سب سے پہلے تو 98 فی صد یکسانیت کے نظرئیے کو واضح کر دینا چاہیے کہ جو انسان اور چیمپینزی کے ڈی این اے کے حوالے سے ارتقا پرستوں نے پھیلایا ہے. ہونا یہ چاہیے تھا کہ انسان اور چیمپینزی کی جینیاتی بناوٹ کے درمیان 98 فی صد مماثلت کے حوالے سے کوئی دعویٰ کرتے ہوئے انسانی جینوم کی طرح چیمپینزی کے جینوم کی بھی نقشہ کشی کی جاتی او رپھر دونوں کے جینوم کا موازنہ کیا جاتا. اس موازنے کے نتائج کا مطالعہ کیا جاتا. جبکہ ایساکوئی مطالعہ دستیاب نہیں ہے، کیونکہ اب تک صرف انسانی جین کی نقشہ کشی کی گئی ہے. چیمپینزی کے لیے اب تک ایسی کوئی تحقیق نہیں کی گئی.

حقیقت یہ ہے کہ انسان اور بندر کے جین کے درمیان 98 فی صد مماثلت جو ایک اہم موضوع بن چکا ہے، ایک غلط پروپیگنڈا ہے جو آج سے برسوں پہلے تیار کر لیا گیا تھا. دراصل انسان اور چیمپینزی میں پائی جانے والی تیس چالیس بنیادی پروٹینز کے امائنو ایسڈز کے سلسلوں (Sequences) کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا تیار کیا گیا اور غیر معمولی مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس مماثلت کو بیان کیا گیا. اس سلسلے کا تجزیہ "ڈی این اے ہائبریڈائزیشن" (DNA hybridization) نامی طریقے سے کیا گیا ہے. اگرچہ اس طریقے میں پروٹین کا تجزیہ شامل ہے، لیکن اس میں محدود پیمانے پر پروٹینز کا موازنہ کیا گیا ہے. جبکہ ابھی ایک لاکھ جین باقی ہیں، گویا انسان میں ان جینز میں ایک لاکھ پروٹینز کوڈ ہیں. چونکہ ایک لاکھ پروٹینز میں سے صرف چالیس میں مماثلت پائی جاتی ہے، اس لیے اس دعوے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ انسان اور بندر کے 98 فی صد جینز یکساں ہیں.

دوسری جانب ان چالیس پروٹینز پر مشتمل "ڈی این اے کا موازنہ" (DNA comparison) بھی متنازعہ ہے. یہ موازنہ 1987ء میں دو ماہرین حیاتیات سبلے (Sibley) اور آلکیسٹ (Ahlquist) نے تیار کیا تھا اور "مالیکیولر ایوولوشن" (Molecular Evolution) نامی جریدے میں شائع ہوا تھا. تاہم بعد میں سارخ (Sarich) نامی ایک اور سائنس داں نے مذکورہ بالا سائنس دانوں کی معلومات کو جانچا اور کہا کہ ان دونوں نے اس دوران جو طریقہ اختیار کیا اس کا معیار متنازعہ ہے اور نتائج میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے. (Sarich et al,1989, Cladisticts, 5:3-32). ایک اور ماہر حیاتیات ڈاکٹر ڈون بیٹن نے بھی 1996ء میں اس معاملے کا تجزیہ کیا اور کہا کہ اصل مماثلت 98 فی صد نہیں، 2ء96 فی صد ہے.