1912 ء میں ایک مشہور ڈاکٹر اور شوقیہ معدومی بشریات دان (Amateur Paleoanthropologist) چارلس ڈاسن نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے پلٹ ڈاؤن، برطانیہ کے مقام سے جبڑے کی ہڈی اور کھوپڑی کے حصے ملے ہیں. اگرچہ یہ کھوپڑی انسانی نما تھی لیکن جبڑا نمایاں طور پر بندروں جیسا تھا. ان نمونہ جات کو "پلٹ ڈاؤن آدمی" (Piltdown Man) کا نام دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ رکازات پانچ لاکھ سال قدیم ہیں. علاوہ ازیں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ یہ رکازات انسانی ارتقاء کے ضمن میں حتمی ثبوت کا درجہ رکھتے ہیں. چالیس سال تک اس "پلٹ ڈاؤن آدمی" پر متعدد مقالہ جات لکھے گئے، کئی تصاویر بنائی گئیں، وضاحتیں پیش کی گئیں اور اس رکاز کو انسانی ارتقاء کی فیصلہ کن شہادت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا.
مگر 1949ء میں جب سائنس دانوں نے ایک بار پھر اس کا تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ "رکاز" بڑی سوچی سمجھی جعلسازی تھا، اور جسے انسانی کھوپڑی کو گوریلے کی ایک قسم (Orangutan) کے جبڑے کی ہڈی سے ملا کر تیار کیا گیا تھا. فلورین تاریخ نگاری (Fluorine Dating) کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ابتداء میں محققین نے دریافت کیا کہ انسانی کھوپڑی صرف چند ہزار سال پرانی تھی. اور نگوٹان کے جبڑے ہڈی میں دانت مصنوعی طور پر پھنسائے گئے تھے. علاوہ ازیں ان رکازات کے ساتھ ملنے والے "قدیم" اوزار بھی جعلی تھے جنہیں دھاتی آلات کے ذریعے یہ شکل دی گئی تھی. اوکلے، وائنر اور کلارک نامی ماہرین کا یہ مطالعہ 1953ء میں مکمل ہوا اور اسی سال عوام کے سامنے پیش کر دیا گیا.
حتمی نتائج کے مطابق یہ کھوپڑی صرف 500 سال پہلے کے کسی آدمی کی تھی اور نچلے جبڑے کی ہڈی، شکار کئے ہوئے اور نگوٹان سے لی گئی تھی! بعد "مطالعات": ازاں اس کے دانتوں کو قطار کی شکل دے کر جبڑے میں لگایا گیا اور جوڑوں کو باریک ریتی سے گھس کر ایسے بنایا گیا کہ وہ کسی انسان سے مماثل دکھائی دینے لگیں. آخر میں ان سارے ٹکڑوں کو "قدیم" ظاہر کرنے کے لئے پوٹاشیم ڈائی کرومیٹ سے داغدار کر دیا گیا. (یہ دھبے، تیزاب میں ڈبوتے ہی غائب ہو گئے. ) اس تحقیقی ٹیم کا ایک رکن، لی گروس کلارک اپنی حیرت نہیں چھپا سکا. چنانچہ اس کے الفاظ تھے:
"مصنوعی خراشوں کی شہادتیں فوراً ہی آنکھوں کے سامنے ابھرتی ہیں. عملاً یہ اتنی واضح تھیں کہ یہ پوچھا جاسکتا ہے: یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی نے اتنے لمبے عرصے تک انہیں محسوس ہی نہ کیا ہو؟"