نظریہ ارتقاء کی برصغیر میں درآمد اور منکرین قرآن

ہمارے ہاں مغربی افکار سے مرعوب قرآنی مفکرین نے اسے فوراً اپنا لیا. سرسید احمد خان نے جنہوں نے یورپ میں ایک عرصہ گزارا اور ڈارون کے ہم عصر اور سوامی دیانند سے شدید متاثر تھے. اس نظریہ کو فطرت کے مطابق پایا توا سے قبول کر لیا اور آج ادارہ طلوع اسلام سرسید کی تقلید میں اس نظریہ کے پرچار میں سرگرم ہے. سوچنے کی بات ہے کہ جس نظریہ کو بہت سے مغربی مفکرین مادی اور سائنسی لحاظ سے بھی مردود قرار دے چکے ہیں اسے ہمارے قرآنی مفکرین کو حدیث سے ظنی علم کو رد کر کے اس( یقینی علم) کو سینے سے لگانے کی کیا ضرورت تھی. سائنسی نظریات کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ اپنے تجرباتی اور تحقیقی مراحل سے گزرنے کے بعد سائنسی قانون (Law) بن جاتے ہیں، تب بھی انہیں آخری حقیقت قرار نہیں دیا جاسکتا. بعد میں آنے والے مفکر ایسے قوانین کو رد کر سکتے ہیں. نیوٹن کے دریافت کردہ قانون کشش ثقل کو آئن سٹائن نے مشکوک قرار دیا، یہی صورتحال اس کے قوانین حرکت کی ہے تو کیا ایسی صورت میں ان نظریات کو تحریف و تاویل کے ذریعہ ثابت کرنا کوئی دینی خدمت یا قرآنی فکر قرار دیا جاسکتا ہے؟

پرویز صاحب نے اس نظریہ ارتقاء کو دو شرائط کے ساتھ اپنایا ہے ایک یہ کہ پہلے جرثومہ حیات میں زندگی کسی طرح خود بخود ہی پیدا نہیں ہو گئی تھی بلکہ یہ زندگی خدا نے عطا کی تھی اور دوسری یہ کہ انسان کا فکر و شعور ارتقاء کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ نفخ خداوندی کا نتیجہ ہے اور یہ نفخ روح خداوندی فجائی ارتقاء کے طور پر واقع ہوا. فجائی ارتقاء کے نظریہ کا موجد امام لائڈ مارگن ہے جس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ فجائی ارتقاء ممکن العمل ہے.

اب سوال یہ کہ اگر اللہ ہی کو خالق زندگی اور نفح روح خداوندی کو بطور فجائی ارتقاء عامل تسلیم کرنا ہے تو پھر کیوں نہ آدم علیہ السلام کی خصوصی تخلیق ہی کو تسلیم کر لیا جائے؟تاکہ نظریہ ارتقاء پر پیدا ہونے والے کئی اعتراضات کا ازالہ بھی ہو جائے. مثلاً یہ کہ جب نوع انسانی پہلے سے چلی آ رہی تھی تو کیا نفخ روح اس نوع کے سارے افراد میں ہوا تھا یا کسی فرد واحد میں؟اور اگر کسی فرد واحد میں ہوا تھا تو وہ کون تھا اور یہ واقعہ کس دور میں ہوا تھا؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ان حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں.