اوپر ذکر کردہ بنیادی پروٹین کئی دیگر جان داروں میں بھی موجود ہے. انسان میں پائے جانے والی والی پروٹین صرف چیمپینزی ہی میں نہیں، بہت سی بالکل مختلف انواع میں بھی پائی جاتی ہے. مثال کے طور پر ہفتہ روزہ "نیو سائنٹسٹ" میں شائع ہونے والے ایک جینیاتی تجزئیے سے انکشاف ہوا کہ نیماٹوڈی حشرات (Nematode Worms) اور انسان کے ڈی این اے کے مابین 75 فی صد مماثلت پائی جاتی ہے. (نیوسائنٹسٹ، 15 مئی 1999ء، صفحہ 27) اس کا یقیناًیہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اور ان حشرات میں صرف 25 فی صد فرق پایا جاتا ہے. ارتقا پرستوں کے تیار کردہ " شجرۂ نسب" (فیملی ٹری) کے مطابق کور ڈاٹا فائیلم( Chordata Phylum 236 جس میں انسان شامل ہے ) اور نیما ٹوڈا فائیلم گروپ کے جان دار آج سے 530 ملین سال پہلے بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے.

دوسری جانب ایک اور سائنسی مطالعے کے مطابق، پھل مکھی (فروٹ فلائی 236 جو ڈروسوفیلا قسم کے جان داروں میں شمار ہوتی ہے ) اور انسانی جینز میں 60 فی صد مماثلت پائی جاتی ہے.

مختلف جان داروں کی پروٹینز پر کیے گئے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر انسان سے مختلف ہونے کے باوجود ان کے پروٹینز انسانی پروٹین سے بہت مشابہ ہیں. کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے سطح زمین پر بسنے والے جانوروں کی پروٹین کا موازنہ کیا. حیران کن طور پر ان تمام نمونوں میں سے مرغی او رانسان کے نمونوں کو انتہائی قریب پایا گیا. اس کے بعد دوسرا قریبی نمونہ "مگر مچھ" کا تھا. (نیو سائنٹسٹ، 16 ؍ اگست1984ء، صفحہ 19)

انسان اور بندر کے درمیان مماثلت ثابت کرنے کے لیے ارتقا پرست چیمپینزی اور گوریلا کے 48 کروموسوم اور انسان کے 46 کروموسوم کی دلیل پیش کرتے ہیں. ارتقا پرست دونوں جنسوں کے درمیان کروموسوم کی تقریباً یکساں تعداد کو ان دونوں کے درمیان ارتقائی رشتے کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں. لیکن اگر ارتقا پرستوں کی اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر انسان کا چیمپینزی سے بھی زیادہ قریبی رشتہ "ٹماٹر" سے ہونا چاہیے، کیونکہ ٹماٹر میں کروموسوم کی تعداد انسان میں کروموسوم کی تعداد کے بالکل برابر ہوتی ہے یعنی چھیالیس!

جینیاتی مماثلت یا یکسانیت کا خیال، نظریہ ارتقا کی شہادت نہیں دیتا. او ر اس کی وجہ یہ ہے کہ جینیاتی مماثلتیں ارتقائی ضابطے (ایوولوشن اسکیم) سے تعلق نہیں رکھتیں (جیسا کہ ظاہر کیا جا رہا ہے) اور بالکل الٹ نتائج سامنے آ رہے ہیں.

جینیاتی مماثلتیں "ارتقائی ضابطہ" کو غلط ثابت کرتی ہیں جب اس حوالے سے مجموعی طورپر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ "حیاتی کیمیائی مماثلتوں" کا موضوع ارتقا کے شواہد میں سے نہیں ہے بلکہ یہ موضوع تو نظریہ ارتقا کو ایک لغزش قراردیتا ہے. ڈاکٹر کرسچین شوابے (ساؤتھ کیرولینا یونیورسٹی کے میڈیکل فیکلٹی میں حیاتی کیمیا کے محقق) ایک ارتقا پرست سائنس داں ہیں جنہوں نے سالموں میں ارتقا کے شواہد تلاش کرنے کے لیے کئی برس صرف کیے ہیں. انہوں نے خاص طور پر انسولین اور ریلیکسن ٹائپ پروٹینز (Relaxin-type Proteins) پر تحقیق کی ہے اور مختلف جان داروں کے درمیان ارتقائی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے. تاہم انہیں کئی بار اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تحقیق کے دوران کبھی بھی ارتقا کے شواہد حاصل نہیں کر سکے. جریدہ "سائنس میگزین" میں شائع شدہ ایک مضمون میں انہوں نے کہا:

"Molecular evolution is about to be accepted as a method superior to palaeontology for the discovery of evolutionary relationships. As a molecular evolutionist I should be elated. Instead it seems disconcerting that many exceptions exist to the orderly progression of species as determined by molecular homologies; so many in fact that I think the exception, the quirks, may carry the more important message" (Christian Schwabe 'On the Validity of Molecular Evolution', Trends in Biochemical Sciences. V.11, July 1986)

سالماتی حیاتیات میں ہونے والی نئی دریافتوں کی بنیاد پر ایک ممتاز حیاتی کیمیا داں پروفیسر مائیکل ڈینٹن کا اس ضمن میں خیا ل ہے کہ:

"Each class at molecular level is unique, isolated and unlinked by intermediates. Thus,molecules like fossils, have failed to provide the elusive intermediates so long sought by evolutionary biology... At a molecular level, no organism is 'ancestral' or 'primitive' or 'advanced' compared with its relatives... There is little doubt that if this molecular evidence had been available a century avo... the idea of organic evolution might never been accepted." (Michael Denton, Evolution; A Theory in Crisis, London; Burnett Books 1985 pp.290-291)