حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کسی صورت ممکن نہیں. آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی سائنسی ذرائع کی معاونت سے کوئی شخص اِس قابل نہیں ہو سکا کہ ایک "سسٹرن" (Cistron). . . جو ایک مخصوص پروٹین کے کوڈ کے لئے (DNA (Deoxyribonucleic Acid کی لمبائی ہوتی ہے. . . میں تبدیلی لا سکے. کسی مخلوق میں کامیاب جینیاتی تبدیلی کی مِثال نہیں ملتی. اِس کی وجہ یہ ہے کہ جینز (Genes). . . جو نامیاتی تعمیر کے فارمولا کی حامل ہوتی ہیں. . . ایک اِنتہائی مخصوص نظام کی حفاظت میں ہوتی ہیں. اگر اَیسا نہ ہوتا تو دُنیا راتوں رات اُوٹ پٹانگ قسم کی مخلوقات سے بھر جاتی. چنانچہ حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کا عمل ناممکن ٹھہرا. جیسا کہ "نِلسن ہیریبرٹ" (Nilson Heribert) نے کہا ہے کہ اَنواعِ حیات کچھ اَیسی ہیں کہ وہ خود بخود بدل سکتی ہیں اور نہ ہی اُنہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے.

"پروفیسر میکس ویسٹن ہوفر" (Prof. Max Westenhofer) نے اپنے مطالعہ (کی روشنی) میں یہ ثابت کیا ہے کہ مچھلی، پرندے، رینگنے والے جانور اور ممالیہ جانور سب ہمیشہ سے ایک ساتھ موجود رہے ہیں. وہ یہ بھی کہتا ہے کہ "پروفیسر ویزمین" (Prof. Weismann) کے ہاں "جاوا کے آدمی" (Java Man) کا تصوّر سائنس کا تمسخر اُڑانے کے مُترادف ہے. اِسی طرح "پروفیسر گِش" (Prof. Gish) نے سائنسی معاشرے کو اِس حقیقت سے آگاہ کیا کہ قدیم اِنسان کا ڈھانچہ جسے "نبراسکا کا آدمی" (Nebraska Man) کہتے ہیں، مکمل طور پر ایک مصنوعی چیز ہے، اور پورے ڈھانچے کی بنیاد محض ایک دانت پر ہے.

یہ ہیں وہ اعتراضات جنہوں نے اس نظریہ کے انجر پنجر تک ہلا دیئے ہیں. گزشتہ ڈیڑھ صدی نے اس نظریہ میں استحکام کے بجائے اس کی جڑیں تک ہلا دی ہیں. اب اس نظریہ کے متعلق چند مغربی مفکرین کے اقوال بھی ملاحظہ فرما لیجئے.