اگر مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کا دعویٰ درُست ہوتا تو ہر مخلوق میں اَیسا اِرتقاء عمل میں آتا کہ وہ اَمیبا (Amoeba) سے شروع ہو کر زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ہی قسم کی اَصناف بناتی چلی جاتی. اور یوں اُس امیبا سے ایک ہی قسم کے کیڑے، ایک ہی قسم کی مچھلی، ایک ہی قسم کے پتنگے اور ایک ہی قسم کے پرندے نکلتے یا زیادہ سے زیادہ ہر ایک کی چند ایک اَقسام ہو جاتیں. (حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ) صرف پتنگوں کی 3لاکھ سے زیادہ اقسام ہیں. پھر یہ کس قسم کا اِرتقاء ہے؟

مزید برآں جانوروں کی تمام اَنواع میں ہر قسم کی قابلِ تصوّر اَقسام پائی جاتی ہیں. جیومیٹری اور حیاتیات کی تقریباً تمام ممکنہ صورتوں میں مخلوقات کی اَنواع و اَقسام موجود ہیں. رنگوں کے 10,000سے زائد نمونے تو صرف تتلیوں کے پروں میں پائے جاتے ہیں. اِس کے علاوہ ہر نوع اپنی چھوٹی اور بڑی جسامتیں رکھتی ہے. جیسا کہ:

چھپکلی اور مگرمچھ
بلی اور شیر
امریکی چوہا اور خنزیر

اگر اِرتقاء کا کوئی وُجود ہوتا تو ہر نوع ایک ہی سمت میں پروان چڑھتی جبکہ اﷲ ربُّ العزّت نے (اپنی) مخلوقات کی بے شمار اَنواع و اَقسام سے گویا ایک عظیم الشان نمائش کا اِہتمام کر رکھا ہے.