم اعداد حاصل ہوتے ہیں جہاں ہماری گنتی کے پیمانے بھی جواب دے جاتے ہیں. ذرا سوچئے کہ 1 کے بعد 600صفر والے کسی عد د کے سامنے ہماری اپنی قوت بیان بھی کتنی ناکافی محسوس ہوتی ہے؟ اس معاملے میں ارتقائی ماہر، پروفیسر علی دیمر سوئے یہ تک کہنے پر مجبور ہو گئے:

"کسی پروٹین اور نیوکلیئک ایسڈ (ڈی این اے یا آر این اے ) کے اتفاقاً تشکیل پانے کے امکانات درحقیقت ناقابلِ فہم حد تک کم ہیں. پھر کسی مخصوص پروٹینی زنجیر کی ارتقاء پذیری کے امکانات تو اس سے بھی کہیں کم تر ہیں".

ان تمام ناممکنات کے علاوہ، ڈی این اے اپنی دوہری چکر دار زنجیر جیسی ساخت کے باعث حیاتیاتی تعاملات میں براہِ راست حصہ نہیں لے سکتا. لہٰذا اسے زندگی کی ارتقائی بنیاد سمجھنا بھی ناممکن ہے.

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ڈی این اے، بعض خامروں (Enzymes) کی مد د سے اپنی نقلیں تیار کرنے کے قابل ہوتا ہے جبکہ خامرے بذاتِ خود انہی احکامات کے نتیجے میں بنتے ہیں جو "جینیاتی رموز" (Genetic Codes) کی شکل میں، ڈی این اے کے اپنے اندر محفوظ ہوتے ہیں. مطلب یہ کہ ڈی این اے اور خامرے، دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں. اب یا تو یہ دونوں ایک ساتھ ہی وجود میں آئے تھے یا پھر ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے پہلے "تخلیق" کیا گیا تھا. خرد حیاتیات (Microbiology) کے امریکی ماہر جیکب سن اس کیفیت پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں:

"نسل خیزی، دستیاب ماحول سے توانائی اور (درکار) اجزاء کا حصول، سلسلوں کی افزائش، اور احکامات کو افزائش میں بدلنے والے اثر پذیر نظام کے لئے ساری اور مکمل ہدایات کو اُس وقت (جب زندگی کی ابتداء ہوئی) ایک ساتھ موجود ہونا چاہئے تھا. ان واقعات کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا اس قدر ناممکن ہے کہ ہماری سمجھ سے ماوراء ہے، اور اکثر کسی خدائی مداخلت کا مرہونِ منت ہی سمجھا جاسکتا ہے".

مذکورہ بالا عبارت، ڈی این اے کی ساخت دریافت ہونے کے صرف دو سال بعد تحریر کی گئی تھی. بعد ازاں سائنس میں ہونے والی بے تحاشا ترقی کے باوجود یہ عقدہ آج بھی ارتقاء پرستوں کے لئے لاینحل بنا ہوا ہے. قصہ مختصر یہ کہ نسل خیزی (تولید) میں ڈی این اے کی ضرورت، اس عمل میں بعض پروٹینز (خامروں ) کی لازمی موجودگی، اور ڈی این اے میں موجود ہدایات کی مطابقت میں ان پروٹینز کے استعمال ہونے جیسی ضروریات، ارتقائی نظریات کا ہوائی محل ڈھانے کے لئے کافی ہیں.

جنکر (Junker) اور شیرر (Scherer) نامی دو جرمن سائنس دانوں نے کیمیائی پیمانے پر ارتقاء کے لئے درکار تمام سالمات کی تشکیل کا عمل اور مختلف و متنوع کیفیات کی ضرورت بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان مادوں کا نہایت مختلف حالات کے تحت وجود پذیر ہو کر، کارآمد انداز میں یکجا ہونا "صفر" امکان کا حامل ہے:

"اب تک ایسا کوئی تجربہ معلوم نہیں ہو سکاہے جس کے ذریعے ہم کیمیائی ارتقاء کے لئے درکار تمام ضروری سالمات حاصل کر سکیں. لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مختلف الاقسام سالمات انتہائی موزوں حالات کے تحت مختلف مقامات پر بنائے جائیں اور پھر انہیں ضرر رساں عوامل مثلاً آب پاشیدگی (hydrolysis) اور ضیاء پاشیدگی (Photolysis) وغیرہ سے بچاتے ہوئے، باہمی تعامل کے لئے ایک جگہ پر جمع کیا جائے". یعنی نظریہ ارتقاء ان ارتقائی مراحل کی وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہے جو مبینہ طور پر سالماتی سطح پر وقوع پذیر ہوتے ہیں.

اب تک جو کچھ بھی ہم نے کہا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امائنو ایسڈز اور ان کی حاصلات (Products) سے لے کر جانداروں کے خلیات بنانے والے پروٹینز تک، کچھ بھی زمین کے نام نہاد "ابتدائی ماحول" میں ہرگز (از خود) نہیں بن سکتا تھا. علاوہ ازیں دوسرے عوامل جیسے کہ پروٹینز کی نہایت پیچیدہ ساخت، ان کی دائیں یا بائیں ہاتھ والی ساخت، پیپٹائڈ بند بننے کی مشکلات وغیرہ، یہ سب اس ایک سبب کے مختلف اجزاء ہیں جو یہ تعین کرتا ہے کہ نہ تو زمین کے ابتدائی ماحول میں ان کا "اتفاق" سے بننا ممکن تھا اور نہ ہی انہیں مستقبل کے کسی تجربے میں حاصل ہی کیا جاسکے گا.

اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ پروٹین حادثاتی طور پر کسی طرح سے بن گئے تھے تب بھی ان کی تشکیل بے معنی ہو گی. پروٹینز میں اپنی افزائش (Reproduction) کی قطعاً کوئی صلاحیت نہیں. پروٹین تو صرف ڈی این اے اور آر این اے جیسے سالمات میں پوشیدہ معلومات کی مطابقت میں بنتے ہیں. یعنی پروٹینز کی افزائش، ڈی این اے اور آر این اے کے بغیر ناممکن ہے. ڈی این اے کے رموز ہی یہ تعین کرتے ہیں کہ ہر پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کی ترتیب کیا ہو گی. مگر وہ تمام لوگ جو اب تک ان سالمات کا مطالعہ کر چکے ہیں، انہوں نے ہی بڑے پیمانے پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ڈی این اے اور آر این اے کا اتفاقاً بن جانا قطعاً ناممکن ہے.